کراچی میں رہناہے، جئے ڈاکو کہنا ہے

ایک عشرہ قبل کراچی کو روشنیوں کاشہر کہاجاتاتھا، اب یہاں اندھیروں کابسیراہے۔ کئی قسم کے اندھیرے ہیں۔ قتل و غارت گری سے ماتم کدہ بنے گھروں میں رقص کرتااندھیرا، چوری وڈکیتی کی واردات میں لٹے پٹے مکینوں کے چہروں پر براجماں حرماں نصیبی کااندھیرا، بھتہ مافیاز کی پرچی سے تاجروں اور صنعت کاروں کے دلوں میں پیدا ہونے والے خوف وہراس کااندھیرا اور لوڈشیڈنگ کاگھپ اندھیرا توہے ہی۔آپ اس شہر خراباتی کے رہائشی ہیں اور ابھی تک آپ کے ساتھ کوئی انہونی نہیں ہوئی۔آپ نے کسی کو قتل ہوتے نہیں دیکھا، آپ کاکوئی رشتہ دار دہشت گردوں کے ہتھے نہیں چڑھا، آپ سے موبائل، گاڑی یانقدی نہیں چھینی گئی، آپ کے گھر، دکان یافیکٹری میں بھتے کی پرچی نہیں پھینکی گئی تو بلاشبہ آپ کراچی نہیں کسی خلائی بستی کے باسی ہیں یاآپ انسان نہیں انسان کے بھیس میں جن یافرشتے ، خیرمرئی مخلوق ہیں جودکھائی نہیں دیتے۔

ایک دن نماز پڑھ کر مسجدسے باہر نکلا اور ایک شخص کو اس حال میں کھڑا پایا کہ اس کے چہرے پر سراسیمگی اور پریشانی کے آثار نمایاں تھے ، پوچھنے پربتایاکہ غریب ڈرائیورہوں، میرے پاس موبائل نہیں تھا، دو دن پہلے ہی سیٹھ نے یہ کہ کردیاکہ ہم نے آپ سے رابطہ کرناہوتاہے، ابھی ان کا فون آیا، جیب سے نکال کربات کرنے لگا، اتنے میں موٹر سائیکل پر سوار دو نوجوان تیزی سے آئے اور موبائل چھین کر اڑن چھو ہوگئے۔ برادر کبیر بڑے دل گردے کے مالک ہیں،یہی وجہ ہے کہ ڈاکوؤں اور چوروں کی خاطرتواضع کا شرف تین چار بار اٹھاچکے ہیں، موبائل فون کے بڑے سیٹ ان کے نام کرچکے ہیں۔والد صاحب سے ایک بڑی رقم اینٹھ چکے ہیں۔

عابدی کے ساتھ بھی دو واقعات پیش آئے ہیں لیکن بخل سے کام لیتے ہوئے دونوں مرتبہ ڈاکوؤں کو چکمہ دے گیا۔ایک مرتبہ منگھوپیر سے گھروالوں کے ساتھ آرہا تھا، گھر والے آگے رکشہ میں، پیچھے عابدی آہستہ آہستہ رکشہ کے ساتھ آرہاتھا،موٹر سائیکل پر سوار دو نوجوان عابدی سے بھی کم رفتار میں موٹر سائیکل چلارہے تھے،خوشی کے ساتھ حیرت بھی ہوئی ، پہلی مرتبہ نوجوانوں کواتنی شرافت سے موٹر سائیکل چلاتے ہوئے دیکھا، عابدی داد دینے کی نیت سے ان کے قریب جانا چاہتاتھاکہ اتنے میں سنسان جگہ آئی، گاڑیاں آگے نکل گئیں،اب عابدی تھا اوروہ نوجوان۔ انہوں نے عابدی کو موٹر سائیکل سے ٹھوکرمار تے ہوئے چلاکر کہابائیک سائیڈ پہ روکو، عابدی نے بھانپ لیاکہ اب خطرے کا جرس بجا ہے ۔ موٹرسائیکل کی رفتار تیز کر کے آگے گاڑیوں کے درمیان گھس کر جان بچائی۔

