اسلام آباد کے شب و روز

عمران خان اور طاہرالقادری کا ایک ساتھ لاہور سے روانہ ہونا، جی ٹی روڈ پر اکٹھے سفر کرنا، ایک ساتھ کشمیر ہائی وئے اور آبپارہ میں ڈیرہ ڈالنا اور پھر ایک ساتھ ریڈ زون کی طرف پیش قدمی کرنا، اندرون خانہ گٹھ جوڑ کی عمدہ مثالیں ہیں۔ بظاہر وہ کسی بھی طور آپس میں یکجئتی کا اظہار نہیں کرتے، ایک دوسرے کے بارے میں زبان تک نہیں کھولتے عجیب بات یہ ہے کہ نہ ایک دوسرے کی حمایت کرتے ہیں اور نہ تنقید کرتے ہیں۔ ایک ہی راہ کے دو مسافر، اکٹھے سفر بھی کر رہے ہیں اور دو سوکنوں کی طرح باہم گفتگو سے پرہیز بھی کرتے ہیں اور کوئی شکوہ شکایت بھی نہیں، یہ ایک منفرد انڈرسٹینڈنگ ہے۔میڈیا بھی آذادی اور انقلاب مارچ کے بارے میں ہزاروں تبصرے کر رہا ہے لیکن ان کے باہمی تعلقات اور اس کی باریکیوں پر ایک لفظ بھی نہیں کہا جا رہا ہے۔ دو پارٹیوں کے مابین تو مکمل یکسوئی اور ہم آہنگی ہے لیکن میڈیا والے اس تعلق پر کچھ کہنے سے کیوں گریزاں ہیں، ابھی تک سمجھ سے بالاتر ہے۔

ان دونوں کو ’’کس‘‘ کے کہنے پر لاہور سے مارچ شروع کرنے کی اجازت دی گئی اور وہ کون تھا جس کے اشارے پر انہیں شاہراہ کشمیر سے ریڈ زون میں داخلے کی اجازت دی گئی۔ نواز شریف نہ اتنے بھولے ہیں اور نہ اتنے جمہوریت نواز کہ ریڈ زون میں داخلے کی خواہش پورا کرتے۔ پس پردہ کچھ قوتیں سرگرم عمل ہیں ِ ، جنہوں نے سارے نظام کو مفلوج کرنے اور حکمرانوں کے عصاب شل کرنے کے لیے دو دھڑوں کوبحفاظت ریڈ زون تک پہنچا کرسب کو ایک بند گلی میں دھکیل دیا ہے۔ لاہور سے روانگی سے قبل میڈیا پر یہ بازگشت سنی گئی کہ ’’ایک کال‘‘ پر مارچ کی اجازت دی گئی ہے، جس کو حکمرانوں نے چوہدری سرور، ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے سر احسان چڑھا کر دونوں پارٹیوں کو مارچ کے لیے فری ہینڈ دے دیا۔

عمران تو دستورکے اندر رہتے ہوئے تبدیلی کے خواہاں ہیں جبکہ قادری پورے نظام کو لپیٹ کر خود جنرل مشرف کی جگہ بے تاج بادشاہ بننا چاہتے ہیں۔ اس بوسیدہ نظام کے خلاف تو کہنے کو لاکھوں باتیں ہیں، جن میں سے چندایک یہ دونوں با تکرار کہہ رہے ہیں۔ تاہم مطالبہ دونوں کا یہی ہے کہ نوازشریف کی بادشاہت ختم کی جائے۔اگر یہ دونوں پارٹیاں اصلاح چاہتیں تو حکومت کی بات مان کر کچھ اصلاحات پر آمادہ ہو جاتیں، لگتا ہے کہ وہ اصلاح احوال کے علاوہ کوئی اور ایجنڈا رکھتے ہیں۔حالانکہ فیس سیونگ اور اصلاح کے لیے جناب سراج الحق صاحب نے بہت مناسب تجاویز پیش کیں تھیں کہ وزیراعظم کی طرف سے قائم کردہ سپریم کورٹ کے ججوں پر مشتمل کمیشن نوئے دنوں انتخابی حلقوں میں دھاندلی کی شکایات کا جائرہ لے کر مناسب کاروئی کی سفارش کرے، پارلیمنٹ میں تمام جماعتوں پر مشتمل کمیٹی انتخابی نظام کی اصلاح کے لیے اپنی سفارشات چالیس دنوں میں مکمل کریں اور الیکشن کمیشن کی تشکیل نو فوری طور پر کردی جائے۔ عمران خان کے مطالبات کا اس سے بہتر کیا حل ہو سکتا ہے۔ اس پر جس طرح کی ضمانتیں درکار ہوتیں وہ لی جاتیں اور معاملہ ختم کردیا جاتا ۔

