زیر السطور ممالک کی عوام و
مملکت کا اسلام سرکاری و اکثریتی مذہب ہے ، جغرافیائی و سیاسی لحاظ سے ان
ممالک کو اکثر مسلم دنیا کا نام دیا جاتا ہے۔ پاکستان کوبرطانیہ سے 14اگست
1947ء کو آزادی ملی۔ انڈونیشیا نے 17اگست1947ء کو ہالینڈ سے اور عوامی
جمہوریہ بنگلہ دیش 1947ء میں پاکستان کے ساتھ مشرقی حصے کے طور پر آزاد ہوا
تھا لیکن 16دسمبر 1971ء میں ایک خونی سازشی جنگ کے بعد مغربی پاکستان سے
الگ ہوکر نئی ریاست بن گیا۔ عرب جمہوریہ مصر نے برطانیہ سے 28فروری 1922ء
کو آزادی حاصل کی اور18جون 1953ء کو جمہوریہ بنا۔ایران کی تاریخ ہزاروں
سالوں پر محیط ہے۔ شہنشاہیت کو 11فروری 1979ء کے انقلاب اسلامی نے ختم
کردیا۔ ترکی یوریشیائی ملک ہے ،جس کا موجودہ سیاسی نظام 29اکتوبر 1923میں
سقوط سلطنت عثمانیہ کے بعد مصطفی کمال اتا ترک کی زیر قیادت تشکیل دیا گیا۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد میثاق اوقیانوس کے تحت فرانس نے02مارچ 1956ء کو اور
ہسپانیہ نے 7 اپریل 1956کو مراکش کو آزادی دی ۔ عراق دنیا کا قدیم تریم ملک
ہے برطانیہ و اقوام متحدہ سے 3اکتوبر 1932ء کو آزادی ملی لیکن2003ء میں
امریکہ نے اس پر دوبارہ قبضہ کرکے پٹھو حکومت قائم کرالی ۔
افغانستان کی تاریخ پچاس ہزار سال سے زائد پرانی ہے 642عیسوی تک یہ علاقہ
ہنوں ، منگولوں ، ساسانیوں اور ایرانیوں کے پاس رہا پھر مسلمانوں نے فتح
کرلیا۔ برطانیہ کے رسوخ سے۸ اگست 1919سے اعلان آزادی ہوا اور جدید
افغانستان19 اگست 1919کو آزاد ہوا۔گو کہ بعد میں عالمی استعماری قوتوں
کیلئے میدان جنگ بناہوا ہے 79 ء میں روس نے قبضہ کرنے کی کوشش کی اور خود
ہی ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا اور آذربائیجان ، جمہوریہ تاجکستان، جمہوریہ کرغیر ستان،
ترکمانستان ،ا زبکستان ،آزادی کے اعلان کے بعد روس سے آزاد ہوئے۔ ملائیشیا
کوبرطانیہ سے31 اگست1957 ء میں آزادی ملی جس کی توسیع 16ستمبر 1963ء کو کی
گئی۔ 20 مئی1927کو معایدہ جدہ کے تحت آل سعود کی جانب سے قبضہ کئے جانے
والے علاقوں کو برطانیہ کی حکومت نے تسلیم کرلیا جس کے بعد حجاز و نجد کا
نام تبدیل کرکے مملکت سعودی عرب رکھ دیا گیا اور بادشاہت قائم کردی گئی۔یمن
عربوں کی اصل سر زمیں ہے ۔ جمہوریہ یمن مغربی ایشیا میں واقع مشرق وسطی کا
ایک مسلم ملک ہے۔جدیدشمالی و جنوبی یمن کا اتحاد22مئی1990ء کو ہوا تھا۔
جدید مملکت شام دنیا کے قدیم ترین ممالک میں سے ایک ہے ، انیسویں صدی تک
سلطنت عثمانیہ کے تحت رہا ۔موجودہ دور کا شام1946 ء میں فرانس کے قبضے سے
آزاد ہوا تھا ۔
سیر الیون و لیبیا کو اطالیہ سے نائجر،برکینا فاسو ، سینیگال ، جمہوریہ
مالی ،جمہوریہ گنی ،موریتا یا،، اتحاد القمری ، جسے یونین آف کمروز ،
جمہوریہ جیوتی ،الجزائر،چاڈ کو فرانس سے صومالیہ،سوڈان ،گیمبیا ،نائیجریا
کوبرطانیہ سے آزادی حاصل کی یہ تمام افریقی ممالک ہیں۔
متحدہ عرب امارات کی ریاستیں ، ابو ظہبی،عجمان، دبئی،فجیرہ، راس ، المخمیہ
، شارجہ اور ام القوین ریاست ہائے ساحل متصالح کہلاتی تھیں۔ 2دسمبر1971 ء
کو برطانیہ سے آزادی کے بعد قائم ہوئیں۔
