نومبر 25، 2013ء کو بلوچستان کے ایرانی سرحد کے قریب واقع
ضلع کیچ کے ایک گاؤں کوہلو میں واقع دو گھروں پر راکٹ فائر ہوئے جس کے
نتیجے میں گھر تباہ ، ایک بچی ہلاک اور کئی ایک زخمی ہوگئے اور علاقے کے
مکینوں کا کہنا تھا کہ یہ راکٹ ایرانی پاسداران انقلاب فورس کے لوگوں نے
فائر کئے جبکہ پاکستانی سیکورٹی اہلکاروں کے مطابق یہ راکٹ خود کیچ سے ہی
فائر کئے گئے تھے اور بعض مقامی زرایع کا کہنا تھا کہ راکٹ بی ایل اے کی
طرف سے فائر کئے گئے اور نشانہ ملاّ عمر بلوچ تھا جس کا تعلق ایرانی
بلوچستان سے ہے اور وہ آج کل پاکستان کے صوبے بلوچستان میں موجود ہے اور جب
یہ حملہ ہوا تو ان دنوں ملاّ عمر ایرانی کیچ ضلع میں اس رہائشی علاقے میں
قیام پذیر تھا اور اس کے گھر کے ساتھ اس کے انتہائی قریبی عزیز عبدالقیوم
بلوچ کا گھر تھا جس کی بیٹی اس راکٹ حملے میں جاں بحق ہوگئی
ملاّ عمر ایرانی ایک کلین شیو 40 سال کی عمر کا جوان ہے اور وہ اس وقت جیش
العدل کا امیر ہے اور حیرت انگیز طور پر پاکستانی بلوچستان کے ضلع کیچ کے
گاؤں کوہلو میں ایک کمپاؤنڈ میں رہائش پذیر تھا اور یہ گاؤں وہ ہے جہاں
1990ء میں مولا بخش سیستانی نے سپاہ رسول اللہ نامی ایک دھشت گرد تنظیم کی
بنیاد رکھی تھی اور وہ ایرانی بلوچستان سے فرار ہوکر آیا تھا ،اس نے اپنی
تنظیم کا الحاق لشکر جھنگوی سے کیا اور کیچ وہ ضلع تھا جہاں سے سب سے پہلے
سپاہ صحابہ پاکستان کا زبردست کام بلوچ قبائل میں شروع ہوا
ایران کے سنّی اکثریت کی آبادی کے صوبے بلوچستان- سیستان میں ایران کی
حکومت کے خلاف ایرانی بلوچوں نے اپنی تحریک مزاحمت کا آغاز جنبش مقاومت
مردم ایران کے نام سے کیا تھا اور یہ بنیادی طور پر قومی مزاحمت کی تحریک
تھی لیکن اس تحریک میں سعودی عرب کی مداخلت کے سبب دیوبندی تکفیری عناصر کی
مداخلت تیزی سے بڑھی اور عبدالمالک ریگی جوکہ اس تحریک کا چیف تھا جس نے
2002ء میں اس تحریک کی بنیاد رکھتے ہوئے اپنے ایک انٹرویو میں یہ واضح کیا
تھا کہ اس کی جدوجہ کا مقصد فرقہ وارانہ نہیں ہے نہ ہی کوئی شیعہ سنّی
تنازعہ حل کرانا ہے بلکہ وہ تو ایرانی بلوچوں کے انسانی حقوق کی بازیابی کے
لیے جدوجہد شروع کررہا ہے لیکن 2005ء میں جنبش مقاومت مدرم ایران جند اللہ
میں بدل گئی اور اس کی بنیاد بھی فرقہ وارانہ ہوگئی اور اس بات کے واضح
شواہد موجود ہیں کہ جنداللہ کے پاکستانی بلوچستان میں آکر اپنے کیمپ قائم
کرنے والے مولا بخش سیستانی کی سپاہ رسول اللہ سے لنک بنے اور انھی روابط
کی بنیاد پر جنداللہ کے تعلقات لشکر جھنگوی سپاہ صحابہ (نام نہاد اہلسنت
والجماعت) و پاکستانی طالبان سے ہوئے اور جند اللہ میں بہت سے دیوبندی
مدارس کے طالب علموں کی شمولیت ہوئی اور جنداللہ دیوبندی تکفیری نیٹ ورک کے
ساتھ جڑتی گئی اور پاکستانی دیوبندی تکفیری دھشت گردوں سے رابطے کے ایک سال
بعد ہی 2006ء میں جنداللہ نے تسکوئی سیستان صوبے کے قریب ایک روڈ بلاک کیا
