انقلاب و آزادی کا خوگر عمران
خان 18سال تک خواب خرگوش کے مزے لیتا رہا اسے نہ انقلاب یاد رہا نہ آزادی
اسے ایک سیٹ لے کر بھی دھاندلی کا شور مچانے کی ہمت نہ ہوئی‘نہ اس کی زبان
نے شعلے اگلے‘نہ ہرزہ سرائی کا طوفان بلند ہوا۔یہ ایسا سویا کہ بدترین
آمریت میں بھی اسے جاگنے اور دھرنا دینے کی توفیق نہ ہوئی ۔ شیرپاؤ کا یہ
استفسار درست ہے کہ اسے دھکاکس نے دیا؟سوال یہ بھی ہے کہ اسے انتخابات کے
چودہ ماہ بعد ہی دھکا کیوں دیا گیا؟اٹھارہ سال تک نہ اس کا ضمیر جاگا نہ
اسے پاکستان کی حالت زار پر ترس آیا اس کے سامنے حالیہ انتخابات سے قبل بھی
تین انتخابات ہوئے لیکن اسے کسی انتخاب میں دھاندلی کا شائبہ تک نہیں
ہوا۔بودی منطق اور پوچ دلائل کا سہارا لے کر یہ لوگوں کو گمراہ کرنے میں
مصروف ہے۔اس کی ہر بات مغلظات کا پلندہ اور ہر حرکت ملک دشمنی سے عبارت ہے
۔یہ سمجھتا ہے کہ بیس کروڑ کے ملک میں وہ ہی واحد ایمانداراور سارے بے
ایمان ہیں۔ملک کو پہنچنے والے اربوں کے نقصان اور عوام کی تکالیف پر بھی اس
’’محب وطن‘‘ کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ گزشتہ دس روز کے دوران اس
نے دشنام طرازی‘ پے درپے جھوٹ بولنے اور وعدہ خلافیوں کے وہ ریکارڈ قائم
کیے کہ الامان و الحفیظ۔ کون نہیں جانتا کہ ملک میں پہلے بھی فحاشی و
عریانی کے کلچر کو عام کرنے کی کوششیں کی جاتی رہیں لیکن عوام نے ناکام بنا
دیں۔ رقص وسرور کی وہ محفلیں جو پہلے چاردیواری تک محدود تھیں آزادی کے نام
پر چوکوں اور چوراہوں تک پہنچا دی گئیں۔وہ ایوان جن کے بارے میں عوام کو یہ
باور کرایا جاتا ہے کہ یہ مقدس ایوان ہیں ان میں سے ایک کا سربراہ سٹیج پر
ٹھمکے لگا رہا اور باقی اس پر سر دھن رہے ہیں ہے جمالو اور بلّو کلچر بھی
اس کے سامنے ہیچ دکھائی دیتا ہے۔فحاشی و عریانی کے پھیلائے گئے کلچر کو وہ
نئے پاکستان کا نام دے رہا ہے ۔عمومی طور پر تھیٹرز میں ایک ہی ڈرامہ کم از
کم پندرہ روز تک دکھایا جاتا ہے لیکن جو تھیٹر عمران خان نے سجایا ہے اس
میں ہر چند گھنٹوں کے بعد ایک نیا ڈرامہ دکھایا جاتا ہے تاکہ لوگوں کو اپنی
طرف مائل کیا جا سکے۔ایک کے بعد دوسرا کردار کنٹینر کی اوٹ سے نمودار ہوتا
ہے اور کٹھ پتلی کی طرح ناچ کر چلا جاتا ہے۔مجمع کی کمی کے خوف سے شام
ڈھلنے سے لے کر رات گئے تک پاکستانیوں سے یہ اپیل کی جاتی ہے کہ وہ دھرنے
میں شرکت کریں کیونکہ اسے خوف ہے کہ تماشائیوں کی تعدادمیں کمی اس کے ڈرامے
کو مکمل طور پر فلاپ نہ کر دے اور اس کا وہ چہرہ سامنے نہ آجائے جس پر اس
نے تہہ در تہہ نقاب چڑھائے ہوئے ہیں۔انتظامیہ اور افسران کو سلطان راہی کی
طرح بڑھکیں مارتے ہوئے دھمکیاں دی جاتی ہیں گویا وہ اس کے ذاتی غلام
ہوں۔حکام کے ساتھ اس کا رویہ اس امر پہ دلالت کرتا ہے کہ یہ عوام کے ساتھ
کیا طرزعمل اختیار کرے گا۔جو ایک صوبے کے وسائل کو اپنے ذاتی مفادات پر
مشتمل احتجاج پر صرف کر رہے ہیں اور سرکاری ادارے کی کرین بھی ان کے ہمراہ
ہے۔ وفاقی وسائل پر ان کی گرفت کے بعد ان کی لوٹ مار کا کیا عالم ہو گا اس
کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔عمران خان کی حالت شیزو فرینیا کے اس
