کون جھوٹا ہے اور کون سچا کوئی ماننے کو تیار نہیں،
انتظامی اور سیاسی طور پر بدحال نواز شریف حکومت کچھ نہیں کرپارہی ہے۔قائد
حزب اختلاف پیپلز پارٹی کے خورشید شاہ قومی اسمبلی میں کھٹرئے ہوئے بلکل
اسمبلی کے سامنے گذشتہ پندرہ دن سے دھرنا دینے والوں پر برس رہے تھے اور
آئین بچانے کی دھائی دئے رہے تھے، شاید خورشید شاہ کی یاداشت کمزور ہے اسی
لیے شاید اُن کو این آر اوُ یاد نہیں ، شاید یہ بھی انکو یاد نہیں کہ اُنکی
پارٹی نےپانچ سال تک سپریم کورٹ کے کسی بھی حکم پر عمل نہیں کیا ۔ آصف
زرداری نواز شریف کو بچانے اُن کے پاس نہیں گئے تھے بلکہ لوٹ مار کے اُس
سسٹم کو بچانا چاہتے جو اُنکے اور نواز شریف کےلیے دبئی، جدہ اور لندن میں
کاروبار وسیع کرنے اور محلات بنانے میں مدد کرتا ہے۔ مولانا فضل الرحمان کا
بھی یہ ہی مسلئہ ہے کہ اگر زرداری اور نواز شریف کی باریاں نہ لگیں تو پھر
مولانا اور اُنکے حواری کشمیر کمیٹی کی چیرمین شپ اور وزارتیں کیسے حاصل
کرینگے، ایم کیو ایم کے گورنراور رابطہ کمیٹی کے ارکان کافی عرصہ تک دونوں
طرف ثالث کاکردار ادا کرتے رہے لیکن اب اس میں اُنکو کوئی فاہدہ نظر نہیں
آرہا ہے لہذا آج الطاف حسین نے سیدھی سیدھی فوج کو دعوت دئے ڈالی کہ آیئے
اور اس سسٹم کو لپیٹ دیجیے، کیونکہ ہمیں زیادہ فاہدہ فوجی حکومت میں ہوتاہے۔
اے این پی وہ واحد جماعت ہے جو گذشتہ انتخابات میں اپنی بری کارکردگی اور
دہشت گردی کا شکار ہونے کی وجہ سے بری طرح ناکام ہوئی اورسسٹم سے باہر ہوگی
لیکن وہ بھی اس سسٹم کو بچانا چاہتی ہے، آخر وزیر تو اُسکے بھی رہے ہیں۔
جماعت اسلامی ہمیشہ نواز شریف کے ساتھ چلی لیکن 2013ء کے الیکشن میں جب
جماعت کے سابق امیر سید منور حسن نے نواز شریف اور عمران خان سے قومی اور
صوبائی اسمبلیوں کی سیٹوں کے بٹوارئے پر اتحاد کی بات کی تو نواز شریف اور
عمران خان دونوں نے اُنکو ہری جھنڈی دکھادی۔ انتخابات کے بعد صوبہ
خیبرپختوخوا میں حکومت بنانے کےلیے عمران خان کو جماعت اسلامی کی ضرورت پڑی
تو جماعت اسلامی حاضر تھی، لیکن جماعت اسلامی پاکستان تحریک انصاف کی صرف
حکومتی اتحادی رہی اور ہے۔حالیہ سیاسی بحران میں جماعت اسلامی کے امیرسراج
الحق بھی ایک ثالث کے طور پر نظر آئے، یہ وہی سراج الحق ہیں جنکو اسی نواز
شریف حکومت کے ایک وزیر عابد شیر علی نے چند ماہ پہلے دماغی مریض قرار دیا
تھا، لیکن اُسی دماغی مریض سے نواز شریف درخواست کرتے نظر آئے کہ وہ عمران
خان سے اُنکی حکومت بچانے میں مدد کرئے، جبکہ اس لوٹ مار کے سسٹم کو بچانے
کےلیے 37 سال بعد پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف زرداری جماعت اسلامی کے
ہیڈکواٹر منصورہ پہنچ جاتے ہیں، سسٹم بچانے کا فاہدہ جماعت اسلامی کو بھی
ہے، صوبہ خیبرپختوخوا کی حکومت میں حصہ دار تو جماعت اسلامی بھی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی اتحاد گذشتہ پندرہ دن سے اسلام آباد
میں دھرنے دیئے ہوئے ہیں اور وہ اپنے مطالبات میں اسقدر آگے چلے گے ہیں اور
اپنے دھرنوں کے شرکا کو اسقدرحکومت بیزار کردیا ہے کہ اُنکو ابھی اشارہ ملے
تو ابھی اسلام آباد کی اینٹ سے اینٹ بجادیں، مگر عمران خان اور طاہر
القادری دونوں جانتے ہیں کہ یہ اُن کی سیاسی خودکشی ہوگی، دونوں کے سیاسی
پروگرام بہت اچھے ہیں لیکن اُن پر عمل کرانے کا طریقہ کار بہت غلط ہے،
گذشتہ پندرہ روز سے دونوں رہنمااگلے 48 اور اب 24 گھنٹے میں تبدیلی اور
انقلاب آنے کا کہہ کر دھرنے کے شرکا کو روک رہے ہیں، اگلے 48 گھنٹے میں یا
