اسلام آباد میں دھرنے جاری ہیں اور فی الحال یہ واضح نہیں
ہے کہ اونٹ کسی کروٹ بیٹھتا ہے۔ ملک میں جاری بحران کے حوالے سے جمعرات کے
روز پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف سے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان
اور عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری نے الگ الگ ملاقاتیں کیں، جس کے
بعد پنجاب حکومت کی ہدایت پر لاہور پولیس نے ماڈل ٹاﺅن لاہور کے سانحہ کا
سیشن کورٹ اور لاہور ہائیکورٹ کے احکام کی روشنی میں مقدمہ درج کر لیا ہے،
جس میں وزیراعظم میاں نواز شریف، وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف اور
وفاقی و صوبائی وزراءسمیت 21 افراد کو نامزد کیا گیا ہے، لیکن سیاسی بحران
کے حل میں آرمی چیف کی جانب سے کردار ادا کرنے کے باوجود تنازع کے فریقین
ابھی تک اپنے اپنے موقف پر قائم دکھائی دے رہے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ
فوجی سربراہ سے ہونے والی ملاقات میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے
نواز شریف اور عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری نے شہباز شریف کے استعفے
کی ضرورت پر زور دیا، جبکہ نواز شریف کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ ابھی تک
حکومت کی طرف سے نہ کسی کے استعفے کی پیشکش کی گئی ہے اور نہ ہی ان سے ایسا
کرنے کے لیے کہا گیا ہے اور وزیراعظم یا وزیراعلیٰ پنجاب کے استعفوں کا
کوئی امکان نہیں ہے۔ تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ ہمیں
آرمی چیف پر مکمل بھروسہ ہے، لیکن نوازشریف پر بھروسہ نہیں ہے۔ انتخابی
دھاندلی کی تحقیقات میں فوج نیوٹرل امپائر ہو گی اور انتخابات میں دھاندلی
کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن قائم کیا جائے گا۔ عمران خان کا کہنا تھا
کہ نواز شریف کے استعفے تک ان کا دھرنا جاری رہے گا۔ وزیراعظم نواز شریف کا
کہنا ہے کہ وہ 10 حکومتیں قربان کرسکتے ہیں، لیکن اپنے نظریے اور اصول کو
قربان نہیں کرسکتے، پارلیمنٹ میں منظور کی گئی قرار داد کے ایک ایک حرف کی
پاسداری کریں گے۔ حکومت نے فوج کو ثالثی کی کوئی درخواست نہیں کی۔ انہیں
آرمی چیف کی جانب سے فون کال آئی، جس میں کہا گیا کہ طاہر القادری اور
عمران خان نے ان سے ملاقات کی درخواست کی ہے، وہ اسی صورت میں ان سے ملیں
گے جب وزیر اعظم اجازت دیں گے، جس پر انہوں نے اجازت دے دی۔ ویسے بھی
آرٹیکل 245 کے نفاذ کے باعث ریڈ زون کا تحفظ پاک فوج کی ذمہ داری ہے۔ آئی
ایس پی آر کی جانب سے بیان بھی جاری کیا گیا تھا کہ ریڈ زون میں واقع تمام
عمارتوں کی ذمہ داری ان کی ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کا
کہنا ہے کہ آرمی چیف نے حکومت کی اجازت سے عمران خان اور طاہر القادری کی
درخواست پر ملاقات کی، دھرنا دینے والوں سے مذاکرات صرف پارلیمنٹ کی
قرارداد اور آئین و قانون کی روشنی میں ہوں گے۔ موجودہ پارلیمنٹ کو اس ملک
کے عوام نے عام انتخابات کے ذریعے منتخب کیا۔ پاکستان کی منتخب پارلیمنٹ،
ایک سیاسی جماعت کے علاوہ تمام جماعتیں، عدلیہ اور ادارے ایک جانب ہیں اور
دو گروہ دوسری جانب پارلیمنٹ کے دروازے پر نظام کی تبدیلی کے لیے غیر آئینی
مطالبات کیے جا رہے ہیں، دھرنے والوں کا مطالبہ مان لیا تو کل کوئی اور
گروہ ایسا کرے گا، لشکر کشی کرکے مطالبے نہیں منائے جاسکتے، آج یہ ریت
پڑگئی تو کیا ضمانت ہے کہ کل بڑا گروہ آکر ایسا مطالبہ نہیں کرے گا۔ احتجاج
