پنجاب کے آمرانہ سازشی طوفانوں
میں پشتونوں نے جمہوریت کا ساتھ دینے کا اعلان کردیا
اسفندیار ولی خان نے پشتون نیشنلزم میں ایک نئی روح پھونک دی مایوسانہ
خیالات کو بلند خیالات اور اتحاد کی نا امیدی کو امید میں تبدیل کردیا۔
برسو سے سوئی اور مری ہوئی اتحادی تصورات کو اختلافی قبرستان سے نکالنے اور
اسے جمہوریت کے دفاع میں ایک نئے سیاسی انداز میں جگانے اور زندہ کرنے کی
امید کو روشن کیا۔ جو قومی تحریک کے کارکنو کے لیے کسی بڑی خوشخبری سے کم
نہیں کیونکے کسی معاشرے کے لیے سب سے بڑا خطرہ یہ ہوتا ہیے کے اسکے سیاست
میں محکومی سے ازادی اور زوال پزیری سے ترقی پزیری تک کی سفر میں اختلافات
اور تصادم کا مزاج پیدا ہوجائے اور قومی ترقی پر اپنو کی بجائے ان اقاوں سے
سیاسی رشتو کی نفسیات بنا ئیں جنکو حقیقی سیاسی فائدے اس وقت ملتے جب قومی
تباہی عروج پر پہنچتی ہیے۔ غلامو کا اقا ؤ ں سے حقوق مانگنا اور برابری کا
مطالبہ کرنا دراصل اقا کی فطرت کے خلاف اور انکی مفادات سے دشمنی ہیے۔
غلامو کے حقوق کا حصول اقاؤں سے سیاسی رشتو میں نہیں بلکے اپنو کی اتحاد سے
ممکن ہوتا ہے-
انہی قومی سیاستدانو کی جھدوجھد کی بدولت اج پشتون مردو کی طرح معاشرتی
قبرستان میں زندگی کے خواب کا سانس لے رہیے ہیں ورنہ کب کا اسرافیل کے سیٹی
کے منتظر ہوتے۔ قوم کے اندرہمیشہ کے لیے سیاسی تصادمو اور نظریاتی اختلافات
کو دفن کرنے کے لیے اور قومی اتحاد کے ضرورت کی نظریات کو زندہ کرنے کے لیے
عوامی اور قومی طاقت کے سربراہو سے طوفانی مھم کا اغاز کرنے کی ضرورت ہیے،
جن کی ابتدا بچا خان کے گھر سے ہو گئی۔
اس امرانہ جمھوریت کو بچانا اس لیے ضروری ہیے تاکے ائندہ جمہوری پارٹیو کے
سیاسی طاقتو کے اتحاد سے امرانہ قوتو کے سازشی سایو سے مکمل تحفظ دیں۔
جمھوریت کی بقا کے لیے پشتون سیاسی قوتو کا مشترکہ جھدوجھد کرنا ناگزیر ہیے
کیونکے امریت کی تباکن پالیسیو کے نتیجے میں جو اگ پیدا ہوا تھا اس سے صرف
پشتون جلا۔ اسی کے برعکس موجودہ جمہوریت میں ہمیں اظہارخیال کی اتنی ازادی
ضرور ملتی ہیے جس سے ہم قوم کو مکمل طور پر نفسیاتی شکست سے بچا کر صرف
باتو تک قوم کو بربادی سے نجات کی دعوے کرسکے اور اتنا حقوق بھی خیرات کے
طور پر ملتا ہیے جس سے غریب عوام موت کا انتظار کرسکے۔ موجودہ پشتو ن قوم
پرست پارٹیو کے سوا باقی ملک کی تمام بڑی پارٹیا ں امریت کے سائے تلے بنی
ہیے اور بچپن میں اسی کے مفادات پر مبنی سیاسی نظریات کا دودہ پلایا گیا اب
وہی نظریات جوان ہوکر سیاسی دیشتگردی کے انجام کے طور پر امریت کو دعوت دے
رہے ہیے اور اسی کو ملک میں نافذ کرنے کی مجنونانہ جھدوجھد کر رہی ہیں۔
اختیارات تو پنجاب کے پاس ہوتا ہیے چاہیے امریت ہو یا جمہوریت ہو بلکے
امریت میں پنجاب کو دوسری قومو کے حقوق پر قبضہ ڈالنے میں کئی گنہ اور بھی
سہولت مل جاتا ہیے اور محکوم قومو کے جن باشعور لوگو کی اواز حقوق اور