اور 22 کے قریب سویلین کو ان کے شناختی کارڑ دیکھ کر شیعہ ہونے کی بنیاد پر
قتل کرڈالا-
مولا بخشن درخشان نے شادی پاکستانی بلوچ خاندان میں کی اور اس کے گروپ کے
کئی ایرانی بلوچوں کی شادیاں پاکستان کے صوبے بلوچستان کے بلوچ قبائل میں
ہوئیں اور اس طرح سے سپاہ رسول اللہ کے بیس کیمپ بلوچستان میں اور مضبوط
ہوگئے اور ملاّ عمر جس کے بھائی کو پاکستانی سیکورٹی ایجنسیوں نے ایرانی
حکام کے حوالے کیا تھا وہ بھی انتقام لینے کے لیے سپاہ رسول اللہ میں شامل
ہوگیا اور پھر مولا بخش درخشان امیر سپاہ رسول اللہ ایرانی فورسز کے ہاتھوں
مارا گیا تو قیادت ملّا عمر ایرانی کے ہاتھ آگئی اور ملآ عمر نے زیادہ بڑے
پیمانے پر دیوبندی تکفیری دھشت گرد نیٹ ورک سے روابط استوار کرنے شروع کئے
،2006ء میں ہی سپاہ رسول اللہ کی امارت ملّا عمر ایرانی کے ہاتھ میں آئی
اور اس دوران ہی اس کے جنداللہ کے لوگوں سے بھی روابط مضبوط ہوئے اور
عبدالمالک ریگی جس نے افغانستان کے صوبے زابل میں جاکر افغان طالبان سے جند
اللہ کے ساتھ اتحاد بنانے کی درخواست کی تھی اور افغان طالبان اس کے امریکی
لنک کے سبب اس کی آفر پر غور نہ کرسکے تھے کی پھانسی کے بعد جنداللہ کے بہت
سارے لوگ ملاّ عمر ایرانی سے ملے اور 2012ء میں جنداللہ کا نام تبدیل کرکے
جیش العدل کردیا گیا اور اس کا امیر ملاّ عمر بنا جبکہ اس کا نائب امیر
صلاح الدین فاروقی کو بنایا گیا جوکہ بلوچستان میں لشکر جھنگوی سپاہ صحابہ
(نام نہاد اہلسنت والجماعت) کے طاقت ور گروپ کی نمائندگی کرتا ہے –
بلوچستان میں سپاہ صحابہ لشکر جھنگوی کی قیادت رمضان مینگل اور رفیق مینگل
کرتے ہیں جن کا بروہی بلوچ لوگوں کے ایک مخصوص دیوبندی انتہا پسند گروپ میں
گہرا اثر ہے-
جیش العدل اس وقت ایک ایسی تنظیم کے طور پر سامنے آئی ہے جس کے سلیپنگ سیلز
ایک طرف تو مغربی بلوچستان جوکہ ایران میں ہے کے اندر موجود ہیں تو دوسری
طرف اس کے سب سے مضبوط ریکروٹمنٹ سنٹرز مشرقی بلوچستان کے اندر نہ صرف
ایرانی سرحد کے قریب کے اضلاع میں موجود ہیں بلکہ یہ تنظیم بہت تیزی سے
بلوچستان کے دیگر علاقوں میں بھی اپنی جڑیں مضبوط کررہی ہے اور اس تنظیم نے
ایک طرف تو بلوچستان کے اندر موجود عالمی دیوبندی وہابی تکفیری نیٹ ورک کے
ساتھ اپنے روابط مضبوط کئے ہیں جن میں لشکر جھنگوی اور تحریک طالبان
پاکستان سے تعلق رکھنے والے وہ گروپ شامل ہیں جو عالمی خلافت کے قیام کے
حامی ہیں اور پاکستانی حکومت اور ریاست کے خلاف بھی جہاد اور قتال کرتے
ہیں-
ایسے ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ ملاّ عمر اور صلاح الدین فاروقی جیش العدل کو
تحریک طالبان پاکستان سے الگ ہوکر بننے والی نئی تنظیم جماعت الاحرار کے
ساتھ الحاق کرنے کے خواہش مند ہیں اور اس طرح کی اطلاعات موجود ہیں کہ
جماعت الاحرار کے بہت گہرے روابط شام اور عراق میں دولت اسلامیہ کی بنیاد
رکھنے والی تنظیم داعش کے ساتھ نہ صرف رابطے ہیں بلکہ ان کے درمیان غیر
اعلانیہ معاہدہ بھی ہوچکا ہے اور جیش العدل کے بارے میں ایسی اطلاعات موجود