اردن کی سرزمین تاریخی اعتبار سے قدیم ترین تہذیبی روایات رکھتی ہے۔برطانیہ
اور اقوام متحدہ سے 25مئی1946ء کو آزاد مملکت کا قیام عمل میں آیا۔پہلی جنگ
عظیم کے اختتام پر سلطنت عثمانی کے زوال کے بعد لیگ آف نیشنز اور اتحادی
افواج نے بحیرہ روم کے شمالی ساحل کا نقشہ ازسرنو بنانے کا فیصلہ کیا جس کے
بعد فرانسیسی شام اور برطانوی فلسطین کا قیام عمل میں آیا۔
لبنان ایک مسلم اکثریتی ملک ہے مگر عیسائی دولت اور اقتدار پر قابض
ہیں۔1975کی خانہ جنگی سے پہلے لبنان کو مشرق وسطی کا پیرس اور سوئٹز لینڈ
کہا جاتا تھا۔فرانس اور اقوام متحدہ سے 22نومبر1943ء کو آزادی کا اعلان کے
بعد قیام عمل میں آیا۔فلسطین دنیا کے قدیم ترین ممالک میں سے ایک ہے ، جس
کے بیشتر حصے پر اب اسرائیل کی ریاست قائم کی گئی ہے۔فل الوقت موجودہ خو
مختاری 1994ء سے ہے لیکن ابھی تک آزاد نہیں ہوا۔موجودہ کویت کی تاریخ
آزادی19 جون 1961ء کو عمل آئی۔ جمہوری البانیا ، کے ستر فیصد لوگ مسلمان
ہیں۔مگر یہ یورپ کا واحد ملک ہے جہاں اشتراکیت قائم ہے اور نام کی جمہوریت
ہے۔سلطنت عثمانیہ جب اناطولیہ سے بلقان تک پھیلی تو البانیا بھی اس کا حصہ
تھا۔ فرانس سے 28اکتوبر1960 ء میں آزادی ملی۔عمان پرتگال سے 1960ء میں
آزادی کے بعد مطلق ملوکیت کے تحت قائم ہوا۔ کو سووہ اقوام متحدہ کے زیر
انتظام جنوبی سربیا علاقہ یورپ کے نیم خودمختار علاقوں میں شامل کیا جاتا
ہے ۔عملی طور پر علاقہ سربی کی حکومت نہ ہونے کے برابر ہے ا۔سربیا سے اعلان
آزادی 17فروری 2008ء کو کیا گیا ۔مملکت برونائی دارالسلام بحرین اور قطر
کوبرطانیہ سے آزادی ملی۔ برونائی 182ممالک میں5ویں نمر پر امیر ترین ملک
ہے۔ترک جمہوریہ شمالی قبرص کے شمالی علاقوں میں واقع ایک ریاست ہے جسے صرف
ترکی تسلیم کرتا ہے اقوام متحدہ پورے جزیرہ قبرص پر جمہوریہ قبرص کا اختیار
تسلیم کرتا ہے۔15نومبر 1983ء سے قبرص سے آزادی ملی۔جمہوریہ مالدیب ، جزائر
پر مشتمل اکثریتی مسلم آبادی رکھنے ولاا ملک کو مالدیب سے آزادی حاصل کی۔
اسلامی ممالک و ریاستیں کے ہوتے ہوئے مسلم امہ کی حالت زار قابل رحم ہے ،
مالی طور پر انتہائی کمزور ہیں اور سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ سلطنت عثمانیہ
کے خاتمے ، جنگ عظیم و دوئم کے بعد ان تمام ممالک کو برطانیہ ، فرانس ،
اطالیہ ، روس نے آزادی دی جس کے بعدیہ ممالک کا مسلم اکثریتی ملک ہونے سبب
کے مسلم دنیا کہلائے۔ معاشی طور پر عرب ممالک ، ریاستیں تیل کی دولت کی وجہ
سے مالا مال ہیں لیکن زیادہ تر مسلم آبادی والے خاص کر افریقی ممالک
انتہائی کمپرسی کا شکار ہیں۔لبنان، عراق ، شام ،ایران ، مصر، ترکی اور
افغانستان جیسے ممالک ہیں جن کی قدیم تہدیبوں ہزاروں سال پر محیط ہے اور ان
میں جنگجوانہ صلاحیتیں بھی ہیں ، لیکن عرب ممالک کی ریاستیں دولت سے
مالامال ہیں ان کی بے حسی کے سبب کمزور ترین ہیں اور ہنود ، یہود و نصاری
کے ظلم کا نشانہ بن رہے ہیں ۔
پاکستان واحد ملک ہے جس کے پاس تمام معدنی و قدرتی دولت کے ساتھ ، ایٹمی
طاقت اور تمام مسلم ممالک کا لیڈر بننے کی صلاحیت اور قوت موجود ہے ،