کرنے والوں کا ایجنڈا افراتفری پھیلانا اور نظام کو لپیٹنا ہے، گولی اور
لاٹھی کی سیاست کی جارہی ہے۔
دوسری جانب جمعرات کو جس طرح عمران خان اور طاہر القادری اپنے کنٹینروں کو
چھوڑ کر فوج کے سربراہ سے ملاقاتوں کے لیے گئے تھے، تمام سیاسی رہنماؤں نے
اس طرح فوج کو سیاسی معاملات میں ملوث کرنے پر افسوس کا اظہار کیا ہے اور
اس میں سب سے اہم ردّعمل خود پی ٹی آئی کے رہنما جاوید ہاشمی کی جانب سے
آیا ہے۔ جمعہ کے روز پی ٹی آئی کے رہنما مخدوم جاوید ہاشمی فوج کے کردار
ادا کرنے کے معاملے پر پارٹی قیادت سے ناراض ہو کر ملتان چلے گئے۔ جاوید
ہاشمی کا کہنا تھا کہ اس کے بعد ہم سر اٹھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔ یہ
تمام سیاستدانوں کے لیے شرمناک لمحہ ہے، جو وقت میسر ہونے کے باوجود اپنے
طور پر اس بحران کو حل نہیں کرسکے۔ حقیقی جمہوریت اس ملک میں اسی وقت پنپنے
لگے گی، جب سیاستدان اپنے فیصلے خود کرنے کے قابل ہوں گے۔ جاری بحران میں
جنرل راحیل شریف کی مداخلت کے بارے میں سابق چیف جسٹس پاکستان افتخار محمد
چودھری کی بحالی کی تحریک میں صف اول کے رہنما جسٹس ریٹائرڈ طارق محمود کا
کہنا تھا کہ یہ ملک میں جمہوریت، آئین اور پارلیمنٹ کی بالادستی کا خاتمہ
ہے۔ ملک کی وہ تمام سیاسی جماعتیں جو اس بحران کو حل کرنے کی کوشش کررہی
تھیں، انہیں غور کرنا چاہیے کہ فریقین کے جھگڑے میں فوجی سربراہ کے ثالثی
ادا کرنے کو تمام سیاسی جماعتوں کی ذلت کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ جماعت
اسلامی کے امیر سراج الحق نے اس حوالے سے کافی محتاط رد عمل کا اظہار کرتے
ہوئے کہا کہ اگر فوج فریقین کے درمیان مصالحت کروا سکتی ہے اور یہ بحران
ختم ہوتا ہے تو یہ درست اور اچھی بات ہے، لیکن فوج کا سیاست میں کوئی کردار
نہیں تھا۔ جے یو آئی ف کے ترجمان جان اچکزئی کا کہنا تھا کہ یہ سیاستدانوں
کی ناکامی ہے کہ وہ اس بحران کو حل نہیں کرسکے، لیکن جمہوریت کی روح اور
پاکستان کے آئین کے اندر رہتے ہوئے کسی معاہدے کا میں خیرمقدم کرتا ہوں۔
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے وزیراعظم نواز شریف سے کہا
ہے کہ یہ خبریں دیکھ کر کہ وزیراعظم نواز شریف نے آرمی چیف کو مذاکرات کے
حل کے لیے ثالثی کا کردار ادا کرنے کا کہا ہے تو ہمیں بہت تکلیف ہوئی، لیکن
آج وزیرداخلہ چودھری نثار نے اس بات کی وضاحت کر دی کہ آرمی چیف سے ملنے کی
درخواست پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کی جانب سے کی گئی
تھی، جس سے ہمارے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ اگر حکومت یا دیگر جماعتیں بھی
پارلیمنٹ کی قرار کردہ قرار داد سے پیچھے ہٹ بھی جائیں تو پاکستان پیپلز
پارٹی پارلیمنٹ، جمہوریت اور آئین کے تحفظ کا ڈٹ کر مقابلہ کرے گی۔ اگر یہ
لوگ معصوم بچوں اور خواتین کو جھوٹ بول کر پارلیمنٹ کو جلانا چاہتے ہیں تو
انھیں آنے کی اجازت دی جائے اور انھیں اسلام آباد کو جلانے دیا جائے، لیکن
ہم پاکستان کے آئین کا ایک حرف بھی پامال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ ہمیں
حکومت کو بچانے کا کوئی درد نہیں ہے، بلکہ ہم پارلیمنٹ کو بچانا چاہتے ہیں۔
پاک فوج اور عدلیہ بھی ہمارے ملک کے ادارے ہیں، لیکن سیاسی معاملات فوج اور
عدلیہ کے ذریعہ حل کرنے کی روایت نہیں ہونی چاہیے۔ وزیر اعظم صاحب پارلیمنٹ
نے جو قرار داد متفقہ طور پر منظور کی ہے، آپ اس پر ڈٹ جائیں ہم سب آپ کے
ساتھ ہیں۔ معروف قانون دان عاصمہ جہانگیر نے طاہر القادری اور عمران خان
