ایک کہانی کا چھوٹا سا منظر ۔۔۔
“ ۔ ۔ ۔ ابو! ۔۔۔۔۔ ابو! ۔۔۔۔۔ ابو دیکھیں یہ مجھے تنگ کر رہا ہے ۔۔۔۔۔
بوٹے نے اپنے باپ کو دہائی دی ۔۔۔۔۔ بوٹے کا باپ علاقے کا سب سے بڑا بدمعاش
تھا وہ بیٹے کی پکار پہ گھر سے نکلا اور اس کی نشاندہی پر ایک لڑکے کو مار
مار کر لہو لہان کردیا ۔ ۔ ۔ “
اب ہم آپ کو ایک جلسہ میں لئے چلتے ہیں ۔۔۔
“ ۔ ۔ ۔ یونائیٹڈ اسٹیٹ آف امریکہ ! ۔۔۔۔۔ برطانیہ ! ۔۔۔۔۔ یورپی یونین !
۔۔۔۔۔ اقوامِ متحدہ ! آپ دیکھیں یہاں ہمارے ساتھ کیا سلوک ہو رہا ہے ۔۔۔۔۔
ہمیں یہ نصیب نہیں ۔۔۔۔۔ ہمیں وہ نصیب نہیں ۔۔۔۔۔ یہاں ہم بے بس ہیں ۔۔۔۔۔
بے یار و مددگار ہیں ۔۔۔۔۔ کوئی سننے والا نہیں ۔۔۔۔۔ کوئی دیکھنے والا
نہیں ۔۔۔۔۔ کوئی پوچھنے والا نہیں ۔ ۔ ۔ “
یہ صدائیں، یہ دہائیاں، یہ پکاریں ہیں محترم علامہ طاہر القادری صاصب کے
جلسہ کی۔ جو وہ انہیں' انہی کی زبان میں چِلا چِلا کر دے رہے ہوتے ہیں تاکہ
وہ براہ راست سن لیں ۔۔۔۔۔ ہم بڑے ادب و احترام سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ یہ
پکاریں کیوں ہیں؟ ۔۔۔۔۔ مشکل میں تو ہمیشہ اسی کو پکارا جاتا ہے جو اپنا ہو
۔۔۔۔۔ جس پر اعتبار ہو کہ ہماری دہائی پر مدد کو ضرور آئے گا ۔۔۔۔۔ جس پر
یقین ہو کہ نہ صرف ہماری مدد کرے گا بلکہ مخالف کو سبق بھی سکھائے گا۔
ہم قطعا مارشل لا کے حامی نہیں لیکن پھر بھی کہیں گے کہ اگر آپ کو کسی
ادارے سے انصاف نہیں مل رہا اور حکومت ظلم کر رہی ہے تو آپ کو اپنوں کو
پکارنا چاہئے تھا ۔۔۔۔۔ غیروں کو آواز دینا کیا مقصد ۔۔۔۔ آپ جس فوج کے
بارے میں اتنا پر اعتماد ہیں کہ وہ آپ پر اور اپنے عوام پر گولی نہیں چلائے
گی تو آپ مدد کے لئے اس کو ہی پکار لیتے ۔۔۔۔۔ کیا وہ لوگ آپ کے لئے اپنی
فوج سے بھی بڑھ کر ہیں؟ اگر نہیں ۔۔۔۔۔ تو آپ اپنی ایف-آئی-آر نہ کٹنے پر
ہوری قوم کے خلاف ایف-آئی-آر کٹوانے پر کیوں تلے ہوئے ہیں ۔۔۔۔ !!! |