سیاسی بے یقینی کی صورت حال نے ملک میں ایک ہیجان سی
کیفیت پید ا کردی ہے طاہر القادری کا انقلاب اور عمران خان کا آزادی مارچ
کیا رنگ لائے گا اس بارے میں تمام لوگ ابہام کا شکار ہیں صبح اٹھو ،تو یوں
لگتا ہے کہ شام تک مارشل لا آ جائے گا اور شام کو یوں لگتا ہے کہ صبح کو
کوئی طالع آزما آ کر سارے کے سارے نظام کو لپیٹ کر سب کھیل تماشاء ختم کروا
دے گا اس آزادی مارچ سے اور انقلاب مارچ سے پورے ملک میں ہجیانی کیفیت ہے
ہر کسی کو اس صورت حال پر تشویش ہے کہ پتا نہیں کیا ہونے والا ہے حکومتی
ادارے ہی نہیں ریاستی اداروں کو جو نقصان پہنچ رہا ہے اس کی شایدکبھی تلافی
نہ ہو سکے نواز لیگ کی حکومت کو ابھی14ماہ ہی ہوئے ہیں کہ افراتفری پھیل
گئی اس کی سب سے بڑی وجہ کیا ہے ؟ یہ وہ سوال ہے جو ہر پاکستانی کے دماغ
میں گھوم رہا ہے کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ انہوں نے انتخابی مہم میں جو وعدے
کیے انہیں پورا نہیں کرپائے کچھ لوگ اسے کسی اور پر اعتماد نہ کرنے کا رد
عمل کہہ رہے ہیں۔ سوال میرا یہ ہے کہ سیاسی لوگ وہ وعدے کرتے ہی کیوں ہیں
جو کھبی پورا نہ ہو سکیں مثال کے طور پر ن لیگ کے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ
وہ لوڈ شیدنگ کو چھ ماہ میں ختم کریں گے اس کے علاوہ ملک سے کرپشن اقربا ء
پروری سیاسی رشوت اور دیگر مسائل کو حل کریں گے ۔آن دی ریکارڈ انھوں نے
سابق صدر کو پاکستان کے مختلف شہروں کی سڑکوں پر گھسیٹنے کے نعرے بھی لگائے
تھے جسے وہ بد زبانی سے تعبیر نہیں کرتے تھے، بد انتظامی کا خاتمہ اور
کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے گا وغیرہ وغیرہ وہ ان تمام بحرانوں کو
سابق حکومت کی ٹوکری میں ڈال رہے تھے جو کہ بقول ان کے سابق دور حکومت کی
وجہ سے پیدا ہوئے تھے ۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیا آج چودہ ماہ گزر گئے ان میں
سے کسی ایک وعدے پر عمل کے گیا شاید اس کا جواب اکثریت نہ میں دے گی کیونکہ
لوڈشیڈنگ کا مسئلہ جوں کا توں ہے بقول حکومت کے بجلی پیدا کرنے کے کئی
منصوبے لگائے جا چکے ہیں مگر بد قسمتی سے اور آن دی گراونڈ یہ سب کام
فائلوں کی حدتک محدود ہیں ابھی تک نیشنل گڑد کی بجلی سپلائی میں کوئی خاطر
خواہ اضافہ نہیں کیاجا سکا آخر کار ایسا کیوں ہے کیا ہم اگلے کئی سال تک
بجلی آئی ،بجلی گئی کا کھیل کھیلتے رہیں گے آپ گیس کی مثال لے لیں گیس
اسٹیشنوں پر گاڑیوں کی اتنی لمبی قطاریں لگی ہوتی ہیں کہ ٹریفک کو رواں
دواں رکھنے کے لئے وہا ں پر ٹریفک وارڈن کو تعینات کرنا پڑ جاتا ہے لوگ گیس
کی خاطر اپنی راتیں ان گیس سٹیشنوں پر گزار نے پر مجبور ہیں کیا ان چودہ
ماہ میں کچھ بدلا بھی ہے تو اس کا جواب بقول دوسری سیاسی جماعتوں کے
کارکنوں کے کچھ نہیں بدلا صرف نام بدلا ہے ایک وزیر اعظم کی جگہ دوسرا اور
ایک صدر کی جگہ دوسرا صدر آ گیا ہے۔ جبکہ مسلم لیگ ن کے ورکر یہ کہتے ہیں
کہ جناب سب کچھ تو بدل دیا گیا ہے حالات بہتری کی جانب جا رہیں اس کے لئے
