ایک بہت مشہور فقرہ جو ہماری سیاست میں ہر خاص و عام کی
زبان پر پانی کی روانی جیسا بہتا نظرآتا ہے وہ ہے ’جمہوریت کے لیے قربانیاں‘۔
تقریباً ہر سیاست دان یہی راگ الاپتا دکھأی دے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ عوام
میں بھی یہ الفاظ بڑی اہمیت رکھتے ہیں جو کہ اپنے لیڈران کی زبانی یہ باتیں
سن سن کر خاصے مانوس ہو چکے ہیں۔ کل خواجہ آصف صاحب کو ٹیلیویژن پر یہی
گفتگو کرتے سنا کہ عمران خان نے جمہوریت کے لیے کیا قربانیاں دی ہیں اور
کتنی بار جیل گۓ ہیں۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر رہا کہ کیا یہی معیار ہےسیاست
میں آنے کا اور اگرآپ جیل چلے جاتےہیں، ’قربانیاں‘ دے دیتے ہیں توکیا پھر
کبھی دوبارہ طاقت میں آنے سے آپ کویہ لأسنس مل جاتا ہے کہ آپ جو مرضی کریں۔
پھر چاہے وہ حالات کوانتہأی بُرے طریقے سے سنبھالنا ہو، پولیس کوغلط
استعمال کرنا ہو، غلط استمعال ہونے والے افسران کو مراعات دینی ہوں،
استعمال نہ ہونے والوں کو نشان عبرت بنانا ہو، اقربا پروری کی بد ترین مثال
پیش کرنی ہو، یا ریاستی دہشتگردی کے بعد معصوم بننے کی اداکاری کرنی ہو اور
اپنے ہر صیح یا غلط اقدام کا دفاع کرنا ہو۔
۱۹۴۷ سے اب تک اس ملک کے ساتھ بہت سے تجربات کیے گۓ۔ کبھی یہاں فوج نے
قسمت آزمایٔ کی، کبھی سوشلٹ انقلاب لانے کی کوشس کی گیٔ، کبھی اسلامی
انقلاب کو آزمایا گیا تو کبھی جمہوریت کا ترانہ گایا گیا۔ اور آجکل ہم ایک
جمہوری ڈکٹیٹرشپ کے ساۓ تلے زندگیاں گزار رہے ہیں جہاں جمہور نے ایک
خاندان کو حکومت کرنے کیلے چُنا ہے۔ اورحکمران مستقبل میں حکومت کرنے کےلیے
اپنی اولادوں کو ایسے تربیت دے رہے ہیں جیسے بلی اپنے بچوں کو شکار کرنا
سکھاتی ہے۔ ان سارے تجربات کے اثرات بدرجہ اتم ہمارے ملک میں موجود ہیں جن
کے نتایج یہ ہیں کہ ہم مختلف خیالات، نظریات اور اُن کے اثرات کا ایک ایسا
مجموعہ بن چُکے ہیں جس کے بارے میں درست طور پر کہا جا سکتا ہے کہ ہم نہ
تین میں ہیں اور نہ تیرہ میں۔ بڑے بڑے دانشوروں کے خیال کے مطابق یہ جموریت
کا إرتقأی سفر ہے اور ہر قوم کو اس سفر سے گزرنا پڑتا ہے جو کیٔ سو سال پر
محیط ہوتا ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے پاس دُنیا میں ایسی مثالیں
نہیں ہیں جہاں قومیں اس ’إرتقأی سفر‘ کے بغیر ترقی کی راہ پر گامزن ہو
چُکی ہیں؟ یقینن اس کا جواب ہاں میں ہے کہ واقعی اس کرہ ارض پر ایسی اقوام
موجود ہیں جنہوں نےایک بہترایڈمینسٹریشن کی موجودگی میں انسانی معاشرے
