جمہوریت کو سلام
(Syed Ali Husnain Chishti, Bhakkar )
جمہوریت کو سلام اردو ادب کے مان
استاد ابراہیم ذوق کا ایک شعر ہے کہ
گلہائے رنگ رنگ سے ہے زینت چمن
اے ذوق اس جہاںکو ہے زیب اختلاف سے
حالات کی ستم ظریفی کہہ لیں یا جمہوریت کا حُسن دونوں آراء ہمارے سامنے ہیں
آج پورا پاکستان خصوصاً اسلام آباد وہ بھی اس کا ریڈ زون احتجاج گرائونڈ
بنا ہوا ہے ۔ مسلسل تیرہ دن سے زندہ باد مردہ باد کے نعرے بلند ہورہے ہیں
امن سے لیکر کفن تک ہر بات پر شعلہ بیاں لیڈر علامہ طاہر القادری اور
خطرناک حد تک بے دھڑک بولنے والے لیڈر عمران خان کئی کئی گھنٹہ شعلہ نوانی
کرکے اپنے کارکنوں اور عوام پاکستان کو جذبات سے پر اور ہر دم گرم رکھنے کی
کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں اپنے مطالبات خیالات خدشات معاملات عوام کی
عدالت میں لائیو پیش کررہے ہیں کچھ لوگ اچھا کہہ رہے ہیں کچھ برا کئی
سنجیدہ سمجھ رہے ہیں کئی ذہنی سیاسی بلوغت کی کمی گردان رہے ہیں بہر حال
ایک بات جو اس سارے قضیے میں اہم ترین ہے امید افزاء سیاسی شعور کا اظہار
کرتی ہے وہ لیڈروں کی بالغ نظری اور سیاسی اپروچ میں بہتری ظاہر کرتی ہے وہ
یہ ہے کہ اس صورت حال میں سب پریشان ہیں لیکن تمام لیڈروں کا متفقہ خیال یہ
ہے کہ جمہوریت کو چلنے دیاجائے ۔ مذاکرات کئے جائیں معاملے کو حل کیاجائے
لیڈروں نے صورت حال کو سامنے رکھ کے مارشل لاء کا مطالبہ نہیں کیا بلکہ
ممکنہ حل مسلسل بیان کئے آمریت کی نفی دراصل جمہوریت کی جیت ہے جمہوریت کی
عام فہم جو تعریف بیان کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ عوام کی حکومت عوام کے ذریعے
عوام کلیئے ہے اور عوام جن کو منتخب کرتی ہے ان کو یہ حق دیتی ہے کہ وہ جو
چاہتے ہیں جو محسوس کرتے ہیں وہ منتخب ہونے والے لیڈر بولیں جنہیں وہ اپنا
قائد مانتے ہیں ۔وہ اپنا مقدمہ حکمرانوں کے سامنے پیش کریں تو ان کے لیڈر
جس طرح مقدمہ پیش کرنا چاہیں عوام اسی طرح ان کا ساتھ دیتی ہے موجودہ صورت
حال بھی کچھ اسی طرح کی ہے مولانا طاہر القادری کے مطالبات ہوں یا عمران
خان کے وہ عوام کی ترجمانی کررہے ہیں اکثریت عوام کی یا اقلیت کی یہ وقت
بتائے گا مطالبات جائز ہیں یا جھوٹ یا عوام کا شعور بتائے گا احتجاج کے
دوران مذاکرات پر راضی ہونا اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ دونوں لیڈر ضدی اور
ہٹ دھرم نہیں ہیں اس بات کی تحسین یقیناً کی جانی چاہیے لیڈروں کی اکثریت
نے یہ کہا ہے کہ اکثر مطالبے جائز ہیں لیکن یہ بھی بزور کہا گیا ہے کہ
پارلیمنٹ کی بالادستی مقدم ہے مجموعی رائے دیہی ہے کہ گفت و شنید کے ذریعے
معاملات کا حل نکل سکتا ہے کچھ باتیں جو تحریک انصاف کے قائد عمران خان نے
شاید جذبات کی رو میں کہ دیں عوام نے انہیں پسند نہیں کیا فوج اور عدلیہ
اور آئین جمہوریت کا احترام لازم ہے ۔ایک اسلامی ملک میں اسلامی اقدار کا
نفاذ اور اسلامی طور طریقے ہر صورت ضروری ہیں ۔ان کا احترام اور پابندی
کرنا لازم ہونا چاہیے احتجاج کیجئے لیکن اخلاقیات کا جنازہ نہیں نکلنا
چاہیے پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اور عوام اسلام پسند ہیں اپنی بات کیجئے
مقصد بیان کیجئے اگر اس میں جان ہوئی تو عوام میں پذیرائی ضرور ہوگی علامہ
طاہر القادری منہاج القرآن اور پاکستان عوامی تحریک کے پندرہ شہداء کیلئے
نوحہ کناں ہیں یہ ایک جائز مطالبہ ہے قانون تو کسی جانور کو بھی ناحق مارنے
کی اجازت نہیں دیتا یہ تو پندرہ جیتے جاگتے سانس لیتے انسان تھے جنہیں بیچ
