میرے گھر کی تباہی ہے نگہبانوں سے وابستہ

الیکشن 2013ہوئے سوا سال بیت گئے، تبدیلی کی بات ہوتی رہی ، اب پتہ نہیں حقیقت میں عوام نے دو تہائی اکثریت کی تبدیلی شریف برادران کو دی یا خان صاحب کو کوئی لے ڈوبا۔ الزامات در الزامات کا سلسلہ سوا سال سے جاری تھا کہ آزادی مارچ اور انقلاب مارچ کا میدان سج گیا جو تاحال جاری ہے۔ نہ یہ پیچھے ہٹنے کو تیار ہیں اور نہ ہی حکمران آگے بڑھنے کو ! پھر الیکشن کمیشن کے ایک قابلِ احترام ریٹائر ہونے والے حضرت نے یہ بیان داغ کر انقلابیوں اور آزادی مارچ والوں کو بڑی خوشخبری دے ڈالی کہ الیکشن میں پینتیس نہیں سینکڑوں پنکچر لگے ہوئے ہیں، اب ظاہر ہے کہ اس بیان کے بعد حکمران جماعت کی محفل میں ایک کھلبلی تو مچی ہوئی ہوگی، اوپر سے عدالت نے بھی اپنا فیصلہ سنا دیا کہ خادمِ اعلیٰ کے خلاف بھی سانحہ ماڈل ٹاؤن کا ایف آئی آر درج کیا جائے۔

قطعہ نظر ان تمام حقیقت سے آشنا ہونے کے بعد بھی اگر حکمران جماعت کی کارکردگی پر نظر ڈالی جائے تو چاہے جیسے بھی سہی دو تہائی اکثریت شریف برادران کو ملی، مطلب شریف جی! آپ نے کمال کر دیا اور آپ کی آندھی تو واقعی بڑی کامیابی میں تبدیل ہوگئی جس نے بڑے سے بڑے قد آور لیڈروں کے مستقبل پر گہن لگا دیا اور واقعی ایسی فتح ہوئی کہ جس کا شاید آپ کی پارٹی کو بھی وہم و گمان نہیں تھا اور بڑے سے بڑا سیاسی پنڈت بھی اس فتح سے انگشت بد نداں رہ گیا۔ کیا آپ کی پارٹی نے جیت کے جشن کے پیچھے تھوڑی سی بھی سنجیدگی سے یہ غور کیا کہ اس جیت کے پسِ پشت کیا اسباب و عوامل تھے اور آپ کی پارٹی کو آخر عوام کا اتنا زبردست مینڈیٹ کیوں ملا؟ کیوں لوگوں نے یا خفیہ طاقتوں نے برسوں سے حکومت پر بُرا جمان پارٹی کو عرش سے فرش پر گرانے کے ساتھ کہیں کا بھی نہیں چھوڑا ، اس کے پسِ پردہ تو کچھ عوامل و اسباب ضرور پوشیدہ رہے ہوں گے جس کی بنا پر بقول آپ کے عوام نے اتنی زبردست تبدیلی کی اور سابق حکمرانوں کو فرنٹ فٹ سے بیک فٹ پر لاکر کھڑا کر دیا۔ اس کے پیچھے جو اصل اسباب تھے وہ تھی جان لیوا اور روز روز کی کمر توڑ مہنگائی، روزگار کی عدم فراہمی، غربت میں اضافہ، اشیائے خورد نوش کی دستیابی میں قلت، ترقی کے مواقع کا پیدا نہ ہونا ، تعلیم یافتہ نوجوانوں کا بھی بے روزگارد در در کی ٹھوکریں کھانا، اور لوڈ شیڈنگ کا عذاب ختم کرنا، مگر سوا سال میں ان تمام بنیادی الجھنوں کا خاتمہ عمل میں لایا گیا ، شاید نہیں؟ ہاں یہ ضرور ہوا کہ وزرا کی ملکیت میں دن دوگنی رات چوگنی ترقی، حق داروں کو اس کا حق نہ ملنا، کرپشن، بدعنوانی، گھپلہ جس نے عوام کی ناک میں دم کر دیا تھا اور ملکی عوام کو اقتدار میں ایک بہت ہی بڑے اپ سیٹ کے لئے مجبور کر دیا تھا اس میں بے تحاشہ اضافہ ہوگیا۔ مبشر لقمان صاحب کے ایک پروگرام میں پنجاب میں ایک وزیر کو رشوت لینے کے طریقے کے ساتھ دکھایا گیا ہے، جس کی وڈیو فیس بک پر بھی موجود ہے۔

مذکورہ اسباب سے نجات پانے کے لئے اور امن و چین کی فضاء میں سانسیں لینے کے لئے ملکی عوام نے تبدیلی کی مگر آپ نے عوام کی تبدیلی کو پسِ پشت ڈال دیا اور اوپر درج کئے گئے کوئی بھی مرض کا ٹھیک طرح سے علاج نہیں کیا۔ ان ہی تمام تر خامیوں کی وجہ سے یہ انقلاب اور آزادی مارچ نے اپنا سفر شروع کیا ، اور اسی وجہ سے آج ملک کے دارالحکومت میں ایک جمِ غفیر جمع ہے ، اگر انصاف فراہم ہوتا رہتا اور بنیادی خرابی دور کر لی جاتی تو بات اس نہج تک نہیں جاتی، صرف زبانی بلند بانگ دعوے اور پریس کانفرنس سے اب عوام کا کچھ حاصل نہیں ہونے والا ہے اس لئے آپ سے درخواست ہے کہ پورے پاکستان میں عملی اقدامات کرنے کا باقاعدہ انتظام کیا جائے ۔ اور ان تمام خرابیوں کو فی الفور دور کرنے کا راستہ اختیار کیا جائے۔ ملک میں جمہوریت رہے یہ ہر ایک کی خواہش ہے مگر جب جمہوریت میں انصاف کی فراہمی ، بنیادی مسائل کا حل نہ تو ایسی جمہوریت کا کیا فائدہ۔

