یوم آزادی 14 اگست کو شروع ہونے
والا، پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کا آزادی اور انقلاب ،مارچ
جو کہ آگے چل کر اسلام آباد میں دھرنوں میں تبدیل ہوگئے کو ایک ہفتہ ہوگیا
ہے،جاری ہیں۔اس بحث میں پڑے بغیر کہ دونوں دھرنوں کے شرکاء کی تعداد کا
ہندسہ کیا ہے۔اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس سے ریاست اور، ریاستی
امور بہت حد تک متاثر ہوئے ہیں ۔ملک کے اندر اور بیرون ملک کافی سارے
معاملات ایسے ہیں جو آئے روز مزید بگڑتے جارہے ہیں ۔سیاسی اور معاشی بحران
اوراس میں عدم استحکام سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔موجودہ صورتحال کسی
بھی لحاظ سے ریاست کے مفاد میں نہیں ہے۔دونوں جماعتوں کے قائدین کا اگررویہ
نامناسب ہے تو حکمرانوں کو بھی اس سے بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ضرورت
اس امر کی ہے کہ اس کا پائیدار حل تلاش کیا جائے،حزب اقتدار حزب اختلاف کی
جماعتوں کے اب مزید دیر کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔مزید تاخیر سے سب کچھ ملیا
میٹ ہوسکتا ہے۔اور ایک بار پھر سیاست دانوں کی نا کامیابی کا لیبل لگا کر
جمہوریت کی بساط کو لپیٹ نہ دیا جائے ۔اگر ایسا ہوا تو اس کے اکیلے عمرا ن
اور قادری نہیں نواز بھی زمہ دار ہوں گے۔سیاست میں مفاہمت کے زریعے جمہوریت
کے فروغ کی بات کرنے والے لیڈروں کو تماشہ دیکھنے کے بجائے عملی طور پر اس
بحران کے حل کے لیے آگا آنا ہوگا ۔اور ٹوئیٹر پر ٹویٹ بازی کے بجائے
سنجیدگی اختیار کرنا ہوگی۔عمران خان اور علامہ طاہر القادری کو بھی اب
سوچنا ہوگا کہ حالات کہاں جارہے ہیں ۔خدا کے واسطے حالات کو اس نہج پر مت
جانے دیں جہاں سے واپسی ممکن نہ ہو۔
اکثریت کے گھمنڈ سے نکلنے کی ضرورت ہے اور ہم ناگزیر ہیں کے گمان سے نکلنا
ہوگا ۔ہر دو فریقین کی وجہ سے آج ہم پوری دنیا میں تماشہ بن چکے ہیں ۔احتجاجی
سیاست کے بل بوتے پر مطالبات کو منوانے کی مزید کوشش نہ کی جائے ۔اگر دیکھا
جائے تو یہ بات صیح ہے کہ اب ہر دو فریقین سوائے ھٹ دھرمی کے اور کچھ نہیں
کر رہے۔اصل بات قوم کو میسج دینا تھا اور لوگوں کی رائے کو تبدیل کرنا تھا
،جو میسج تھا ہماری نظرمیں وہ دیا جاچکا ہے اور اب لوگوں کی رائے کا انتظار
کیا جائے عوام سے بڑا کوئی منصف نہیں ۔کسی کے Resignسے مسئلہ کاپائیدار حل
نہیں بلکہ کچھ کرنا ہوگا کہ آیندہ کے لیے دھاندلی کا راستہ روکا جائے،قانون
کی حکمرانی اور اداروں کی خود مختیاری کو برقرار ،رکھا جاسکے۔انہتائی معذرت
کے ساتھ عرض کیا جاتا ہے کہ علامہ صاحب جو کچھ اب کررہے ہیں وہ بقول جالب۔
سر منبر وہ خوابوں کے محل تعمیر کرتے ہیں
علاج غم نہیں کرتے فقط تقریر کرتے ہیں۔
اورعمران خان سے بھی معذرت کے ساتھ بقول جالب
گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے
یقین مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو
پس اب اور نہیں ہوگا یہ سب خدا کے واسطے سیدھے مزاکرات کی طرف جاؤ اور
پائیدار حل دو ۔قوم اس کی منتظر ہے- |