پنجاب کے بالا دستی کے خلاف اٹھتی ہیے انکے منہ پر بھی طاقت کے زریعے تالے
اسانی سے لاگایا جاسکتا ہیں۔ سیاست مفادات کا گیم ہیے جس نظام میں مفادات
زیادہ ہوتا ہیں قومیں اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھتے جب تک وہ نظام نافذ
نہیں ہوتا۔ اب جب چھوٹی قومیتو کے حقوق اور اختیارات کا ٹیم ایا تو پنجاب
نے صاف فیصلہ کیا کیونکے موجودہ جمھوریت میں انکو حقوق اور اختیارات کو
تقسیم کرنا ہوگا اور غلامو کو برابر کا حصہ دار بنا نا ہوگا جو بنیادی طور
پر اقاؤں کے فطرت اور نفسیات کے خلاف ہیے۔ دنیا کی تاریخ میں اب تک ایک بھی
ایسا مثال نہیں ملتا کے کسی اقا نے اپنے غلام کے ساتھ حقوق اور اختیارات
برابری کی بنیاد پر تقسیم کیا ہو اور انکو اپنا برابر ما ننا ہو۔ امریت میں
اقا کا تسلط اور بھی بڑھے گا جمھوری نظا م اور 18 ویں ترمیم کے زریعے ہارے
ہوئے اختیارات کو دبارہ اپنے قبضے میں لانے کے لیے اقاؤں نے پار لیمنٹ ہاوس
کو ڈکٹیٹر ہاؤس یا شہدا ئے ڈکٹیٹرشپ قبرستان بنانے کا فیصلہ کر دیا۔
موجودہ لولی لنگڑی جمہوریت مکمل قومی برابری، سماجی انصاف، امن کا بہار
قومو کے کلچر اور انکے ضروریات کے مطابق حقوق دینے کی خوشخبری سنا رہا ہیے۔
پشتون قوم کا پنجاب کے برعکس ایسا معاشرتی نفسیات بنے ہیے جس کے تحت وطن
میں میں ہمیشہ کی تباہی نہ مٹنے والہ انتشار اور نہ ختم ہونے زوال کا خاتمہ
قوم کے نفسیاتی نظام پر مبنی جمہوری اصولو میں ممکن ہیے۔ ایسا جمہوری نظام
میں قوم کو ترقی کی راہ پر چلنے کے منصوبے بنائے جاسکتے ہیں اور معاشرے کو
مکمل خوشحالی، امن اور اتحاد کا ضمانت دےسکتا ہیے۔ اس جمہوریی نظام کو
پشتون سیاسی قوتیں اس لیے بچا رہے ہیے تاکے ائندہ اسی نظام کو تبدیل کرکے
اور اسکو پشتون قومی مفادات کا محافذ بنانے کے لیے ائین میں ترامیم کرسکے۔
پنجاب کا سیاسی مفادات اور انکو دوسرو کے حقوق پر قبضہ کرنے کا اسان طریقہ
امریت میں ہیے اور پشتونو کا اپنے حقوق پر اختیار حاصل کرنے کا قوت جمہوریت
نظام میں موجود ہیے۔
پشتون قوم پرست اور مذہبی جماعتو نے اس مرتبہ اختلافات کو بھلا کر اور قوم
کے حق میں جمہوریت کے لیے سیاسی اتحاد کی طاقت کو یکجا کرنے اور پنجاب کا
ملک میں امریت نافذ کرنے کے لیے جہالت امیز حرکتو کا مقابلہ کرنے کا اعلان
کیا۔ امریت سے احتجاج اور پریس کانفرنسو تک تو پشتون سیاسی جماعتو نے نفرت
کا اظہار کیا اگر پنجاب کے سیاسی دہشتگردو نے اسلام اباد سے ہمارے حقوق کے
حصول کی راہ میں مزید امرانہ خودکش حملے بند نہ کیے تو ان سے سیاسی جنگ کے
لیے بھی ہر محاز پر تیار ہیں۔ اسفندیار ولی کا محمود خا ن کے ساتھ جمہوریت
کے لیے مشترکہ جنگ کا اعلان کر نا، فضل رحمان اور غلام بلور کا قومی اسمبلی
کے اجلاس میں محمود خان کے ساتھ جمھوریت کی دفاع پر مشہورہ کرنا قوم کے لیے
انتہائی نیک شگون ہیے۔ قوم کے اتحادی طاقت کے سامنے نام نہاد ازادی اور
انقلابیو کا سازشیں کامیاب ہونا ناممکن ہیں۔ |