اتوار کی شام تک اگر کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا تو بہت ممکن ہے کہ دھرنے کے
شرکا کی تعداد کم ہونے لگے جو حکومت کا اصل مقصد ہے، اس لیے دونوں رہنماوں
کو اس کا لازمی حل تلاش کرنا ہے، حکومت کی پہلے دن سے یہ کوشش ہے کہ یہ
دھرنے خود ختم ہوجایں کیونکہ سانحہ ماڈل ٹاون کی مشکلات بھی حکومت کے گلے
میں پڑی ہوئی ہیں۔ حکمران آئین کا استمال اپنے مفاد میں فورا کرتے ہیں جیسے
آئین کی شق 245 کو اسلام آباد میں استمال کیا ہے اور فوج کو لاکر کھڑا
کردیا ہے، حالانکہ اس آئینی شق کے استمال کی ایک عرصے سے کراچی میں ضرورت
ہے۔
جمرات 28 اگست کو وزیراعظم نواز شریف نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل
شریف سے موجودہ سیاسی تعطل کے حل کے لئے "سہولت" کا کردار ادا کرنے کو کہا
تو آرمی چیف نے جماعت اسلامی پاکستان کے امیرسراج الحق کے ذریعے عمران خان
اور گورنر سندھ ڈاکٹرعشرت العباد کے ذریعے طاہرالقادری کو پیغام بھیجا۔ اس
پیغام پر عمران خان اور طاہر القادری جمعرات کو نصف شب کے بعد آرمی ہاؤس
راولپنڈی گئے جہاں آرمی چیف سے اُن کی تفصیلی ملاقات ہوئی۔ اب حکومت
"سہولت" کا مطلب کچھ اور نکال رہی ہے جبکہ حکومت مخالفین اسکا مطلب اپنے
حساب سے نکال رہے ہیں، کل کیا ہوگا، پرسوں کیا ہوگا کسی کو معلوم نہیں۔
نواز شریف جوپانچ سال تک پاکستان کی سب زیادہ بدعنوان پیپلز پارٹی کی حکومت
اور اسکے بدعنوان سربراہ آصف زرداری کی حمایت کرتے رہےاُنکو پہلی مرتبہ
پاکستان میں فرینڈلی اپوزیشن کا خطاب حاصل ہوا، شیر کے نشان پر ایک معاہدئے
یا دھاندلی سے اب سے چودہ ماہ پہلے تیسری مرتبہ ملک کے وزیراعظم بنے تھے۔
پانچ سال اقتدار میں رہنے کے خواہش مندوزیراعظم جسکو اسلام آباد میں گذشتہ
14 دن سے دو سیاسی جماعتوں کے دھرنوں نے بے بس کیا ہوا ہے، جسکو پارلیمینٹ
میں پاکستان تحریک انصاف کے علاوہ تمام چھوٹی بڑی جماعتوں حمایت حاصل ہے،
ایک ناکام حکومت کے ذمیدار ہیں، وہ آج سیاسی سوجھ بوجھ سےاسقدر کنگال ہوگے
ہیں کہ فوج کو سیاسی امور میں مداخلت کی درخواست کرڈالی۔
آپکو یہ تو معلوم ہوگا کہ پاکستان میں لیفٹ اور رائٹ کی سیاست ضیاالحق کے
زمانے سے ختم ہوچکی ہے، اب پاکستان میں لیفٹ اور رائٹ کے سیاستداں آثار
قدیمہ کا حصہ بن چکے ہیں، اب مفادات کی سیاست ہوتی ہے، زرداری اور سراج
الحق کے مشترکہ مفادات ہیں اسلیے لیفٹ اور رائٹ یعنی اصولوں کو چھوڑ
کردونوں ایک ہی مقصد کےلیے سیاست کررہے ہیں۔ دوسری طرف " لیفٹ رائٹ لیفٹ،
لیفٹ رائٹ لیفٹ" کی آوازیں سنائی دےرہی ہیں۔ فوج لاکھ تردید کرئے لیکن اس
کڑوئے سچ کا کیا کریں کہ پاکستانی تاریخ بتاتی ہے کہ "اندھا کیا چاہے دو
آنکھیں"۔ نواز شریف آپنے تیسری مرتبہ جمہوریت کو قتل کیا ہے۔ جنرل راحیل
شریف ہم پاکستانی اپنی فوج سے بہت عقیدت رکھتے ہیں اور آپسے تو ایک اور بھی
رشتہ ہے کہ آپ شہیدوں کے گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ لیکن ہم پاکستانی عوام
جو آپسے عقیدت کے ساتھ ساتھ جمہوریت کو بھی بہت چاہتے ہیں، آجکل بہت پریشان
ہیں کیونکہ پاکستانی سیاست دانوں نے جمہوریت کو نزع کے عالم میں پہنچا دیا
ہے، جمہوریت کا چراغ کسی وقت بھی بجھ سکتا ہے، لازمی بات ہے اُسکی آخری
رسموعات آپ ہی کرینگے، اس لیے آپ سے صرف ایک درخواست ہے کہ اس بات کا ضرور
خیال رکھیں کہ یہ "جمہوریت کا جنازہ ہے، ذرا دھوم سے نکلے"، کیو نکہ ہمارئے
سیاستدان آزادی کے اڑسٹھ سال بعد بھی بالغ نہیں ہوئے ہیں۔ |