دونوں ہی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے جس طرح پندرہ دن
ضایع کیے تھے، اس کی لازماً مذمت کی جانی چاہیے۔ تقریباً تمام سیاسی
جماعتوں اور سیاستدانوں نے ان سے التجا کی تھی، لیکن انہوں نے کسی کے مشورے
پر کان نہیں دھرا، اب ایک ہی فون کال پر وہ آرمی ہاؤس کی جانب تیزی سے دوڑ
گئے۔ عاصمہ جہانگیر نے تلخ لہجے میں تنقید کرتے ہوئے کہا کہ پراکسی جنگ کا
استعمال کرتے ہوئے نظام کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کی بجائے وہ براہِ راست
ہی فوجی حکومت کیوں مسلط نہیں کردیتے۔ اے این پی کے حاجی عدیل نے کہا کہ
فوج کا سیاسی ضامن بننا غلط ہے، سپریم ضامن پارلیمنٹ ہے۔ یہ تمام
سیاستدانوں کی اہم ناکامی ہے۔اپوزیشن اور عمران خان کی جانب سے اس حوالے سے
مطالبہ کیا گیا کہ سیاسی بحران میں کردار ادا کرنے کے حوالے سے فوج کے بیان
کی وضاحت ہونی چاہیے، جس پر چودھری نثار کا کہنا تھا کہ حکومت نے کسی کو
ضامن اور ثالث نہیں بنایا اور آئی ایس پی آر نے بیان جاری کیا کہ حکومت نے
ہمیں سہولت کار کا کردار ادا کرنے کا کہا تھا، آئی ایس پی آر کے اس بیان کی
چودھری نثار نے بھی تائید کی۔
تجزیہ کاروں کے مطابق ملکی تاریخ میں پہلی بار آرمی چیف کی کسی سیاسی
معاملے میں کردار ادا کرنے کے بعد ایک بڑا سیاسی بحران کسی فیصلہ کن مرحلے
میں داخل ہوتا نظر آ رہا ہے۔اس ساری صورتحال میں کم از کم ایک بات کھل کر
سامنے آ گئی ہے کہ ہمارے سیاست دان سیاسی معاملات کو سیاسی انداز میں حل
کرنے کے اہل نہیں۔ جمہوری معاشروں میں سیاسی بحران آتے رہتے ہیں اور ان
بحرانوں کو سیاست دان افہام و تفہیم اور بردباری سے حل کر کے سیاسی اور
جمہوری عمل کی مضبوطی کا باعث بنتے ہیں اور عوام کا سسٹم پر اعتماد بڑھاتے
ہیں۔ ہمارے ہاں اگرچہ پارلیمنٹ سسٹم کے لیے ایک آواز ہوئی، لیکن اس کی
قراردادوں نے مفاہمت کی بجائے مزاحمت کی فضا پیدا کی، دوسری طرف عمران خان
کا بے لچک رویہ جو پارلیمنٹ اور انتخابی عمل پر یقین تو رکھتے ہیں، لیکن
پارلیمنٹ کے کسی عمل کی بجائے ”لشکر کشی“ کے ذریعے وزیراعظم کے استعفے کا
مطالبہ کر رہے ہیں۔ حالانکہ گیلپ پاکستان سروے کے مطابق 66 فیصد عوام کا
کہنا ہے کہ وزیراعظم کو استعفیٰ نہیں دینا چاہیے، 33فیصداستعفیٰ کے حق میں
تھے، ایک فیصد نے رائے نہیں دی، رائے دہندگان سے پوچھا گیا کیا پارلیمنٹ کو
تحلیل کردینا چاہیے؟ 61 فیصد پاکستانیوں نے نہیں کہا، 37 فیصد نے ہاں کہا،
2 فیصد نے جواب سے گریز کیا۔اس کے باوجود عمران خان اپنی ضد پر قائم ہیں،
جبکہ طاہر القادری تو جمہوری سیاست کا حصہ ہی نہیں ہیں۔ تاہم مبصرین کا
کہنا ہے کہ بلا خوف تردید یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ سیاسی جماعتیں اور
پارلیمنٹ اب اس سطح پر نہیں آسکیں جہاں ہر مسئلے کا حل نکل سکے۔ ماضی کی
طرح آج بھی ”ریفری“ کے طور پر فوج کی طرف دیکھا گیا، حکومت اور دھرنا والے
خود کسی معاہدہ پر نہ پہنچ سکے۔ اب جو بھی معاہدہ ہوگا اس میں یقینی طور پر
کچھ چیزیں حکومت کو چھوڑنا پڑیں گی۔ عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کے
کچھ مطالبات بھی تسلیم نہ ہوسکیں گے۔ اس طرح کچھ دو اور کچھ لو کی بنیاد پر
سیاستدان کوئی معاہدہ کرلیتے تو یہ جمہوریت سیاسی نظام اور سیاسی عہدوں کی
عزت و تکریم کے لیے بھی نیک شگون ہوتا، لیکن یہ ثابت ہوگیا کہ کچھ ”سیاست
دانوں“ کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے پوری پارلیمنٹ کے وقار پر خراش آئی
ہے۔حالانکہ سیاست میں ہٹ دھرمی اور ضد نہیں ہوتی۔ |