کوایسی راہوں پر استوار کیا جس کی بدولت آج اُن قوموں کا نام کسی شمار
قطارمیں ہوتا ہے۔ اس فہرست میں چایٔنا، میکسیکو، برازیل، انڈونیشیا،
ملایٔشیا، تھای لینڈ، ترکی اور انڈیا شامل ہیں۔ ان ممالک کو این ۔ آٌٔی۔ سی
یعنی نیولی انڈسڑیلازٔڈ کنڑیز کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ ان ممالک کی
ترکی کی وجوہات میں سب سے اہم وجہ جو بیان کی گیٔ ہے وہ مضبوط سیاسی لیڈرشپ
ہے جس نے ذرعی معیشت کو صنعتی معیشت میں بدلا اور شخصی آزادی اور انسانی
حقوق کو بنیاد بنا کرترقی کی سیڑہی پر قدم رکھا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ممالک
غربت، بے روزگاری اورمنہگایٔ جیسے افریت سے چھٹکارہ پا چُکے ہیں لیکن اتنا
ضرور ہوا ہے کی کم از کم یہ ممالک اس راستے پے ضرور چل پڑے ہیں جس کی منزل
کامیابی ہے۔
اس کے برعکس ہم کہاں کھڑے ہیں؟ ہم ابھی بھی کچھ تاجروں کے قبضے میں ہیں جو
کہ صرف اپنا کاروبار کرنے اور ملک کو کاروبار کے لیے استعمال کرنے پر یقین
رکھتے ہیں۔ اس میں کویٔ شک نہیں کہ جمہوری نظام میں ہی آج کے انسان کی فلاح
ہے لیکن اس کے لیے جمہوریت کا ہونا بھی ضروری ہے جو کہ واقعی جمہوریت ہو۔
جہاں انسانی حقوق کی اہمیت ہو، انسان کا معیار زندگی بلند ہو، ترقی کے
یکساں مواقع حاصل ہوں اور جہاں سربراہ مملکت سرکاری دورے پر اپنا ذاتی
کاروبار نہ کرتا پھرے۔ لیکن جہاں سیاستدان اس لیے سیاست کریں تاکہ اُنہیں
کاروبار کرنے میں آسانی ہو اور جہاں اُن کے کاروبار کو تھوڑا سا کویٔ خطرہ
نظر آۓ وہ ملک کو اور عوام کو گروی رکھ کر پورا کرلیں اور منافع ملک سے
باہر رکھیں کہ کہیں اگر بھاگنا پڑ گیا تو وہ مال کام آے گا تو وہاں عوام کو
ترقی اور جمہوریت کے اس قدر سہانے خواب دکھاۓ جاتے ہیں اور ایک جھوٹ اتنی
روانی و اعتماد سے بولا جاتا ہے کے سچ لگنے لگ جاتا ہے۔ آپ خود سوچیۓ کہ
اگر ایک شخص ایک کریانہ سٹور کھول لے یا کویٔ بھی چھوٹا سا کاروبار کرلے تو
اس کے پاس کتنا وقت بچتا ہے کہ کچھ اور کرسکے۔ مگر یہ لوگ بڑی بڑی
کاپوریشنز بھی چلاتے ہیں اور ملک بھی۔ اب یا تو یہ صرف اپنا کاروبار چلاتے
ہیں یا پھر یہ کویٔ سوپر ہیومن ہیں۔ آجکل کے حالات کے مطابق سارے جمہوریت
کو بچانے چلے ہیں حالانکہ کون نہیں جانتا کہ یہ جمہوریت کو بچا رہے ہیں یا
اپنی بزنس امپاءر کو۔ وال سٹریٹ جرنل نے دعوی کیا ہے کہ وزیراعضم نے ان
حالات کی پیش نظر فوج کہ دباؤ میں بہت سے اہم اختیارات فوج کو سرنڑر کر
دیۓ ہیں۔ آپ ہی بتایں اگر جمہوریت کو بچا رہے ہوتے تویہ کرتے؟ |