سڑک پر مار دیا گیا شہیدوں کے ورثاء انصاف کے متلاشی ہیں اور کہہ رہے ہیں
کہ
میں کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کرو ں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے
حکومت نے اس معاملے کو سنجیدہ نہیںلیا وہ تو سمجھ رہی تھی کہ معاملہ خاموشی
سے حل ہو کر کھڈے لائین لگے گا نہ مدعی نہ شہا دت حساب پاک ہوا یہ خون خاک
لشنیناں تھا رزق خاک ہوا لیکن اس کا نتیجہ الٹا نکلا لتساہل لا پروائی غفلت
اور کابینہ کے وزیرں کے تکبر کے معاملے کو سنگین بنادیا غلطی جس سے بھی
ہوئی حکم جس نے بھی دیا گولی جس کے حکم پہ بھی چلی نقصان ہوا چاہیے تو یہ
تھا کہ جس پر مدعیوں کا شک تھا اس پر مقدمہ درج ہوتا لیکن یار لوگوں نے اسے
درخود اعتناء سمجھا پھر جو ہوا وہ تو ظاہر ہے ہونا ہی تھا ۔
جو ہو یا اے ہو ناای سی ہونی روکدیا رکدی نئیں
گل جدوں شروع ہوجاوے فیر او ایویں ای مکدی نئیں
آج ریڈزون لائوڈ سپیکر زون بن چکا ہے پورا پاکستان تمام عوام پریشان معیشت
خراب حالات بے یقینی کا شکار ہیں 550 ارب روپے سے زیادہ کا نقصان ہوچکا ہے
چین سمیت کئی ملکوں کے صدور اور وزرائے اعظم اور عالمی اداروں کے سربراہوں
کے دورے منسوخ ہوچکے ہیں اور جمہوریت سوالیہ نشان بن گئی ہے حکومت اگر اس
معاملے کو پہلے دن سے سنجیدہ لیتی تو ہر گز ہرگز یہ حال نہ ہوتا آج سب اپنے
بدلے نکال رہے ہیں ساتھ ہی ساتھ مسلک اور عقیدے پر مبنی جماعتیں بھی اپنی
بھڑاس نکال رہی ہیں ہم برا نہیں کہتے احتجاج سب کا حق ہے لیکن اس ایکسر
سائز کے بعد ایک ضابطہ اخلاق احتجاج اور اس میں استعمال ہونے والی زبان کا
بھی بنایاجانا چاہیے جو پاکستان میں پھلتی پھولتی جمہوریت کیلئے ضروری ہے ۔وزیر
داخلہ چوہدری نثار علی خان نے بالکل ٹھیک فرمایا کہ میری ناک سے میری آزادی
شروع اور دوسرے کی ختم ہوتی ہے لیکن یہ فقرہ130 سال پرانا ہے اور امریکی
عوام اور دوسری جمہوریتوں نے اسے اپنایا ہے کیا ہم سب اس پر عمل کرسکتے ہیں
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سب ملکر اس معاملے کو حل کرتے لیکن بھانت بھانت کی
بولیوں نے سارا معاملہ گڈ مڈ کردیا ہے محب وطن جماعتیں اور ان کے لیڈر اس
صورت حال پر پریشان ہیں مگر مقام شکر ہے کہ وہ اس کیلئے سنجیدہ کوششیں
کررہے ہیں امیر جماعت اسلامی سراج الحق ، سابق صدر آصف علی زرداری ، الطاف
حسین ، مفتی منیب الرحمان کی کوششیں باعث اطمینان و قابل قدر ہیں ہم یہی
مشورہ دیں گے کہ قومی سوچ اور اسلامی اقدار کو بلند کیاجائے اور پاکستان
آئین و جمہوریت کو سامنے رکھ کر فریقین کو قائل کیاجائے پاکستان میں
جمہوریت اور آئین کے لیے بہت قربانیاں دی گئیں ہیں ہمیں احتجاج کرنے والوں
کے جائز مطالبے پر کان دھرنے چاہیں ورنہ بقول حضرت امیر خسرو یہی ہوگا کہ
کھیر پکائو جتن سے چرخا دیا جلا
آیا کُتّا کھاگیا تو بیٹھی ڈھول بجا
ہمیں شہدائے جمہوریت و غازیان جمہوریت کی قربانیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے
پاکستان کے مفاد کو عوام کے بھلے کو سامنے رکھتے ہوئے سوچنا ہوگا حکومت اور
احتجاجی لیڈران کرام و عوام کو ایک پیج پر جمع ہوکر مسائل کا حل نکالنا
ہوگا قومی اداروں کو بہر حال عزت و احترام دینا ہوگا عوام کی مشکلات کم
کرنا ہوں گی جلد از جلد سب کیلئے قابل قبول حل نکالنا جمہوری لیڈروں کی
بالغ نظری کا امتحان ہے اللہ عزوجل اپنے حبیب پاک ۖ کے صدقے پاکستان کی
حفاظت کرے ہم سب کو آسانیاں فراہم کرے اور آسانیاں تقسیم کرنے کی توفیق عطا
فرمائے ۔ آمین ثم آمین |
|