اگر مو جودہ طرز انتخاب اور جمہوریت نے کل مشرقی پاکستان
کو بنگلہ دیش بننے کی سہولت مہیا کی تھی تو آج یہ ہی جمہوریت اور نظام
انتخابات اور آئین پاکستان کے مزید حصے بقرے کرنے کے درپے ہے ، پاکستان کا
جمہوری نظام ایک فراڈ ہے جو اکثریت کی حکمرانی کے پردے میں چند چہروں ، چند
خاندانوں اور چند جماعتوں کی شہنشاہییت کو تحفظ دے رہا ہے آئین آسمانی
صحیفہ نہیں ہے جس کی حفاظت کے لیے آج دینی و مذہبی جماعتیں رطب السان ہیں
اگر ان سب کا ماضی اٹھا کر دیکھا جائے تو یہ سب ایک دوسرے کو سیکورٹی رسک
قرار دیتے رہے ہیں مگر بقول سیاسی رہنمائوں کے سیاسیت میں دوستی دشمنی
دائمی نہیں ہوتی ماضی میں نوابزادہ نصراللہ جس عہدے پر فائز نظر آتے تھے آج
وہی منصب امیر جماعت سراج الحق نے سنھبالا ہوا ہے ،دھرنوں کی تاریخ اگر
اٹھا کر دیکھی جائے تو بینظیر بھٹو کے خلاف جماعت اسلامی سمیت مسلم لیگ کی
احتجاجی ریلیاں خود میاں صاحب کی پہلی اور دوسری حکومت کے خلاف پی پی سمیت
جماعت اسلامی کی احتجاجی جلسے جلوس ریلی دھرنے نواز ہٹائو ملک بچاؤ مہم ،
اس وقت بھی ملک کا سیاسی منظر یہ ہی پیش منظر پیش کر رہا ہے فرق صرف اتنا
ہے کہ آج ملک کی درجنوں بڑی چھوٹی سیاسی مذہبی لسانی جماعتیں نواز بچائو
آئین بچائو کا نعرہ لگاتیں مزاکرات مزاکرات کھیل رہی ہیں جبکہ دوسری جانب
پاکستان عوامی پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف کی دھرنا سوپ سیریل نے عوام
کے ضبط تحمل قوت برداشت کو ریزہ ریزہ کر دیا ہے پاکستان کا الیکٹرونک میڈیا
واضح طور پر دو سمتوں میں تقسیم ، تقسیم شدہ رقوم کو حلال کتنے میں لگا ہوا
ہے اگر اس سیاست اور میڈیا کے ارادوں میں خلوص ہوتا دلوں میں عوام کی خدمت
کا جزبہ ہوتا تو آج یہ اپنا بازار سجا کے بیچ چوراہے پر نہ بیٹھے ہوتے آج
جتنے لوگ اسلام آباد میں دھرنا دے کر نواز شریف اور شہباز شریف کی حکومتوں
کے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں اس سے لاکھوں کروڑوں گنا زیادہ لوگ
موجودہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی برطرفی کے خواہش مند ہیں گیلپ سروے نے
تو ہمیشہ رائٹسٹوں کو خوش کیا ہے گو کہ اب سیاست میں لیفٹ رائٹ کچھ نہیں
رہا ، خواہش اقتدار کے سب اسیر اور ایک حمام میں سب ننگے ہیں ان تمام
سیاستدانوں کے چھپے ہوئے منشور ، نعروں اور وعدوں کے پیچھے چھپے ہوئے عزائم
کچھ اور ہیں جن کا مرکزی نکتہ اقتدار ، ہر حال اور ہر صورت میں اقتدار کا
حصول ہے کیا ان سیاستدانوں کو نہیں معلوم کہ ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی کو
صاف ہوا ، تازہ پانی اور جسم کی ضرورت کے مطابق خوراک بھی میسر نہیں ،
انہوں نے کبھی سرکاری و نجی ھسپتالوں میں بلکتی دھکے کھاتی عوام کو مرتے
سسکتے لٹتے دیکھا ہو تو وہ جانیں کہ اس ملک میں عوام کو علاج معالجے کی
کتنی سہولتیں حاصل ہیں عوام کے دکھڑے ہزاروں غم لاکھوں ہیں اور ان کو ضبط
تحریر میں لانے کے لیے دفتر چاہیے مجھے تو صرف اتنا کہنا ہے کہ جس طرح موت
تو بدنام ہے کہ تکلیف دیتی ہے حالانکہ دکھ تو زندگی میں بھی کم نہیں ہوتے
پاکستان میں مار شل لاء کی تاریخ بھی کچھ ایسے ہی جذبات رکھتی ہے
سیاستدانوں کی ضد ہٹ دھرمی نے عوام کو اتنا مجبور کردیا ہے کہ بقول شاعر
اتنا حبس ہے کہ لوگ لو کی دعا کرتے ہیں ، کیا جمہوریت صرف سیاستدانوں کی
حکومت کا نام ہے ؟ جمہوریت ایک رویے اور عوام کو ریلیف دینے اور عوام کا
معیار زندگی بلند کرنے کا راستہ ہے اگر آج کے سیاستدانوں نے عوام سے یہ حق
چھین لیا ہے تو پاکستان آرمی بحیثیت ایک ادارے کے آگے بڑھ کر عوام کو اس
ذہنی اذیت سے نجات کیوں نہیں دلاتی روزانہ سیکڑوں ارب روپے کا نقصان آخر یہ
سب کیوں ؟ ترقی کی جانب سفر میں برسوں لگتے ہیں اسے یوں دنوں ہفتوں میں
برباد ہوتے دیکھنا ، کم از کم ایک محب وطن عام پاکستانی کے لیے اب یہ
انتہائی مشکل ہوتا جا رہا ہے فیصلے کی گھڑی سر پہ کھڑی ہے ( منصف شہر کی
وحدت پہ حرف نہ آے / لوگ کہتے ہیں کہ ارباب جفا اور بھی ہیں |