عمران خان طاہر القادری صاحبان نہ دھرنا کیوں دیا؟ ان
دونوں صاحبان کے زمہ داران کارکنان کا کہنا ہے کہ جب ہمیں سنا نہیں جاتا
ہمیں سیریس نہیں لیا جاتا اس لیے مجبورا دھرنا دینا پڑا۔حکومتی حلقوں کو اس
تمام صورتحال کے پیچھے پاشا صاحب دکھتے ہیں اس کا اظہار وہ کھل کر تو نہیں
کرسکتے کیونکہ جیو چینل کہ ساتھ جو کچھ ہوچکا ہے اس کہ بعد سیاسی جماعتوں
کو اور میڈیا کو کافی عقل آگئی ہے۔مگر سوشل میڈیا پر اسکا اظہار کھل کر کیا
جارہا ہے۔دونوں طرف سے انتہائی گٹیا زبان استعمال ہورہی ہے ۔خاص طور پر
خواتین سے متعلق گھٹیا قسم کی پوسٹس کی جارہی ہیں جنکو دیکھ کر ایک عام
پاکستانی ان دونوں جماعتوں سے متنفر ہورہا ہے۔مائیں بہنیں سب کی سانجھی
ہوتی ہیں۔خدارا سوشل میڈیا پر یہ گھٹیا حرکتیں کرکے اپنی سیاسی جماعت کے
لیے بدنامیاں نہ سمیٹیں کہ بے وقوف دوست سے دانا دشمن بہتر ہوتا ہے۔اور
سوشل میڈیا پر موجود بے وقوف دوست اپنے مخالفین کو گالیاں دے کر مخالفین کی
خواتین کی تصاویر پروپگنڈہ کرکے اپنی سیاسی جماعت کی خدمت نہیں بلکہ اسے
بدنام کر رہے ہیں۔تو زرا اس بارے میں سوچیں۔
کوئی لاکھ نہ مانے مگر عمران خان صاحب کہ پیچھے کوئی کھلاڑی ہے ضرور اور
آہستہ آہستہ وہ اپنے مہروں کو میدان میں اتار رہا ہےیہ شطرنج کی بازی جیسی
سیاست ہورہی ہے۔اور لگ ایسا ہی رہا ہے کہ خان صاحب اپنے باقی مطالبات سے ہٹ
بھی جائیں مگر حکومت کے لیے ہر وقت خطرہ بنے رہیں گے جہاں کوئی حکومت نہ
غلطی کی اور خان صاحب اپنی پوری طاقت سے حکومت کے خلاف میدان میں اتر جائیں
گے حکومت کو خان صاحب سے زیادہ اس خفیہ طاقت پر زیادہ نظر رکھنی ہوگی جو
اصلی کھلاڑی ہے۔اس وقت سیاست کچھ ایسی ہوگئی ہے کہ ٹریفک سگنل پر کافی
گاڑیاں کھڑی ہوں کچھ گاڑیاں سگنل توڑ کر تیز رفتاری سے نکل جائیں۔ ایک گاڑی
کے سامنے کوئی شخص آکر کچلا جائے اور اسے پولیس پکڑ لے ۔جرم سب گاڑی والوں
کا ایک جیسا ہو کہ قانون توڑا ایک کی قسمت خراب کہ اسکی گاڑی سے آدمی کچلا
گیا۔ورنہ جرم سب نہ ایک جیسا ہی کیا تھا۔اس وقت عوام کو نوازشریف کی حکومت
کے جانے سے زیادہ پیپلز پارٹی کی دوبارہ حکومت کے آجانے سے ڈر لگ رہا
ہے۔پرانے کھلاڑی سارے ایک ساتھ ہوچکے ہیں۔جیسے بچپن میں بچے اپنے اسکول یا
محلہ میں آنے والے نئے بچے کو نہ اپنے ساتھ کھلاتے ہیں نہ اسے اپنے پرانے
دوست پر فوقیت دیتے ہیں۔کچھ ایسا ہی ان نئے سیاست کے کھلاڑیوں کے ساتھ بھی
ہورہا ہے کہ انکو دل سے ابھی تک قبول نہیں کیا گیا۔جیسے کسی علاقے میں کوئی
نیا دکاندار آجائے پرانا دکاندار اسے کافی عرصے تک قبول نہیں کرتا یا اسکی
کوشش ہوتی ہے کہ اسے ناکام کردیا جائے۔
دیکھتے ہیں آنے والے دن کیا کیا خبریں لاتے ہیں اپنے ساتھ |