ایں کار شما نیست

۔
خبر آئی امریکی سفیر اچانک پاکستان کے سیاسی تھم جناب چوہدری شجاعت حسین کے آستانہ پر جبیں سائی کررہے ہیں۔ امریکی سرکار اپنے لوگوں کو اپنی ایسی ہی بے صبری حرکات سے expose کردیتی ہے۔ پھر خبر آئی کہ پنجاب کے سابق وزیر رانا ثناء اﷲ امریکی قو نصلر کے آستانہ ابلیس اعظم پر ذلت یابی سے دوچار ہوئے۔ پھر امریکی تشویش کا اظہار امریکی وزارت خارجہ کی جانب سے بڑی وضاحت کے ساتھ سامنے آیا۔ اسکے ساتھ ہی وزیر اعظم پاکستان کا استعفیٰ کے بارے غیر مبہم اعلان آگیا۔ اسکے بعد قومی اسمبلی میں بیٹھے لوگوں نے باہمی اتحاد و یگانگت کا بے مثال مظاہرہ کیااور وزیراعظم کے حق میں قرارداد پاس کرلی۔یہ انکی ضرورت ہے کیونکہ بڑی مشکلات اور اخراجات کے بعد اس ایوان سے مستفیذ ہونے کا موقع ملا ہے۔ قومی اسمبلی کے ممبر کواور کچھ بھی نہ ملے تو صرف تنخواہ ، ٹی ۔اے، ڈی ۔ اے، علاج معالجے کے نام پر جو کچھ ملتا ہے وہ کسی جعلی سند ہولڈر نے خواب میں بھی نہ دیکھا ہوگا۔ یہ پاکستان ہے جہاں اندھا بانٹے ریوڑیاں بار بار اپنوں میں۔ خود ہی مراعات کے بل پاس کرنے والے اگر اپنے مفادات میں اضافہ اور مزید تحفظ نہیں دیں گے تو کیا عوام انہیں آکر دیں گے۔ قائد حزب اقتدار کی جب کوئی مخالفت کرے تو اس سے تنہائی میں مذاکرات کیئے جاتے ہیں ناراضگی دور کرنے کے لیئے ترقیاتی فنڈز، پرمٹ، قرض حسنہ وغیر ہ بڑی فیاضی کے ساتھ پیش کیئے جاتے ہیں اور یوں نفرتیں محبتوں میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔ آخر وہ بھی تو حق نمک خوری اداکرتے ہیں حالانکہ یہ سب کچھ پاکستان کے عوام کا خون نچوڑ کر انہیں نوازا جاتا ہے۔مالی ہمدردیوں کے حصول میں مزید فیاضی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے مثلا ایک رکن کے نکمے بھائی کو گورنر ، کسی بھائی کو وزیر ، کسی کو مشیر، غرضیکہ پورا گھرانہ وزیراعظم کی نگاہ عنائت سے نہال ہوجاتا ہے۔ عوام کا نمک کھا کر اقتدار کی کرسی کو ثبات و استحکام دیا جاتا ہے۔ خدا کو بھلا کر دنیوی مفادات کے لیئے، امریکہ میں اپنے کاروبار کے تحفظ کے لیئے امریکی خوشنودی حاصل کی جارہی ہے۔ میں نے عوامی باتیں سنیں تو لوگوں کا امریکہ کے خلاف غم و غصہ کھل کر سامنے آیا۔ عمران خان ، سراج الحق، شاہ محمود قریشی اور علامہ طاہرالقادری نے اعلانیہ امریکی مداخلت کی مذمت کی۔ پاکستان امریکی کالونی نہیں ۔ مجھے حیرت ہوئی کہ حزب اقتدار اور پارلیمنٹ میں موجود کسی نے امریکی مداخلت کی مذمت نہیں کی۔ بھلا کرتے بھی کیوں ؟ امریکی بیان تو انکے مفاد میں ہے۔ موجود نظام جاری رہے تو صلیبیوں و یہودیوں کے مقاصد پورے ہوتے رہیں گے۔ عوام کااستحصال، لوٹ مار،مغربی فحاشی و عریانی کا سیلاب ، قرآن و سنت سے انحراف باقی رہے گا۔پاکستان IMF کا غلام رہے گا۔ حکمرانوں کی تو تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔ کہتے ہیں پاکستان کئی کھرب کا مقروض ہے۔ پاکستان کس کا نام ہے؟ یہ زمین، پہاڑ اور میدان نہیں اٹھارہ کروڑ کی آبادی کھربوں کی دہندہ ہے ۔ تاقیامت مقروض ہی رہیں گے۔ حاصل کردہ قرضو ں سے کس نے استفادہ کیا؟ ہمیشہ پارلیمنٹ میں موجود لوگوں اور انکے طفیل بیورکریسی نے یہ قرضے ہڑپ کیئے۔ موجودہ وزیر خزانہ نے اپنے لڑکے کو صرف 50 کروڑ روپے بلاسود دیئے۔ یہ لوگ قرض لے کر اپنے آپ کو دیوالیہ قرار دلاکر قرضے معاف کرالیتے ہیں۔ لیکن IMF کا مقروض پاکستان ہے۔ سنا تھا کہ زرداری نے سوئز بینکوں میں لوٹ مار کا پیسہ رکھا ہوا۔ اب خاموشی آخر کیوں؟ موجودہ حکومت کی حمائت کردی تو اب کون پوچھنے والا ہے۔ کھربوں روپیہ شریف خاندان نے لیا ہوا ہے۔ مقروض تو پاکستان ہے۔ بھارت اور دیگر ممالک میں شریف خاندان کے خارنوں پر پاکستان کا کوئی حق نہیں۔ پاکستان کے عوام غربت میں خود کشی کرتے رہیں۔ چند خاندان ان کا استحصال کرتے رہیں۔ یہ سب کچھ اسی مغربی جمہوری نظام جو فرنگی نے دیا ، اسی میں مضمر ہے۔ اب ہمیں معلوم ہوا کہ ہمارے فیصلے امریکہ میں ہوتے ہیں۔ کیا ہمیں کبھی آزادی ملے گی؟ میں نہ تو تحریک انصاف کا رکن ہوں اور نہ ہی عوامی تحریک کا لیکن حق بات توکہنی چاہیئے کہ ان دونوں کی جدوجہد نظام کی تبدیلی کے لیئے، علامہ صاحب کی پالیسی تو اس بارے بالکل عیاں ہے لیکن عمران خان کا نقطہ نظر بھی یہی ہے۔ پہلے تو صرف زبانی کلامی بات تھی کہ قانون کا نفاذ غریبوں پر ہوتا ہے، امیروں اور حکمرانوں پر نہیں ہوتا۔ اب تو ملک کے بچے بچے نے عملاسب کچھ دیکھ لیا۔ جو افسر حکمرانوں کی مرضی کے مطابق قانون کی دھجیاں بکھیرنے پر رضامند نہ ہو اس کے خلاف احکامات تبادلہ یا برطرفی صادر ہوجاتے ہیں ۔ مثلا نادرہ، نیب، آئی جی اسلام آبادوغیرہ کی مثالیں موجودہیں۔ 22 آدمیوں کے قتل پرچہ درج نہ ہوسکا کیونکہ اس میں حکمران ملوث ہیں۔ عدلیہ کے فیصلوں کو بھی نہیں مانا جاتا ۔جبکہ چودہ شہداء کی FIR درج کرنے کے بارے قانون کے مطابق سیشن جج صاحب حکم دے چکے ہیں۔ ان تمام حالات و واقعات کے پس منظر میں حکمت کیا ہے؟ پارلیمنٹ میں بیٹھے کسی شخص نے بے گناہ لوگوں کے قتل پر پارلیمنٹ کے اندر آواز بلند نہیں کی۔ موجودہ نظام میں ہی اراکین پارلیمنٹ کو عوام پر ظلم کرنے کا حق ہے ۔ اگر یہ نظام تبدیل ہوگیا تو عوام کی لوٹی دولت اور ملکی وسائل پر انکے غاصبانہ قبضے واپس ہونگے۔ جان کا بدلہ جان، قرآن پاک کے حکم کے مطابق قصاص لیا جائے گا۔ مظلوم کو اس کا حق ملے گا۔ اب عوام کی مرضی کہ وہ اپنے آپ کو ظلم کی چکی سے آزاد کرنا چاہتے ہیں یا پھر ہمیشہ کے لیئے آنی والی نسلوں کو مظلوم ابن مظلوم بنانا چاہتے ہیں۔ اس وقت قوم میں بیداری آچکی ہے۔ نظام کی تبدیلی ضروری ہے اور اسی میں عافیت ہے۔ اﷲ پاکستان کو ظالموں ، لٹیروں ، غاصبوں اور قاتلوں سے نجات عطا فرمائے آمین۔

AKBAR HUSAIN HASHMI
About the Author: AKBAR HUSAIN HASHMI Read More Articles by AKBAR HUSAIN HASHMI: 146 Articles with 128133 views BELONG TO HASHMI FAMILY.. View More