وقت چاہیے جبکہ طاہر القادری کا انقلاب اور عمران خان کا آزادی مارچ انھیں
وقت نہ دے کر زیادتی کر رہے ہیں عوام نے حکومت کو پانچ سال کے لئے منتخب
کیا، اور طاہر القادری کے انقلاب اور عمران خان کے آزادی مارچ نے ایک سال
بعد ہی حساب لینا شروع کردیا جبکہ دوسری طرف اگر پی ٹی آئی یا پی اے ٹی کے
کارکنوں کو سنا جائے تو وہ وہ کہتے ہیں کہ موجودہ حکومت نے تاریخ کی سب سے
بڑی دھاندلی کی ہے جس کے بہت سے ثبوت پی ٹی آئی کے پاس ہیں انتخابی دھاندلی
کا جہاں تک سوال ہے تو وہ ہر ہارنے والا لگاتا ہے، تاہم اس کا ایک آئینی
اور قانونی راستہ ہے عدالتیں کھلی ہیں جہاں پر ان کے بارے میں فیصلے کیے جا
سکتے ہیں پی ٹی آئی کا یہ موقف ہے کہ ان عدالتوں میں کیسوں کو اتنا لٹکایا
جاتاہے کہ ٹائم ہی اوور ہو جاتا ہے جیسا کہ مسلم لیگ ن والے کہہ رہے ہیں کہ
اب انگھوٹوں کے نشانات کی تصدیق ممکن نہیں ہے کیونکہ وقت گزر چکا ہے جس سے
انگھوٹوں کے نشانات کی تصدیق ہو سکے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ کچھ نہ کچھ کالا
ضرور ہے اس سے پی ٹی آئی کے موقف کی تائید ہوتی ہے کہ حکومت خود جان بوجھ
کر وقت گزار رہی ہے تا کہ: نا رہے گا بانس نا بجے گی بانسری: لیکن حکومت کو
یہ بات بھی یاد رکھنی ہو گی کہ اب وہ وقت نہیں رہے جب لوگ خاموش بیٹھ جایا
کرتے تھے اب سوشل میڈیا کا دور ہے کوئی بھی بات ایک منٹ سے پہلے پوری دنیا
میں پھیل چکی ہوتی ہے لہذا اب وہ پرانی کارگریاں نہیں چلیں گی اور نہ ہی اس
نوجوان نسل کو کسی بھی طور پر ایسے کسی لولی پاپ کو ماننے والی ہے اس لئے
جو بھی کرنا ہے وہ جلد از جلد کر لیا جائے اگر کچھ حلقے کھولنے ہیں تو ان
کو کھولا جائے اور ان پر فوری کام ہونا چاہیے بہت سے لوگ اس بحران میں کسی
تیسری قوت کے آنے کے اشارے دے رہے ہیں جہاں تک تیسری قوت کے آنے کا خدشہ ہے
تو ایسا درست نہیں ہے اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو کیا مسلم لیگ نواز،پیپلز
پارٹی ،عوامی نیشنل پارٹی یا دیگر جمہوری قوتیں مارشل لا کے خلاف کھڑی نہیں
ہو جائیں گی۔افواہیں تو یہ بھی کہتی ہیں کہ کچھ نادیدہ قوتیں سابق چیف جسٹس
کے جانے کا انتظا ر کررہی تھی۔ایک خدشہ یہ بھی ہے کہ نادیدہ قوتیں جو مشرف
کو باہر بھیجنا اور غداری کیس کا خاتمہ چاہتی تھی وہ اس سیاسی ہلچل کے
پیچھے ہیں،تاکہ وہ اپنے مقاصد پورے کرسکیں۔
یہ ضرور ہے کہ موجود بحران میں پاکستان آرمی کو اپنا کردار ادا کرتے ہوئے
تمام اسٹیک ہولڈر کو یہ باور کرانا چاہیے کہ بامقصد مذاکرات ہی تمام مسائل
کا حل ہیں لیکن ساتھ ساتھ ضرورت اس امر کی ہے کہ انقلاب اور تبدیلی کے نام
پرہر صورت کسی بھی غیر جمہوری عمل سے بچا جائے۔اور حکومت کو بھی چاہیے کہ
طاہر القادری کے انقلاب اور عمران خان کے آزادی مارچ کو سنجیدہ لے اور ان
کو مذاکرات کی میز پر لایا جائے کیونکہ مذاکرات ہی سیاسی بحرانوں کا آخری ،اور
بہترین حل تصور کیے جاتے ہیں ،اورحکومت ان اقدامات سے گریز کرئے جن سے ملک
انتشار کا شکار ہو۔ |