مریض کی سی ہے جس سے کسی بھی لمحے کسی بھی حرکت کی امید کی جا سکتی ہے۔اگر
وہ ملک کا خیرخواہ ہوتا تو مذاکرات سے انکار کرنے کی بجائے عوام کی مشکلات
کا احساس کرکے معاملے کے حل کی راہ ہموار کرتا لیکن اس کے عزائم کچھ اور ہی
ہیں وہ اس سکرپٹ کے تحت آگے بڑھ رہا ہے جو اس کے ہاتھ میں تھمایا گیا
ہے۔تیزی سے ترقی کی راہ پر گامزن ملک کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنا ایک
منظم و مربوط منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے۔ یہ وہی منصوبہ بندی ہے جو لارنس آف
عربیا کی صورت میں سلطنت عثمانیہ کے حصے بکھرے کرنے کے لیے سامنے لائی
گئی۔انگریزوں نے اپنی فوج کے ایک فوجی افسر کو تربیت دے کر عربی زبان
‘اسلام کی تعلیمات ‘ عرب قبیلوں کے رسم و رواج اور ان کی ثقافت کا ماہر
بناکر عرب سرداروں میں بھیج دیا تھا۔ اس وقت تک تمام عرب بڑی وفاداری سے
ترک خلافت کے زیر سایہ خوشحالی کی زندگی گزار ہے تھے۔ برطانیہ کے اس فوجی
افسر جس کو تاریخ میں لارنس آف عربیا کے نام سے جانا جاتا ہے نے ان عرب
قبائلی سرداروں میں گھس کر ترکوں کے خلاف ایسی سازش تیار کی کہ عربوں اور
ترکوں کے دل میں ایک دوسرے کیلئے نفرت پیدا کردی ۔یوں ایک طاقتور سلطنت کے
لوگ آپس کے جھگڑوں میں پڑ کر کمزور ہوگئے۔ انگریز نے اس سازش سے فائدہ اٹھا
کر خلافت عثمانیہ کے ٹکڑے ٹکڑے کردئیے ۔امت مسلمہ کا یہ انجام میدان جنگ
میں کبھی نہیں ہو سکتا تھا۔عمران خان اسی کردار کا حامل’’ لارنس آف
پاکستانیکا‘‘ ہے جسے مخصوص ایجنڈا سونپ کر پاکستان کو نقصان پہنچانے کا ہدف
دیا گیا ہے۔واقفان حال تو یہ بھی کہتے ہیں کہ عمران خان کی کھیلوں کی دنیا
میں شہرت سے فائدہ اٹھا کر اس کی شادی ایک بڑے یہودی سرمایہ کار کی بیٹی سے
کرائی گئی تاکہ اس کی دولت کے ذریعے عمران خان کو ایٹمی ملک پاکستان میں
انتشار پھیلانے کے لیے استعمال کیا جا سکے لیکن جب عامتہ الناس نے اس کی
یہودی عورت سے شادی کو تسلیم نہ کیا تو ایجنڈے کو آگے بڑھاتے ہوئے دونوں
میں طلاق کرا دی گئی تاکہ اسے لوگوں کی ہمدردیاں حاصل ہو سکیں۔اب اس کی
حرکات و سکنات دیوار پر لکھی تحریر کی مانند ہیں کہ وہ کیسے دھاندلی کی آڑ
میں نہ صرف ملک کو زوال و انحطاط کی راہ پر گامزن کر رہا ہے بلکہ قوم کو
آئین وقانون کو پامال کرنے اور سول نافرمانی کی دعوت دے کر بدامنی کی طرف
دھکیل رہا ہے۔بدترین ڈکٹیٹر بھی جو کارنامہ سرانجام نہ دے سکے وہ عمران نے
کر دکھایا ۔مسلمانوں کی بدقسمتی اورہمارے دشمنوں کی خوش قسمتی یہ ہے کہ
انہیں ہر دور میں مسلمانوں کی صفوں میں سے کوئی نہ کوئی میر جعفر‘میر
صادق‘نجیب اﷲ‘ابن علقمی‘ سردار داؤد‘جمال ناصر‘اتاترک اورجنرل السیسی
دستیاب ہو جاتے ہیں۔قوم پوچھتی ہے کہ اٹھارہ سال تک سوئے رہنے والے کو
اچانک کیسے یاد آگیا کہ اسے نیا پاکستان بنانا ہے یہ وہ سوال ہے جس پر غور
کرنے سے ملک کے خلاف دھرنوں کی صورت میں کی جانے والی ان تمام خفیہ سازشوں
کی کڑیاں ایک ایک کر کے ملتی چلی جائیں گی جو پس پردہ ہونے کے سبب دکھائی
نہیں دے رہیں- |