ایسا لگتا ہے کہ عمران خان روز بہ روز سیاسی طور پر تنہا
ہوتے جارہے ہیں، پارلیمنٹ میں موجود جماعتوں میں سے کوئی ایک جماعت بھی ان
کے ساتھ کھڑی ہونے پر تیار نظر نہیں آتی، پارلیمنٹ کے باہر جماعتوں کا بھی
یہی رویہ ہے۔ تحریک انصاف کے کارکنان سے پوچھیں تو وہ کہتے ہیں ’’پی ٹی آئی
تبدیلی کی بات کرتی ہے، باقی جماعتیں اسٹیٹس کو کی حامی ہیں، اس لیے ان میں
سے کوئی بھی ہمارا ساتھ نہیں دے رہی۔‘‘ یہ موقف کتنا وزن دار ہے، اس کا
فیصلہ عوام بہت اچھی طرح کرسکتے ہیں، ہمارا خیال یہ ہے کہ عمران خان کی اس
سیاسی تنہائی کا سبب کوئی اور نہیں، بلکہ وہ خود ہیں۔ انہوں نے جو حکمت
عملی اختیار کی اس کا نتیجہ یہی نکلنا تھا۔ اس بات پر ذرا تفصیل سے بات
کرتے ہیں۔
عمران خان کے مطالبات کو ہم دو حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ ان کے مطالبات
کا پہلا حصہ انتخابی اصلاحات سے متعلق ہے، پاکستان میں ہونے والے ہر
انتخابات کے بعد دھاندلی کا شور اٹھتا ہے، یہی معاملہ مئی 2013ء کے
انتخابات کے بعد بھی ہوا، ماضی میں انتخابی دھاندلیوں کے خلاف مہم دوچار
روز کے مظاہروں اور بیانات تک محدود رہتی تھی، عمران خان کو یہ کریڈٹ جاتا
ہے کہ انہوں نے نہ صرف یہ کہ دھاندلیوں کے خلاف مہم کو 14ماہ تک زندہ رکھا،
بلکہ قوم کو انتخابی اصلاحات کے مطالبے پر متحد بھی کردیا۔ پہلے بھی لوگ
اصلاحات کا مطالبہ کرتے رہے ہیں، وائٹ پیپر بھی چھاپے جاتے تھے اور عدالتوں
میں مقدمے بازی بھی ہوتی تھی لیکن وہ لوگ جلد ٹھنڈے پڑجاتے تھے، یہ عمران
خان ہیں، جنہوں نے انتخابی اصلاحات کے مطالبے کو پہلی بار سنجیدگی سے لیا
اور اس کے لیے بھرپور مہم چلائی۔ جس کی وجہ سے آج انتخابی نظام میں تبدیلی
ایک قومی نعرہ بن چکا ہے۔
پیپلزپارٹی، ن لیگ اور دیگر جماعتیں انتخابات میں دھاندلی کے خلاف جلسے
جلوس کرتی رہی ہیں۔ ’’جھرلو انتخابات‘‘ کی اصطلاح بے نظیر بھٹو نے متعارف
کرائی تھی۔ انتخابی اصلاحات ان کے ایجنڈے کا بھی حصہ رہا ہے مگر تین، تین
باریاں لینے کے باوجود ن لیگ اور پی پی پی کو انتخابی نظام کو درست کرنے کی
توفیق نہیں ہوئی۔ آج یہ سب جماعتیں انتخابی اصلاحات کے لیے سرگرم ہوگئی
ہیں۔ باقاعدہ طور پر ایک پارلیمانی کمیٹی بھی تشکیل دی جاچکی ہے۔ آج سے
پہلے کبھی انتخابات میں دھاندلی کرانے والوں کو سزا نہیں ہوئی، مگر اب
حکومت 2013ء کے انتخابات میں دھاندلی کرانے والوں کو سزا دینے پر بھی تیار
ہے، الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کی بھی تیاریاں ہورہی ہیں۔ یہ سب کچھ عمران
خان کی تحریک کے نتیجے میں ہورہا ہے، اگر اس تحریک کے دباؤ کی وجہ سے قوم
کو شفاف انتخابی نظام مل جائے تو یہ کسی نعمت سے کم نہیں، ہر طرح کے سیاسی
تعصب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس مہم پر عمران خان کو شاباش ضرور دینی
چاہیے۔
اب عمران خان کے مطالبات کے دوسرے حصے کی طرف آتے ہیں۔ یہ حصہ وزیراعظم کے
استعفے اور مڈٹرم انتخابات کے مطالبات پر مشتمل ہے۔ عمران خان نے یہاں پر
واضح ٹھوکر کھائی ہے یا پھر کسی دوست نما دشمن نے ان کو یہ مطالبات تھماکر
دراصل اندھے کنویں میں دھکا دیا ہے۔قوم انتخابی اصلاحات کے مطالبے پر تو سو
فیصد عمران خان کے ساتھ ہے مگر حکومت گرانے کے مطالبے کو دو فیصد عوام کی
بھی حمایت حاصل نہیں۔ اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ اگر عوام حکومت گرانے کے حق
