گلے کی ہڈی

نون لیگ کی حکومت جب سے اقتدار میں آئی ہے بیچاری مشکلات میں گھری ہوئی ہے۔ بڑی مشکل سے (دھاندلی کر کے) بھاری مینڈیٹ لے کر جیتنے والی اس حکومت کو سب سے پہلے جس چیلنج کا سامنا کرنا پڑا تھا وہ خزانے کا چیلنج تھا ۔ خزانہ تو زرداری بھائی نے جھاڑو پھیر کر ایسے صاف کر دیا تھا جیسے "صفائی نصف ایمان ہے " پر ہمیشہ سے عمل کرتے رہے ہوں۔وہ تو اﷲ بھلا کرے وزیر گداگری جناب اسحاق ڈار کا جنہوں نے اپنا چھپا کر رکھا ہوا کشکول گدڑی سے نکالا اور پہنچ گئے اپنے آقاؤں کے پاس۔ اور یوں قرضوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی قوم مزیدقرضوں تلے دب گئی۔ خزانے بھرتے رہتے ہیں اور خالی ہوتے رہتے ہیں یہ کوئی بہت بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ اصل مسئلہ تو تب کھڑا ہو جب عمران خان نے الیکشن کے دوسرے یا تیسرے ہی دن یہ ڈھنڈورا پیٹنا شروع کر دیا کہ ہمارے ساتھ "دھاندلا" ہوا ہے۔ یہ "دھاندلا" دھاندلی کا ابا جی ہوتا ہے۔ ابا جی ہمیشہ اپنی اولاد سے بڑا ہی ہوتا ہے۔یہ دھاندلی کے ابا جی نے حکومت کے آگے مشکلات کا ایک بہت بڑا پہاڑ کھڑا کر دیا ہے۔ بھاری بھرکم مینڈیٹ رکھنے والی اس حکومت کی ساری کی ساری توجہ اور توانائی صرف اور صرف عمران خان کے جلسوں اور جلوسوں کو روکنے کے لیے صرف ہونے لگی۔ ملک بحرانوں کی طرف بڑھنے لگااور بجلی کی لوڈ شیڈنگ بارش کی دعاؤں کی محتاج ہو کر رہ گئی۔