دوسری مرتبہ کا واقعہ ہے ، عابدی کام ختم کرکے گھرجارہاتھا،موٹر سائیکل بھائی لے گئے تھے، عابدی نے سوچااگر D.1مزدہ میں جایاجائے تو وقت زیادہ لگے گا، ایک توڈی ون آنے میں دس منٹ لے گی، رات کا وقت ہے، سی این جی بھروائے گی،پھر آخری اسٹاپ قریب ہونے کی وجہ سے خراماں خراماں جائے گی،مزدہ میں جانے سے بہتر ہے پیدل ہی گھر کا رخ کیاجائے، آدھے گھنٹے کاسفر ہی توہے۔ یہ سوچتے ہوئے عابدی پیدل گھر کی طرف روانہ ہوگیا، نصف سفر طے کرنے پر ایک سنسان گلی آئی،گلی کودونوں اطراف سے درختوں نے گھیر رکھاہے، دن کے وقت دیکھنے کاسماں ہوتاہے اور رات کولوڈشیڈنگ کاعفریت پنجے گاڑے ہوتاہے، گھپ اندھیرے کے سبب حقیقی معنوں میں ہاتھ کو ہاتھ سجائے نہیں دیتا۔ عابدی گلی کے نکڑ پر آکر ٹھہرگیا، سوچاچھوڑکر دوسراراستہ اختیار کیاجائے، دوسرا راستہ طویل ہوجاتا، دیگر دعائیں اور آیۃ الکرسی پڑھتے ہوئے اندھیرے میں کھودگیا،جیب سے موبائل نکال کر جوں ہی گھر میسج کرنے لگاکہ میں پہنچنے والاہوں کھاناتیار کیاجائے، اچانکدیوار سے چھلانگ مار کر اسلحہ بردار سامنے آیا’’موبائل میرے حوالہ کردو، ہوشیاری دکھانے کی کوشش کی تو گولی ماردوں گا‘‘عابدی نے بغیر کسی توقف کے اس کے پستول ولا ہاتھ پکڑ کر مروڑدیا’’ شریف اور غریب شہری کولوٹتے ہوئیشرم نہیں آتی؟‘‘عابدی کی ڈانٹ سن کر اس نے جیسے تیسے اپنا ہاتھ چھڑایااور اندھیرے میں غائب ہوگیا۔

آپ سوچ رہے ہوں گے عابدی بڑا بہادر نکلا، غنڈے کو ڈراکر بھگادیا۔ بعض قارئین نصیحت اور سمجھانے کے موڈ میں ہوں گے کہ آئندہ کسی ڈاکو کے ساتھ مت بھڑنا، یہ ظالم تو بے دھڑک گولی چلالیتے ہیں۔بھائی جان! حقیقت یہ ہے کہ آیۃ الکرسی اودیگر دعاؤں کی برکت تھی کہ پستول کے بلوڈ مارنے سے پلاسٹک کی آواز نے نقلی پستول کی اصلیت ظاہر کردی تھی۔ دوسری بات یہ ہے کہ عابدی نے سامنے والے کی طاقت کا اندازہ لگالیا، وہ آسانی سے قابو میں آنے والاتھا۔ آپ بے فکر رہیں عابدی کو اتنابہادر یا بیوقوف نا سمجھیں۔
کراچی میں امن و امان کی فضاقائم کرنے کے لیے نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری کے فارمولے پر عمل کیاجاتاہے۔ یہ فارمولہ سابق وزیر داخلہ عبدالرحمن ملک کاعطاکردہ ہے۔ حالات ٹھیک نہیں ہورہے، موبائل سروس بند کردو، ہوجائیں گے۔ جب دہشت گردوں کا آپس میں رابطہ ہی نہیں ہوگاتو تخریبی کارروائی کیوں کر کرسکیں گے۔ دہشت گرد موٹر سائیکل پرڈبل سوار آکر فرار ہوتے ہیں۔ نوپروبلم، ڈبل سواری پر پابندی لگادیں۔ کسی جگہ زیادہ واردات ہورہی ہوں، یاخطرہ بڑھ جائے تو گھبرانے کی ضرورت نہیں، اس جگہکودیوار لگاکر ایک طرف سے بند کردیں، مسئلہ حل۔ اب تو پولیس اور رینجرز کو اپنی جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں، اپنے ہیڈ کوارٹرکوچاروں اطراف سے سیل کیاہوتاہے۔

یہاں ہر دوسرا شخص کسی خطرناک تنظیم ، جماعت یاگینگ سے وابستہ ہے اور جو نہیں ہے وہ وابستگی کی فکر میں غلطاں ضرور ہوگا۔ یہاں مقبول کاروبار پرچی سسٹم ہے، مدرسوں اور اسکولوں تک میں بھتہ کی پرچیاں پھینکی جاتی ہیں۔ دہشت گرد جماعتوں کی دیکھادیکھی عام لوگوں نے میں بھی مہنگائی سے تنگ آکر یہ دھندہ اپنالیاہے۔ درو دیوار پر اپنے اپنے قائد کے نعرے لکھے ہوتے ہیں’’کراچی میں رہناہے، جئے فلاں کہناہے‘‘۔ اگر اس نوع کی جماعتیں مل بیٹھ کرکسی لفظ پر اتفاق کرلیں جو ان کے تمام قائدین پر صادق آئے تو وہ ہوگا’’کراچی میں رہناہے، جئے ڈاکو کہناہے‘‘۔

Ibrahim Hussain Abdi
About the Author: Ibrahim Hussain Abdi Read More Articles by Ibrahim Hussain Abdi: 60 Articles with 63988 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.