سندھ کی سیاست میں رواداری، اور
شرافت کے ایک دور کا خاتمہ
غلام مصطفیٰ جتوئی کو اپنی اس سیاسی غلطی کا ہمیشہ افسوس رہا کہ بھٹو
خواتین سے مشورے کی بجائے وہ جنرل ضیا کی وزیر اعظم کے عہدے کی پیشکش کو
قبول کر لیتے تو کہیں زیادہ بہتر ہوتا۔ لیکن اس فیصلے میں بھی ان کی سیاسی
بصیرت، رواداری، ذاتی شرافت، اور بردباری کا دخل تھا۔ ضیا دور میں جلاوطنی
کے خاتمے کے بعد بے نظیر بھٹو کی یہ مجبوری تھی کہ وہ اپنے انکلز سے جان
چھڑالیں۔ غلام مصطفیٰ جتوئی، غلام مصطفیٰ کھر، اور ممتاز بھٹو، پھر کبھی
پارٹی میں داخل نہ ہوپائے۔ جتوئی جو بھٹو کو زلفی کہا کرتے تھے۔ ضیاءالحق
کے مارشلاء کے وقت سندھ کے وزیر اعلیٰ تھے۔ وہ بھٹو صاحب کی طرح سندھ سے
بلا مقابلہ منتخب ہوئے تھے۔ پیپلز پارٹی کے ساتھ ان کے اختلافات نے اس وقت
جنم لیا جب بے نظیر بھٹو اپنی والدہ کے ساتھ پیپلز پارٹی کی شریک چیئرمین
نامزد ہوئیں اور انہوں نے ’انکلز‘ سے فراغت حاصل کر کے اپنے ہم عمر لوگوں
کو پارٹی میں اہم ذمہ داریاں سونپی۔ ’ہیرو ہیرو، زیرو زیرو‘ کا نعرہ پیپلز
پارٹی میں جتوئی کی رخصتی کے وقت ہی لگایا گیا تھا۔ پیپلز پارٹی سے اپنی
رخصتی کے بعد انہیں اس بات کا بھی غم رہا۔ ان کی وزیر اعظم بننے کی خواہش
مکمل طور پر تو پوری نہیں ہو سکی لیکن اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے جب
نواز شریف کو رخصت کیا تو جتوئی تین ماہ کے لیے نگراں وزیر اعظم مقرر ہو
گئے۔ پیپلز پارٹی سے رخصتی کے بعد انہوں نے بڑی دھوم دھام کے ساتھ نیشنل
پیپلز پارٹی کی بنیا رکھی تھی۔ جتوئی انیس سو انسٹھ میں پیپلز پارٹی سے
وابستہ ہوئے اور انیس سو ستر کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر
قومی اسمبلی کا رکن بنے۔ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں غلام مصطفیٰ
سیاسی امور، بندرگاہ اور جہاز رانی، مواصلات، قدرتی وسائل، ریلوے اور ٹیلی
کمیونیکیشن کے وفاقی وزیر رہے۔ انیس سو تہتر میں غلام مصطفیٰ جتوئی کو سندھ
کے وزیراعلیٰ منتخب ہوئے۔ انہیں قیام پاکستان کے بعد سندھ کا طویل عرصے تک
وزیراعلیٰ رہنے کا اعزاز حاصل رہا۔ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء میں غلام
مصطفیٰ جتوئی نے سن تراسی میں سندھ میں چلنے والی ایم آر ڈی موومنٹ میں
انھوں نے بڑا کردا ر ادا کیا تھا۔ ان کے اشارے پر ہی سندھ کے ایک سابق وزیر
اعلیٰ میر غلام علی تالپور کے بڑے بیٹے اور سابق وزیر میر اعجاز علی تالپور
اور پاکستان کونسل مسلم لیگ کے ایک وقت میں صدر حاجی نجم الدین سریوال جیسے
کئی سیاستدانوں نے گرفتاریاں پیش کر کے تحریک کو جلا بخشی تھی۔ تحریک بحالی
جمہوریت کی پاداش میں انہیں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔ رہائی
کے بعد غلام مصطفیٰ جتوئی نے نیشنل پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی۔
انیس سو اٹھاسی میں ملک کی نو جماعتوں پر مشتمل اسلامی جموری اتحاد قائم
ہوا تو غلام مصطفیٰ جتوئی آئی جے آئی کے بانی صدر مقرر ہوئے۔ لیکن وہ
انتخاب میں اپنی آبائی سیٹ سے ہار گئے۔ جس کا انھیں ساری زندگی غم رہا۔
انیس سو اناسی کو کوٹ ادو سے ہونے والا ضمنی الیکشن جیت کر ایم این اے
منتخب ہوئے۔ یہ نشست ان کے لئے غلام مصطفی کھر نے خالی کی تھی۔ اور تمام
اپوزیشن جماعتوں نے انہیں مشترکہ قائد حزب اختلاف نامزد کیا۔ کوٹ ادو سے
کامیابی کے بعد جتوئی کو اپنی سیاسی زندگی میں پہلی بار حزب اختلاف کی
نشستوں پر بیٹھنے کا تجربہ ہوا جتوئی اپنے دل میں خواہش پال بیٹھے تھے کہ
انہیں وزیراعظم ہونا ہے لیکن نواز شریف ان کے لیے کھر ثابت نہ ہو سکے اور
آئی جے آئی کے قیام کے وقت انہیں یقین دہانی کے باوجود وزیر اعظم نہیں
بنایا گیا اور نواز شریف خود وزیر اعظم بن گئے۔ پاکستان کے بیشتر سیاست
دانوں کی طرح انہوں نے اپنی زندگی میں ہی اپنے بیٹوں اور بھتیجوں کو سیاست
میں متعارف کرا دیا تھا۔ ان کے بیٹے وفاقی وزیر، صوبائی وزیر ہوئے، ان کے
بیٹے مسرور جتوئی ضلع نوشہرو فیروز کے ضلع ناظم ہوئے اور بھتیجے عاقب جتوئی
ابھی ضلع ناظم ہیں۔
ممتاز بزرگ سیاست داں، نیشنل پیپلز پارٹی کے سربراہ اور سابق نگراں
وزیراعظم غلام مصطفی خان جتوئی ۸۱ نومبر ۹۰۰۲ جمعہ کے روز سینٹرل لندن کے
سینٹ میری اسپتال میں 78 برس کی عمر میں انتقال کرگئے۔ ان پر 4 نومبر 2009ء
کو فالج کا حملہ ہوا تھا جس کے باعث انہیں اسپتال میں داخل کردیا گیا تھا۔
انتقال کے وقت ان کے بھائی، بیٹے اور خاندان کے دیگر لوگ لندن میں موجود
تھے۔ وہ اپنے چار بھائیوں میں سب سے بڑے تھے۔ ان کے سوگواران میں چار بیٹے
غلام مرتضیٰ خان جتوئی، مسرور خان جتوئی، عارف مصطفیٰ جتوئی اور آصف مصطفی
جتوئی اور تین بیٹیاں شامل ہیں۔ ان کے ایک بیٹے طارق مصطفیٰ جتوئی کا 6 سال
قبل انتقال ہوگیا تھا۔ غلام مصطفی جتوئی کے انتقال سے سندھ میں روایت،
رواداری، شرافت، بردباری کے ایک دور کا خاتمہ ہوگیا۔ |