ہیں کہ داعش ان کے زریعے ایرانی کردستان میں اپنی موجودگی دکھانے کی خواہاں
ہے-
جیش العدل جس کے محفوظ ٹھکانے مشرقی بلوچستان میں اب کوئی راز کی بات نہیں
رہے ہیں کے بارے میں پاکستانی حکومت اور ملٹری اسٹبلشمنٹ کی پالیسی کیا ہے
کھل کر کچھ واضح نہیں ہورہا ، بعض شواہد ایسے ہیں جن کی بنیاد پر یہ کہا
جاسکتا ہے کہ جیش العدل کو پاکستانی ملٹری اسٹبلشمنٹ بلوچ گوریلا تحریک کے
کاؤنٹر کے طور پر لے رہی ہے اور اس کی سرگرمیوں کو کنثرولڈ اجازت دئے ہوئے
اور چاہتی ہے کہ جیش العدل اور بلوچ گوریلا تنظیموں میں تصادم ہو اور یہ
باہمی لڑائی میں تباہ ہوجائیں جبکہ بلوچ مزاحمت کاروں میں بی ایل اے کی جیش
العدل سے خونین چھڑپ کی اطلاعات ہیں اور اس جھڑپ میں جیش العدل کے 17 دھشت
گرد مارے گئے ہیں-
جیش العدل جہاں اپنے اڈے مشرقی بلوچستان میں بنارہی ہے وہیں بلوچ اکثریتی
علاقوں میں دیوبندی مدارس کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اور اکثر
نئے مدارس سپاہ صحابہ (نام نہاد اہلسنت والجماعت) دیوبندی کے زیر انتظام
ہیں اور اہل سنت والجماعت کی مشرقی بلوچستان میں اینٹی شیعہ ، اینٹی زکری
اور انیٹی صوفی سنّی اسلام سرگرمیوں مں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اور ان
دونوں کے درمیان وہی غیر اعلانیہ رشتہ نظر آرہا ہے جو اے ایس ڈبلیو جے کا
لشکر جھنگوی کے ساتھ ہے-
بلوچستان میں دیوبندی تکفیری دھشت گردوں اور ان کے حمائیتوں کا یہ بڑھتا
ہوا اشتراک اور مڈل ایسٹ میں داعش کی صورت ابھرنے والا مظہر اور تحریک
طالبان پاکستان کے بطن سے جنم لینے والی جماعت الاحرار بعض تجزیہ نگاروں کے
خیال میں پاکستانی داعش کے جنم کی جانب اشارے ہیں اور اس حوالے سے یہ تجزیہ
نگار یہ اشارے دے رہے ہیں کہ شاید بلوچ قومی مزاحمتی تحریک اس نئے ابھرتے
ہوئے سماجی مظہر کی جانب سے دئے جانے والے چیلنچ کا سامنا نہ کرسکے-
پاکستان کی ملٹری اسٹبلشمنٹ بلوچستان کے اندر ابتک یہ ثابت کرنے میں ناکام
رہی ہے کہ وہ بلوچستان کے اندر بلوچ گوریلا جنگ اور بلوچ قومی آزادی کی
تحریک کو دبانے کے لیے دیوبندی تکفیری دھشت گرد نیٹ ورک کے بعض سیکشنز کی
سرپرستی نہیں کررہی ہے ، کیونکہ یہ تو اب سب پر عیاں ہے کہ فوجی اسٹبلشمنٹ
بلوچستان میں دیوبندی تکفیری گروپ کے سب سے طاقت ور دھڑے اہل سنت والجماعت
دیوبندی کی سرپرستی کررہی ہے اور ان کی سرپرستی کی وجہ سے ڈاکٹر مالک اس
تنظیم کے خلاف کچھ بھی نہیں بولتے لیکن اب تک ملٹری اسٹبلشمنٹ کا کسی بھی
جہادی گروپ کو پراکسی کے طور پر استعمال کرنے سے یہ کبھی نہیں ہوا کہ اس
گروپ کے لوگوں نے اپنے مسلک کۓ تکفیریوں کو تعاون فراہم نہ کیا ہو اور یہی
وجہ ہے کہ ملٹری اسٹبلشمنٹ کی ڈھیل کی وجہ سے اب بلوچستان میں جیش العدل کی
صورت نئی داعش کے ابھار کے امکانات بہت واضح ہوکر سامنے آرہے ہیں-
پاکستان کی سیکولر، لبرل اور قوم پرست جماعتیں اب تک دیوبندی وہابی تکفیری