ریڈ زون میں مظاہرین کی موجودگی سے امور مملکت کئی روز سے مفلوج ہیں۔ نوازشریف اور ان کے ہمنوا نہ لاٹھی چارج کرسکتے ہیں اور نہ ان کی بات مان سکتے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے کسی بھی تحریری ہدایت کے بغیر کاروائی پر تیار نہیں اور نہ ہی صاحب امر کو یہ جرا ت ہو رہی ہے کہ کسی کاروائی کا حکم جاری کرسکیں۔ مطالبات ایسے کہ جو ہر دل کی آواز ہیں، بس ایک نوازشریف کی برطرفی آڑے آ رہی ہے ورنہ باقی سارے مطالبات کو پوری قوم کی تائید حاصل ہے۔نواز شریف بے چارہ اپنی کرسی کی حفاظت کے لیے بے بسی میں تلملا رہے ہیں۔ ساری سیاسی جماعتیں بھی ان کے ساتھ ہیں ، اس کے باوجود زرداری صاحب کو دوبئی سے بلا کر ستر کھانوں سے تواضع کی گئی اور پیپلز پارٹی سے ماضی کے حساب چکانے اور پائی پائی وصول کرنے کی دعوؤں کو دفن کرنے کے بعد اب پیپلزپارٹی سے مرکز میں اشتراک اقتدار تک بات پہنچ چکی ہے۔ اب بیچارہ نواز شریف کس نعرے پر انتخابی میدان میں جائیں گا اور جن لوگوں نے پیپلز پارٹی کی کرپشن کا حساب لینے کے لیے نوازلیگ کو ووٹ دئیے تھے، ان کا سامنا کیسے کرے گا۔ یہ وہی بتا سکتے ہیں لیکن اس طرح وہ اپنی سیاسی ساکھ کو بہرحال داؤ پر لگا چکے ہیں۔اس کے باوجود حالات میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی۔ بلا زرداری کے کہنے پر عمران خان واپس لوٹ سکتے ہیں، یہ ممکن نہیں، قادری صاحب تو کسی بھی وقت کچھ بھی کرسکتے ہیں ۔ وہ اپنے کارکنان اور دیہاڑی دار لوگوں کی سر پر اتنا ہی کرسکتے تھے، الیکشن لڑنا اور پارلیمانی سکور کرنا ان کے بس کی بات نہیں۔

اسٹبلشمنٹ تو شاہد اپنے اہداف حاصل کرچکی ہے ، نواز شریف کے پر کاٹے جا چکے ہیں۔ وہ اب محدود اختیارات کے ساتھ گزارہ کرنے پر آمادہ ہیں لیکن عمران اور قادری اب عددی کمزوری کا بہانہ مان اپنے مطالبات سے دست کش ہونے اور واپس جانے پر تیار نہیں۔دس دنوں تک کھلے آسمان تلے گرم ترین موسم اور موسلادھار بارشوں کا مقابلہ کرنے والے اب خالی ہاتھ واپس لوٹیں؟ اب لگتا ہے کہ یہ ڈیڈ لاک کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔

Atta ur Rahman Chohan
About the Author: Atta ur Rahman Chohan Read More Articles by Atta ur Rahman Chohan: 129 Articles with 117193 views عام شہری ہوں، لکھنے پڑھنے کا شوق ہے۔ روزنامہ جموں کشمیر مظفرآباد۔۔ اسلام آباد میں مستقل کالم لکھتا ہوں۔ مقصد صرف یہی ہے کہ ایک پاکیزہ معاشرے کی تشکیل .. View More