آج ملک کا کیا حال ہے آپ سب جانتے ہیں ، کہ ہمارا یہ عظیم وطن آج قرض میں ڈوب گیا ہے، کرپشن عام ہوگئی ہے، نوکریاں اوّل تو ملتی نہیں اور ملتی ہیں تو رشوت پر ملتی ہیں۔ حکمران اپنی تجوریاں بھرتے رہتے ہیں اور عوام کو کنگال کر دیا ہے۔ عوام روٹی کو ترس گئے ہیں، سارے الزام برسراقتدار لوگوں پر تھوپ دیئے جاتے ہیں پھر دوسرا آتا ہے اور وہ اپنی تجوریاں بھرنا شروع کر دیتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان کو ووٹ کس نے دیئے ؟ آپ سب نے، ہم نے، پھر رونا کیسا، احتجاج کیسا، دھرنے کیسے، روڈ بلاک ، ہرتالیں کیسی، جلاؤ گھیراؤ کیوں؟ اپنے مفاد کی خاطر اپنوں کو ہی کیوں مار رہے ہیں؟ اﷲ تبارک و تعالیٰ نے تو فرما دیا ہے کہ جس طرح کی قوم ہوگی ویسے ہی حکمران ہوں گے۔ ہم دوسروں کی خامیاں ڈھونڈتے پھرتے ہیں، اپنے من میں جھانک کر دیکھا ہی نہیں۔ چور تو اپنے من میں چھپا ہے اور ڈھنڈورا شہر بھر میں کیوں پیٹتے پھرتے ہیں۔ محتاجی کا کشکول تو حکمرانوں نے خود گلے میں ڈال لیا ہے، مجبوریاں انسان کو ناکوں چنے چبوا دیتی ہیں، مانتے ہیں بات ٹھیک ہے مگر کبھی یہ سوچا ہے کہ ان مجبوریوں کے پیچھے کیا محرکات ہیں۔ آج انسان ہی انسان کے آگے ہاتھ پھیلائے کھڑا ہے۔ یہی ہاتھ اگر خدا تعالیٰ کے آگے دعا کے لئے اٹھے ہوتے تو مجبوریاں جنم ہی نہ لیتی۔ جس نے خدا کو بھلا دیا، اسے کچھ یاد نہیں رہتا، وہ جنت کا راستہ بھول گیا۔ زمانہ عبرت نشان بنا دیتا ہے۔ بھٹکنا اُن کا مقدر ، رونا ان کا نصیب بن جاتا ہے۔ تب بیماریاں اسے اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں۔ رب تعالیٰ تو بیماریاں، پریشانیاں، مصیبتیں، آفات دے کر انسان کو آزماتا ہے، یوں سمجھیں جھٹکے لگواتا ہے کہ شاید بھٹکا ہوا انسان سنبھل جائے اور میری طرف لوٹ آئے، لیکن جن کے دلوں پر رشوت، بد دیانتی ، کرپشن کے قفل لگے ہوں وہ کیا سنبھلیں گے۔ جن کے من مردہ ہو چکے ہوں، دل زنگ آلود اور زبان ناپاک ہوگئی ہو، آنکھیں رکھتے ہوئے بھی اندھے ہو جائیں، سب کچھ سمجھتے ہوئے بھی انجان بنے رہیں۔ ان کے لئے تو عذاب ہی ہے۔ مجبوریاں ان کا مقدر ہیں۔ فحاشی، عیاشی کا دل دادہ انسان (جس میں حکمران بھی شاید شامل ہوں، کیوں کہ جمشید دستی صاحب نے بھی کچھ عرصہ پہلے بڑے ثبوت کے ساتھ تمام حالات و واقعات بتائے تھے) اپنی عزتوں کا پاس نہیں رکھ سکتا۔ اﷲ تعالیٰ زمانے میں اسے سزا دے دیتے ہیں۔ رب تعالیٰ نے ہمیں کیا کچھ نہیں دیا، جنت نظر وطن ، اور اس جنت کو دیکھنے کے لئے آنکھیں عطا کیں۔ عقل دی جس کے ذریعے میں ہم پوری دنیا پر راج کر سکتے ہیں مگر ہمارے اعمال اس طرح کے نہیں ۔

اب بھی وقت ہے حکمرانوں کے پاس بھی، عوام کے پاس بھی ، لیڈران کے پاس بھی، کہ وہ خدا سے معافی کے طلب گار ہوکر اپنے ملک اور اپنے ملک کے عوام کو خوشیاں فراہم کریں، بنیادی مسائل سے نجات دلائیں، اپنی تجوریاں بھرنے سے باز آجائیں کیونکہ یہ آپ کو بھی معلوم ہے کہ موت برحق ہے ، اور ہر ذی شعور کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے، اور جب موت آئے گی تو آپ اپنے ساتھ سوائے کفن کے کچھ اور ساتھ نہیں لے جا سکتے ، اور یہ بات بھی اٹل حقیقت ہے کہ ’’سکندر جب گیا دنیا سے تو دونوں ہاتھ خالی تھے‘‘۔ اس لئے آپ سبھی سے التجا ہے کہ خدارا راہِ راست کو اپنائیں، عوام کا دکھ درد بانٹیں، ورنہ ایسی حکومت کس کام کی جس میں صرف بیان بازی اور پریس کانفرنس ہی ہو ، اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں؟

Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui
About the Author: Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui Read More Articles by Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui: 372 Articles with 368447 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.