عالمی دھشت گرد نیٹ ورک اور اس کے نظریہ سازوں کے خلاف کوئی مربوط فکر اور
حکمت عملی اختیار نہیں کرپائي ہیں اور گراس روٹ لیول پر دیوبندی تکفیری
دھشت گردی کے خلاف سیکولر – لبرل سیاسی ، سماجی حلقوں کی کوئی مزاحمت موجود
نہیں ہے کیونکہ ان جماعتوں نے اپنے آپ کو صوفی سنّی، شیعہ، ہندؤ، کرسچن،
احمدی اور دیگر متاثرین دیوبندی تکفیری دھشت گردی کی جانب سے لڑی جانے والی
لڑائی سے خود کو قدرے فاصلے پر رکھا اور یہی وجہ ہے کہ سب سے زیادہ اعتدال
پسند حلقوں میں ان کے منافقانہ رویوں کی مذمت کی جارہی ہے-
پاکستانی بلوچ قوم پرست حلقے اب تک بلوچستان کے اندر دیوبندی تکفیری انتہا
پسند سوچ اور اس کے زیر اثر ترقی پذیر تکفیری دھشت گردی کو صرف پاکستان کی
ملٹری اور ریاستی پراکسی وار کے طور پر ہی دیکھنے پر مصر ہیں اور وہ اس
حوالے سے عالمی دیوبندی وہابی تکفیری آئیڈیالوجی اور اس کے زیر اثر پلنے
والے دھشت گرد نیٹ ورک کے پاکستانی ریاست اور اس کے حکام سے الگ رہ کر اور
ایک خودمختار حثیت سے موجود ہونے اور اس کی بلوچ سماج میں جڑیں ہونے سے
انکاری ہیں، یہ بالکل ویسا ہی انکاری رویہ ہے جیسا پشتون سماج میں اکثر
پختون قوم پرستوں کے ہاں پایا جاتا ہے اور یہ رویہ جسقدر مستحکم ہوتا جارہا
ہے اتنا ہی بلوچ قومی تحریک کے لیے بھی سخت خطرے کا سبب بنا ہوا ہے-
جیش العدل اگر ایک طرف ایرانی بلوچستان سے پاکستانی بلوچستان کے اندر ترقی
پذیر ہے تو یہ آگے بلوچستان کے سندھ سے ملنے والی سرحد سے آگے جیکب آباد ،
کشمور اور حب سے نکل کر کراچی میں لیاری کے راستے آگے جانے کی صلاحیت رکھتی
ہے اور تکفیری دیوبندی انتہا پسندی کے پھیلتے اور وسیع ہوتے دائرہ کار سے
اس کو سب سے زیادہ مدد ملے گی اور یہ باقاعدہ ٹرانس نیشنل جہادی تصورات کی
بنیاد پر قومی سوال کے گرد اٹھنے والی تحریکوں اور سیاست کی جگہ لیتی جارہی
ہے-
اور جیسے جیسے ان کو ویسی کامیابیاں ملیں گی جیسی داعش کو شام اور پھر عراق
میں ملیں تو پاکستان میں جماعت اسلامی ، جمعیت العلمائے اسلام (تمام دھڑے)
اور جمعیت اہل حدیث جیسی جماعتوں جوکہ قدرے غیر تکفیری اسلام پسندی کے
ایجنڈوں کی داعی ہیں کے اندر بھی ٹوٹ پھوٹ ہوگی جوکہ ابھی بھی ہورہی ہے
،کیونکہ بقول امیر جماعت اسلامی سراج الحق ٹی ٹی پی سے ان کا اختلاف منزل
پر نہیں راستے پر ہے-
یہ ایک ایسا چیلنچ ہے جس کے بارے میں سوچنے کا وقت پاور پالیٹکس کی دلدل
میں گھسی پی پی پی ، اے این پی ، پی ایم کے پی ، این پی سمیت کسی بھی
سیکولر ،لبرل پارٹی کے پاس نہیں ہے اور اس کا ایک حل عالمی تکفیری دیوبندی
وہابی دھشت گرد نیٹ ورک کے سب سے بڑے متاثرین صوفی سنّی اور اہل تشیع کی
سنٹر رائٹ پارٹیوں نے پاکستان کی موجودہ عسکری قیادت کے ساتھ سٹریٹجک
الائنس بنانے کی صورت نکالا ہے اور یہ الانئس اس لیے کمزور سے استحکام پر
کھڑا ہے کہ اس سٹریٹجی سے سیکولر، لبرل جماعتیں دور نظر آتی ہیں جو اپنی
قدامت پرستی کے چنگل سے باہر نکلنے کو تیار نہیں ہیں- |