کیونکہ ریاست مدینہ کے پاکستان واحد ملک ہے جو اسلام کے نظرئیے پر قائم ہوا
ہے اور یہی ڈر ہنود ، یہود و نصاری کو ہے اگر پاکستان ا پنے پیروں پر کھڑا
ہوگیا تو وہ ان مسلم ممالک کے مسائل بھی حل کراسکتا ہے جنھیں پاکستانی کی
عوام جانتی بھی نہیں۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان کو زر خرید سیاست دانوں کی وجہ
سے پاکستان کو کمزور تر کیا جارہا ہے۔ تمام مسلم امہ کیلئے لمحہ فکریہ ہے
حجاز مقدس نکلنے والا انقلاب کہاں تک پہنچا اور اب ان پر اسلام کے نام پر
حد درجے ظلم ہو رہا ہے معاشی طور پر کمزور ہیں دفاعی طاقت نہیں ، کیونکہ ہم
امت واحدہ نہیں ورنہ آج ہم دنیا کے حکمران ہوتے ہیں۔مظلوم مسلمانوں کے ساتھ
ساتھ دنیا بھر میں بے گناہ عوام پرہونے والے ظلم کو روکتے ، لیکن سازش کے
تحت ہنود ، یہود و نصاری نے ان ہی ممالک کو کمزور کیا جو اسلام دشمنوں کو
ان کی اوقات یاد دلاسکتے تھے۔ خاص طور پر 80فیصد ممالک نے تو ابھی چند
دہائی قبل آزادی کی نعمت حاصل کی لیکن ترقی یافتہ قوت بننے کے بجائے خانہ
جنگی ، معاشی بد حالی اور دیگر فروعی مسائل میں الجھ کر یہود ، ہندو و
نصاری کے آلہ کار بن گئے ۔
جب تک ان کی قیادت کرنے والا کوئی اسلام دوست ملک نہیں اٹھے گا ۔ مسلم امہ
اسی طرح ذلیل ہوتی رہے گی۔ہمیں تھوڑا غور و فکر سے کام لینا چاہیے ۔مدنی
ریاست ،خلافت راشدہ، بنو امیہ ، عباسی دور ، فاطمی دور ، سلطنت عثمانیہ
مسلم خلافتیں تھیں اس لئے پوری دنیا میں ان کا سکہ چلتا تھا جب سلطنت
عثمانیہ کا شیرازہ بکھیر دیا گیا تواب جدید مسلم ممالک کو مشترکہ لائحہ عمل
بنانا ہوگا۔فرقوں ، مسالک اور فروعی اختلافات کو ختم کرنا ہوگا ا ورنہ ان
ممالک کو اسلامی کہنا ختم کردیں جہاں اﷲ اور اس کے رسول حضرت محمد ﷺ کا
نظام نافذ نہیں ۔ ایسے ممالک ہنود ، یہود و نصاری آزاد کردہ ممالک اور موجد
اور ان کے دست نگر ہیں کیونکہ اﷲ کے بجائے انھیں دوست سمجھتے ہیں جبکہ اﷲ
تعالی کا قانون ہے کہ یہود و نصاری کبھی دوست اس وقت تک نہیں بن سکتے جب تک
تم بھی ان جیسے نہ ہوجاؤ۔۵۷ مسلم ممالک او آئی سی کے بجائے نیٹو کی طرز پر
مسلم نیٹو افواج بنا لیں ۔ پھر دیکھتے ہیں کہ صلیبی انتقام کون لینے کی
جرات کرے گا۔ان تمام ممالک کی عوام بزدل کمزور نہیں ہے کہ جبر کے خلاف آواز
بلند نہ کرسکیں اور ظلم کے لئے اٹھنے والے ہاتھ روک نہ سکیں ، لیکن بد
قسمتی سے ان ممالک کے حکمران ہنود ، یہود و نصاری کے غلام ہیں اور ان کے
مفادات کے لئے کام کرتے ہیں ۔ اور جو مسلم ملک کے حکمران ہنود ، یہود و
نصاری کے ایجنڈے کے تحت نہیں چلتا انھیں فرقہ واریت ، لسانیت ، قوم پرستی
جیسے ناسوروں میں الجھا کر آپس میں سازش کے تحت لڑادیا جاتا ہے۔ اسلام کے
نام کا لبادہ اوڑھ کر نت نئے خو د ساختہ خلفیہ اصلاح کے نام پر فساد پیدا
کرنے کیلئے آجاتے ہیں اور جو نام نہاد جمہوری ممالک ہیں وہاں کے کرپٹ زر
خرید، ہنود ، یہود و نصاری کے غلام انقلاب کے نام پر قوم ، ملک سلطنت میں
تباہی مچا دیتے ہیں۔
اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی |