پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان
عوامی تحریک کے ریڈ زون میں دیے گئے دھرنے کا ایک کمال یہ بھی کہ کل تک جو
دست وگریبان تھے اور ایک دوسرے کو الٹا لٹکانے کا دعوی کرتے نہیں تھکتے تھے
آج بغل گیر ہوچکے ہیں میاں برادران کو الیکشن سے قبل اپنی سیاسی دوکانداری
چمکانے کے لیے زرداری کے نام کی ضروت تھی اور آج پھر میاں برداران کو اپنی
سیاست اور حکومت دونوں بچانے کے لیے زرداری کے ساتھ کی ضرورت پڑ گئی ہے اسی
لیے تو کہتے ہیں کہ سیاست منافقت کا دوسرا نام ہے اور سیاست میں کوئی بھی
بات حرف آخر نہیں ہوتی یہی وجہ ہے آج وزیراعظم اپنے آپ کو بچانے کے لیے آصف
علی زرداری کو کھانے پر بلا کر اپنے لیے مدد طلب کررہے ہیں جب ایسی سیاست
کا موقعہ آجائے تو پھرمخالفین کو کچلنے کیلیے سرکاری خزانے کا منہ بھی کھول
دیا جاتا ہے غریب عوام کے ٹیکسوں سے اکٹھی ہونے والی قومی دولت غریبوں پر
خرچ نہیں ہوتی بلکہ پہلے سے ہی لوٹ مار کرنے والے اس کی بندر بانٹ کر لیتے
ہیں صرف گذرنے والے چند دنوں میں حکومت نے سرکاری خزانہ سے صحافیوں سمیت
مختلف جماعتوں کو لاکھوں روپے بانٹ دیے اقتدار پر اپنا قبضہ قائم رکھنے
والے شائد یہ نہیں جانتے کہ جن کے ووٹوں سے یہ اقتدار میں آئے ہیں وہ معصوم
اور غریب پاکستانی بہت بڑی تعداد میں رات کو روٹی کھائے بغیر کھلے آسمان
تلے سوجاتے ہیں مگر وزیر خزانہ جناب اسحاق ڈار صاحب یہ ضرور جانتے ہونگے
کیونکہ وہ ایک لمبے عرصہ سے دربار داتا صاحب کے ساتھ منسلک ہیں اور انکا
باقاعدگی سے یہاں آنا جانالگا رہتا ہے جب سے وہ وفاقی وزیر بنے ہیں اس وقت
سے تو انکا دربار حاضری دینا ایک معمول بن چکا ہے جب وہ دربار آتے ہیں تو
راستہ میں لنگر کی مختلف دوکانوں پر اپنی بھوک مٹانے والوں کی لمبی لائن
بھی ضرور دیکھتے ہونگے اور انہیں یہ بھی معلوم ہوگا کہ غربت اور بے بسی کے
درمیان کیسے لوگ اپنی زندگی گذار رہے ہیں جن کے پاس کھانے کو کچھ ہے نہ
پہننے کو اور نہ ہی رہنے کا کوئی ٹھکانہ ہے جو صورتحال صوبائی دارالحکومت
لاہور کے رہنے والوں کی ہے اس سے بھی بری صورتحال ملک کے دوسرے شہروں میں
رہنے والوں کی ہے اور ڈار صاحب اب خیر سے وزیر خزانہ بھی ہیں انہیں بھی
خیال نہیں آیا کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد ملک کے غریبوں کی حالت بہتر
بنانے کے لیے اپنے وزیراعظم کو کوئی مشورہ ہی دے دیتے مگر مشورہ دینے والے
تو خود بیچارے کنارہ کش ہوجاتے ہیں جس طرح میاں اظہر ہوچکے تھے شائد اسی
لیے ڈار صاحب نے ملک کے غریبوں کے لیے کوئی کام نہیں کیا اگر کیا ہوتا تو
آج داتا صاحب کے دربار کے باہر لائنوں میں لگ کر اور دھکے کھا کر کوئی
انسان روٹی نہ مانگ رہا ہوتا جو انسان اقتدار ملنے کے بعد اپنے شہر اپنے
محلہ اور اپنے گھر سے غربت ختم نہیں کرسکتا وہ پورے ملک میں سے غربت کا کیا
خاتمہ کریگا الٹااس حکومت کے کارناموں سے غریبوں نے تو خودکشیاں شروع کردی
ہیں مائیں اپنے بچوں کے ہمراہ نہروں میں چھلانگیں لگارہی ہیں بے روزگار
نوجوان ڈکیتیاں مار رہے ہیں اور پولیس سمیت تمام ادارے کرپشن کا گڑھ بن چکے
ہیں کیا یہی ہے نیا پاکستان اور انقلاب جسکا میاں نواز شریف اپنی تقریروں
میں ذکر کیا کرتے تھے کہ ہم حکومت میں آکر نئے پاکستان کی بنیاد رکھیں گے
کیا یہی نیا پاکستان ہے جو چھوٹے بھائی میاں نواز شریف اور بڑے بھائی آصف
علی زرداری نے ملکر بنا یا ہے اقتدار کی باریاں لینے والے ایک دوسرے کو
جمہوریت بچانے کے نام پر تحفظ بھی دے رہے ہیں جب آصف علی زرداری اور میاں
نواز شریف کو ایک دوسرے کے سہارے کی ضرورت پڑتی ہے تو دونوں بھائی بھائی بن
جاتے ہیں اور جب عوام کو بیوقوف بنانا ہو تو پھر ایک دوسرے کے دشمن نظر آتے
ہیں جبکہ چھوٹے میاں صاحب بھاٹی چوک میں جلسہ کرتے ہوئے تو یہاں تک کہہ
جاتے ہیں کہ زرداری کے پیٹ سے لوٹی ہوئی دولت نکالوں گا اور پھر انہیں اسی
چوک میں الٹا لٹکا ؤنگا ابھی تو ان باتوں کو بمشکل ڈیڑھ سال کا ہی عرصہ
گذرا ہوگا کہ جناب خادم اعلی صاحب زرداری صاحب کو الٹا لٹکانے کی بجائے
اپنے گھرکھانے پر مدعو کررہے ہیں اور ان سے وہ گر سیکھیں گے جس طریقہ سے
آصف علی زرداری نے اپنے پانچ سال مکمل کیے دیکھتے ہیں کہ جس لٹیرے کے پیٹ
سے لوٹی ہوئی دولت نکالنے کے بڑے بڑے دعوے اور وعدے عوام سے کیے گئے تھے اب
اسی کی مدد سے اپنی حکومت بچانے کے لیے کونسا طریقہ سیکھتے ہیں اب دیکھنا
یہ ہے ایک طرف لوٹ مار کی سیاست کے خلاف احتجاج کرنے والے اسلام آباد میں
دھرنا دیے بیٹھے ہیں تو دوسری طرف ایک دوسرے پر ملک وقوم کو لوٹنے کے الزام
لگانے والے کھانے کی ایک ہی میز کے گرد اکھٹے ہیں دونوں بھائیوں کا مقصد
جمہوریت کو بچانا ہے دونوں بھائیوں کا مقصد جمہوریت کے نام پر عوام کو
بیوقوف بناکر اقتدار کے ایوانوں میں بار بارریاں لگاناہے اور دونوں بھائیوں
کا مقصدجمہور اور جمہوریت کے نام پر کھانا پینا اور ایک دوسرے کو تحفظ
فراہم کرنا ہے کیا اب بھی عوام نہیں سمجھے گی؟؟؟ |