دس سے زائددن گزر گئے میڈیا پر یہ جملہ سنتے سنتے کہ بہت
بڑی تبدیلی آنے والی ہے چوبیسوں گھنٹے لیڈر کسی بھی وقت نمودار ہوکر
تبدیلی کا نعرہ لگاتے نظر آتے ہیں ،اب تو حال یہ ہے کہ اداروں ،ہوٹلوں،فٹ
پاتھوں،گلی محلوں،یہاں تک کہ تفریحی مقامات پر بھی لوگ تفریحی کی غرض سے کم
اور سیاسی باتیں کرنے زیادہ آنے لگے ہیں۔۔کوئی آئینی بات کرتا ہے تو کوئی
غیر آئینی ،کوئی خمینی طرز کے انقلاب کی تو کوئی آزاد ریاست کے قیام کی
،کہیں ان احتجاج اور دھرنوں کو صیہونی اورامریکی سازش قرار دیا جارہا ہے تو
کہیں اسٹیبلشمنٹ کی چال ،کوئی اچھا کہتا ہے تو کوئی برائی کرتے نہیں
تھکتا،کوئی کہتا ہے کہ جیسی کرنی ویسی بھرنی تو کوئی اسے وقت کی ضرورت قرار
دے رہا ہے اس سارے منظر نامے میں ایک بات تو یقینی ہے کہ کچھ تو بڑا ہونے
کو ہے چاہے وہ قانونی طریقے سے ہو یا غیر قانونی۔۔
تبدیلی اور انقلاب کیلئے اس نہ ختم ہونے والے احتجاج کا سلسلہ اب دوسرے بڑے
شہروں میں بھی نظر آںے لگا ہے اور شام ہوتے ہی انقلاب اور آزادی کے حصول
کیلئے نکلنے والے کارکنان کی ایک بڑی تعداد ،بڑے شہروں کی کسی بڑی سڑک کے
کسی بڑے چوک یا کسی بڑی جگہ یا تفریح مقام پر دھرنا دیتی نظر آتی ہے ایک
طرف عمرانی قافلے میں عطا اللہ عیسیٰ خیلوی کے گانے‘‘آئے گا عمران ساڈی
جان’’کی گونج سنائی دیتی ہے تو دوسری طرف جیوے قادری کے فلک شگاف نعرے سننے
کو ملتے ہیں۔ دونوں پارٹیوں کے راستے الگ صحیح لیکن منزل ایک نظر آتی ہے
دونوں جماعتوں کی جانب سے حکومت کے خلاف احتجاج کا مقصد ایک ہے اور وہ ہے
کسی بھی صورت حکومت کا تختہ الٹنا لیکن دونوں جانب طریقے مختلف ہیں ایک
جانب دھرنے میں شریک کارکنوں کا جوش بڑھانے کیلئے بات بات پر ابرار الحق
اور عیسیٰ خیلوی کے گانے چلائے جاتے ہیں تو دوسری جانب قوالی اور دھمال کا
اہتمام کیا جاتا ہے۔
گھروں میں بیٹھے لاکھوں لوگ بھی ان دھرنوں میں کچھ نیا ہوتا دیکھنے کیلئے
ٹی وی پر نظریں جمائے انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں کہ شاید ابھی کچھ ہوجائے ۔
میڈیا ادارے بھی دوسرے تمام کام چھوڑ کر ان ہی دھرنوں کی خوب کوریج پر زور
دیتے نظر آرہے ہیں اور ان کی کوریج کیلئے اڑنے والے کیمروں کا بھی استعمال
کیا جارہا ہے ،اور طرح طرح کی رپورٹس بنائی جارہی ہیں جن میں پردے والی
لڑکی،ہم شکل لیڈر،راجہ بابو،ملنگ بابا جیسے فلمی کردار جنہوں نے کبھی سوچا
بھی نہ ہوگا کہ انہیں کوئی پہچانے گا آج وہ ان دھرنوں کی جان بن گئے ہیں۔
دھرنوں میں شریک صحافی جو کارکنوں کی کوریج پر متعین ہیں ان بے چاروں کے
پاس سوالوں کا ذخیرہ بھی ختم ہوچکا ہے اور اب کوئی نیا سوال بھی نہیں رہا
جو وہ پوچھ سکیں۔سوائے اس کے کہ آُپ کب تک یہاں بیٹھے رہیں گے اور آپ کو
کیسا پاکستان چاہیے۔اور کارکنوں کا وہی جواب کہ جب تک قائد نہیں کہتے یا
انقلاب نہیں آتا ہم یہیں بیٹھے رہیں گے اورہمیں اب نیا پاکستان چاہیے۔۔
اتفاق سے کراچی میں بھی سی ویو اور پوش علاقوں میں نئے پاکستان کے حصول
کیلئے پارٹی کارکنان دن ڈھلتے ہی دھرنوں کیلئے نکل آتے ہیں اور ان دھرنوں
میں شمولیت کیلئے شہر بھر کے مختلف علاقوں سے لوگوں کی بڑی تعداد شریک ہوتی
ہے۔ چند روز قبل دوستوں کی محفل میں کسی نے ان دھرنوں میں شرکت کی دعوت دی
اور سی ویو چلنے کو کہا لیکن دفتری مصروفیات کے باعث تمام نے معذرت کرلی۔
ابھی انقلاب اور آزادی کی باتیں چل ہی رہیں تھیں کہ باتوں باتوں میں ایک
نئی بحث چھڑ گئی کہ ہونا تو یہ چاہیے تھاکہ دونوں مرکزی دھرنے اسلام آباد
سے کراچی منتقل کردئیے جائیں اور اس کے لئے لیاری کا انتخاب کیا جائے تاکہ
جن لوگوں کے دل میں لیاری کے حوالے سے ڈرو خوف ہے وہ بھی دور ہوجائے اور
لیاری میں بھی کچھ عرصے کیلئے امن کا بول بالا ہو اسی بحث کے دوران مدعو
کرنے والے صاحب کا کہنا تھا کہ یہ انقلاب اور نیا پاکستان سب کیلئے ہوگا
اور مقصد کی تکمیل پر اس کے ثمرات اور فوائد پورے ملک میں نظر آنے لگیں گے
اور اس سے لیاری بھی مستفید ہوگا۔ محفل میں موجود شرکا نے جب سوال کیا کہ
نیا پاکستان کیسا ہونا چاہیے یاآپ کس طرح کا پاکستان چاہتے ہیں تو جوابات
کی بھرمار ہوگئی کسی نے کہا کہ ایک نیا پاکستان چاہئے،تو کوئی کہنے لگا
ایسی جگہ جہاں رشوت کا نام نہ ہو،جہاں چوری،قتل و غارت گری،لوٹ مار،حق نہ
سلب کئے جاتے ہوں ،جہاں مزدور کو برابری کی بنیاد پر اس کا حق مل سکے۔جہاں
نوکری کیلئے دھکے نہ کھانے پڑیں۔جہاں تعلیم مفت اور معیاری ہو جہاں یہ ہو
جہاں وہ ہو۔نہ جانے کیا ہو وغیرہ وغیرہ ۔
سب کی باتیں ختم ہوئیں توجو آخری جواب آیا وہ یہ تھا کہ مجھے لیاری جیسا
پاکستان چاہیے۔ |