ابھی حکومت کی توجہ عمران خان کی طرف سے نہیں ہٹی تھی کہ کینڈا سے ڈاکٹر طاہرالقادری نے بھی انقلاب مارچ کی کال دے دی۔ حکومت مزید گھبرا گئی اور اسی گھبراہٹ کے نتیجہ میں ماڈل ٹاؤن میں منہاج القرآن کے دفتر پر دھاوا بول کر 14 نہتے اور بے گناہ کارکنوں کو قتل اور 80سے زیادہ لوگوں کو زخمی کر دیاگیا۔ یہ حکومت کی بہت بڑی غلطی تھی۔اگر حکومت یہ غلطی نہ کرتی تو شائداس کے سامنے اتنا بڑا چیلنج نہ ہوتا۔ کیونکہ شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف شروع ہونے والے آپریشن کی وجہ سے عمران خان نے اپنا بہاول پور کا جلسہ ملتوی کر دیا تھا۔ اور امید تھی کہ طاہرالقادری صاحب بھی آپریشن ضرب عضب کی حمایت میں اپنا ارادہ بدل دیتے ۔لیکن ۔۔۔ "وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے"۔اس کے بعد حکومت غلطی پر غلطی کرتی گئی۔ پھر گلو بٹ کی اینٹری ہوئی اور بدنامی کے داغوں میں اضافہ ہوتا گیا۔منہاج القرآن کے کارکنوں کے غصے اُس وقت اور زیادہ بڑھ گئے جب انقلاب کے جہاز کا رخ اسلام آباد کی بجائے لاہور کی طرف موڑ دیا گیا۔ ائر پورٹ ایک دفعہ پھر میدان جنگ بن گیا۔لاٹھی چارج، آنسو گیس اور گرفتاریوں نے حالات مزید بگاڑ دیئے۔حکومت نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ یوم شہدا پر آنے والے لوگوں کو روکنے کے لیے پورے پنجاب کو کنٹینروں سے بند کر دیا۔شہروں کے آپس میں رابطے ختم ہو گئے۔عورتوں اور بوڑھے لوگوں کو کنٹینروں کے نیچے سے گذرنے پر مجبور کر دیا گیا۔ دلہے ذلیل و خوار ہو کر رہ گئے۔ ایمبو لینس میں پڑے مریض دم توڑ گئے۔ ماڈل ٹاؤن کو مکمل طور پر کنٹینر لگا کر اس طرح بند کر دیا کہ اُس نے ایک جیل کا نقشہ اختیار کر لیا۔باہر والے لوگ اندر نہیں جا سکتے تھے اور اندر والے لوگوں کو باہر جانے کی اجازت نہیں دی جا رہی تھی۔حکومت کے اس اقدام سے نا صرف منہاج القرآن کے کارکن متاثر ہوئے بلکہ ماڈل ٹاؤن کے رہائشی بھی اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہو کر رہ گئے۔
پوری دنیا میں لوگ حکومت کے خلاف نکلتے ہیں۔ اُس کے خلاف احتجاج کرتے ہیں۔ اپنے مطالبات منوانے کے لیے دھرنے بھی دیتے ہیں۔لیکن کوئی بھی جمہوری حکومت اُن کو روکنے کے لیے اس قدر اوچھے ہتھکنڈے استعمال نہیں کرتی۔جیسے جیسے حکومت کی طرف سے رکاوٹیں بڑھتی گئیں ایسے ایسے احتجاج کی طاقت میں اضافہ ہوتا گیا۔ایک طرف سے عمران خان ہزاروں لوگ لے کر نکلے تو دوسری طرف ڈاکڑ طاہرالقادری ایک جم غفیر لے کر اسلام آباد پہنچ گئے۔اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کے باہر نکل آنے کے باوجود بھی حکومت کے اوسان خطا نہیں ہوئے۔حکومت اپنے موقف پر قائم ہے اور دونوں لیڈروں کو دس دس لاکھ لوگوں کو نہ لا سکنے کے طعنے دے رہی ہیں۔حکومت اپنی جگہ درست ہے۔ اگر عمران خان نے یا طاہرالقادری نے دس دس لاکھ لوگ اسلام آباد لانے کا دعوہ کیا تھاتو وہ اُسے کیوں پورہ نہیں کر سکے ۔ بلکہ عمران خان نے تو ایک لاکھ موٹر سائیکل سوار وں کا بھی دعوہ کیا تھا ۔ حکومت کا کہنا ہے کہ چند ہزار لوگوں کے آنے سے حکومت کو کو ئی فرق نہیں پڑتا۔جبکہ پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کا دعوہ ہے کہ ہم وزیر اعظم کے استعفے کے بغیر یہاں سے نہیں جائیں گے۔جیسے جیسے دن گذرتے جا رہے ہیں کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے۔ پی ٹی آئی کا دھرنا تو ایک میوزیکل کنسرٹ کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ لوگوں کی تعداد بھی بڑھتی جا رہی ہے اور جذبہ بھی۔ جذبے کے ساتھ جنون بھی شامل ہو چکا ہے اور جنون کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔ اپنے لیڈر کے ایک اشارے پر کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں۔جب سے عمران خان نے استعفی نہ دینے پر اپنی جان دینے کی دھمکی دی ہے تب سے حالات یکسر بدل چکے ہیں۔ عمران خان کے چاہنے والے ہر روز اپنے لیڈر کی دھواں دھار تقریر سن کر پر جوش ہو جاتے ہیں۔ اور گو نواز گو کے نعرے بلند کرتے ہیں۔ہر گذرتا ہو ا لمحہ سیاسی پارہ چڑھنے کا باعث بن رہا ہے۔ معاملہ مزید الجھتا جا رہا ہے۔اس کو سلجھانے کی بجائے دونوں طرف سے ضد کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔حکومت کے سامنے ایک کی بجائے دو چیلنج ہیں۔ وہ ایک چیلنج سے بچتی ہے تو دوسرے میں پھنس جاتی ہے۔ایک طرف استعفے کا مطالبہ ہے تو دوسری طرف استعفے کے ساتھ ساتھ ماڈل ٹاون میں قتل ہونے والے کارکنوں کی ایف آئی آر کا مطالبہ ہے۔ حکومت استعفوں سے شائد بچ جائے لیکن قتل کی ایف آئی آر اُس کے گلے کی ہڈی بن جائے گی ۔ جو آج نہیں تو پانچ سال بعد اپنا اثر ضرور دیکھائے گی۔
 

Ahmad Raza
About the Author: Ahmad Raza Read More Articles by Ahmad Raza: 96 Articles with 100809 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.