میں ہوتے تو آج عمران خان کے دھرنے میں تحریک انصاف کے کارکن ہی شریک نہ
ہوتے۔ اگر عام آدمی تحریک انصاف کے مارچ کا حصہ نہیں بنا ہے تو اس کی ایک
بہت بڑی وجہ یہ نامعقول مطالبہ بھی ہے۔ مسئلہ یہ نہیں ہے کہ لوگ نواز حکومت
سے مطمئن ہیں یا نہیں، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ مخالفین بھی حکومت کو وقت دینا
چاہتے ہیں تاکہ اس کی کارکردگی سامنے آسکے۔ اگر تحریک انصاف حکومت کا دھڑن
تختہ کرنے کا مطالبہ نہ کرتی تو کئی سیاسی جماعتیں اس کا ساتھ دینے کا
فیصلہ کرسکتی تھیں۔ اسے آج صرف شیخ رشید پر گزارا نہ کرنا پڑتا۔ ایسا محسوس
ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کو بھی اب یہ بات سمجھ میں آگئی ہے کہ عوام میں
حکومت گرانے اور مڈٹرم الیکشن کا مطالبہ پذیرائی حاصل نہیں کرسکا، اس لیے
عمران خان پارلیمنٹ کی تحلیل کے مطالبے سے پیچھے ہٹ گئے اور اب وہ شارٹ ٹرم
کے لیے نوازشریف کا استعفاء مانگ رہے ہیں۔
وزیراعظم کے استعفے سے متعلق عمران خان کی دلیل دل کو نہیں لگتی۔ وہ کہتے
ہیں انتخابی دھاندلیوں کی شفاف تحقیقات ہونی چاہیے، جو نوازشریف کی موجودگی
میں نہیں ہوسکتی، اس لیے نوازشریف دھاندلیوں کی تحقیقات کے لیے قائم کمیشن
کی رپورٹ آنے تک عہدہ چھوڑ دیں اور ن لیگ کسی اور کو عارضی طور پر وزیراعظم
منتخب کرے۔ اگر کمیشن دھاندلی ثابت کردے تو پھر پارلیمنٹ توڑ کر نئے الیکشن
کرادیے جائیں، اگر کمیشن نوازشریف کو کلین چٹ دے دے تو وہ واپس وزارت عظمیٰ
سنبھال لیں اور تحریک انصاف بھی انہیں وزیراعظم تسلیم کرے گی۔ دراصل یہ
خورشید شاہ کا فارمولا تھا، جو اب تحریک انصاف نے اپنایا ہے، وگرنہ وہ تو
نئے انتخابات سے پیچھے نہیں ہٹ رہے تھے۔ بظاہر یہ باتیں بہت خوبصورت ہیں،
دیکھنے میں خاصی معقول لگتی ہیں، مگر اس فارمولے پر ایک اعتراض اٹھایا
جاسکتا ہے، اگر نوازشریف کی موجودگی میں شفاف تحقیقات ممکن نہیں تو ن لیگ
ہی کے کسی دوسرے وزیراعظم کی موجودگی میں تحقیقات کے شفاف ہونے کی کیا
ضمانت ہے؟ اس بات کی بھی کیا ضمانت ہے کہ تحریک انصاف کسی دوسرے لیگی
وزیراعظم کے ہوتے ہوئے تحقیقات کو قبول کرے گی؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر ن
لیگ کے کسی دوسرے وزیراعظم کی موجودگی میں سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان کا
کمیشن شفاف تحقیقات کرسکتا ہے تو یہ کام نوازشریف کے وزیراعظم ہوتے ہوئے
کیوں نہیں ہوسکتا؟
نوازشریف کا استعفاء حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان ڈیڈلاک کا سبب بنا
ہوا ہے، ن لیگ کو معلوم ہے اس کا وزیراعظم ایک روز کے لیے بھی ہٹا تو اس کے
حامیوں کا مورال آسمان سے زمین پر آگرے گا۔ نوازشریف مہینے کے بعد دوبارہ
بھی حکومت میں آگئے تو ان کی وہ شان وشوکت نہیں رہے گی۔ دوسری طرف تحریک
انصاف کو بھی واپسی کا راستہ چاہیے، نوازشریف کا پانچ منٹ کا استعفاء بھی
مردہ گھوڑے میں جان ڈالنے کے لیے کافی ہوگا۔ وہ اپنی پروپیگنڈا مشینری کے
ذریعے اسے اپنی عظیم فتح ثابت کرنے میں جت جائیں گے۔ یہ تو آپ جانتے ہیں کہ
پی ٹی آئی اس فن میں طاق ہوچکی ہے۔ دونوں کے درمیان اعصاب کی جنگ جاری ہے،
حکومت بروقت فیصلہ نہ کرنے پر پچھتا رہی ہے اور عمران خان اپنے
’’ٹائیگروں‘‘ کے ہاتھوں یرغمال ہیں۔ وزیراعظم کو سمجھ میں نہیں آرہا وہ
استعفاء کیوں دیں اور عمران خان کو معلوم ہے بغیر استعفاء گئے تو ان کے ہی
’’تربیت یافتہ‘‘ جنونی ان کا حشرنشر کردیں گے۔ وقت دعا ہے۔ |