میں ایک سیاستدان ہوں۔ جمہوریت پسند سیاستدان۔مجھے آمریت
سے بہت چڑ ہے۔ اس لئے کہ آمریت میں عوام کی رسائی حکومت تک نہیں رہتی۔
جمہوریت میں لوگ آسانی سے حکومتی کاموں اور اہلکاروں سے استفادہ حاصل کر
لیتے ہیں۔ میں ایک منتخب نمائندہ ہوں۔ میں اپنی حیثیت میں حکومت اور عوام
کے درمیان پل کا کام کرتا ہوں۔ میرا حلقہ انتخاب زیادہ تر دیہی علاقوں پر
مشتمل ہے۔ ان لوگوں کی خدمات خاصہ محنت طلب کام ہے۔ میں چونکہ شہر میں رہتا
ہوں اس لئے وہ کسی بھی حکومتی کام کے لئے شہر آتے ہیں اور میرے پاس قیام
کرتے ہیں۔ میرے گھر میں ان کے قیام اور طعام کے لئے وسیع بندوبست ہے لوگ
آتے ہیں، ٹھہرتے ہیں، کھاتے پیتے ہیں۔ مجھ سے سفارش کرواتے ہیں اور یوں
جمہوریت کا پودہ پروان چڑھتا ہے۔ بہت سے مخالف میری آمدن کے بارے فضول
باتیں کرتے ہیں مگر میری تمام آمدن بھی جمہوری ہے خالص جمہوری۔ اگر یہ آمدن
بھی نہ ہو تو جمہوریت کا پیسہ رک جائے گا ہمیں نقصان ہو گا اور ہماری وجہ
سے عوام کو نقصان ہو گا۔ تپہ نہیں لوگ ہماری جمہوری آمدن پر کیوں معترض ہیں
حالانکہ یہ ذرائع بڑے سادہ اور جائز ہیں۔
حکومت ہر سال منتخب نمائندوں کو دو تین کروڑ روپے ترقیاتی مد میں دیتی ہے۔
ہر ٹھیکیدار جو کام کرتا ہے کام کو ابتداء کرنے سے پہلے منتخب نمائندے کو
جمہوریت کے فروغ کے لئے پندرہ فیصد ادا کرتا ہے جو مروجہ ریٹ ہے کچھ بے
ایمان منتخب نمائندے پندرہ فیصد سے زیادہ وصول کرتے ہیں اور کوالٹی پر ساز
باز کرتے ہیں۔ مگر میں اپنے علاقے میں ہونے والے تمام ترقیاتی کاموں پر
ٹھیکیداروں سے پوری ایمانداری سے صرف اور صرف پندرہ فیصد ہی وصول کرتا ہوں۔
اس سے زیادہ لینا یا کوالٹی پر سازباز کرنا میں حرام اور ناجائز سمجھتا ہوں
کیونکہ جمہوریت صرف اور صرف پندرہ فیصد کی اجازت دیتی ہے۔
میں نے علاقے کے تین چار اہم تھانوں میں اپنی پسند کے انسپکٹروں کو تعینات
کروایا ہوا ہے۔ یہ تھانیدار انتہائی محنتی، ایماندار اور نیک نام ہیں۔ ان
تھانیداروں کا فاعدہ یہ ہے کہ میری اجازت کے بغیر اس علاقے میں کوئی
بدمعاشی نہیں کر سکتا۔ میرے کارکن اُن کے تعاون سے تمام بدمعاشوں کا آسانی
سے قلع قمع کر دیتے ہیں۔ دوسرا یہ تھانیدار مجھے کارکنوں کی فلاح پر خرچ
کرنے کے لئے ہر ماہ ایک مخصوص رقم بھی مہیا کرتے ہیں۔ گو ان تھانیداروں کو
اپنے افسروں کو بھی بہت کچھ دینا پڑتا ہے مگر ان کا جذبہ خدمت خلق اس قدر
شاندار ہے کہ مجھے کارکنوں کی فلاح کے لئے دی جانیو الی رقم میں بھی کوئی
کمی نہیں آتی۔
میں نے اپنے ایک عزیز کو ایک بہت بڑے محکمے میں ایک اہم آسامی پر بھی بھرتی
کروایا ہوا ہے۔ میرا وہ عزیز بہت متحرک اور کام کا آدمی ہے۔ بہت سے کاموں
کے لئے اس کا فون بہت تیر بہدف نسخے کا کام کرتا ہے۔ وہ رشوت کا عادی بھی
نہیں مگر کیا کرے اس محکمے کی رسوم بھی عجیب ہیں۔ نہ چاہتے ہوئے بھی لوگ بے
پناہ دولت اس پر نچھاور کر جاتے ہیں۔ اس کی مہربانی ہے کہ وہ تمام مہینے
میں وصول کردہ رقم اللوں تللوں پر ضائع نہیں کرتا بلکہ اس کا زیادہ تر حصہ
میرے گھر کے اخراجات کا بوجھ اٹھانے پر خرچ کر دیتا ہے۔ میں اس کا مشکور
ہوں ورنہ پورے حلقے سے آنے والے بہت سے افراد کا روزانہ کے قیام اور طعام
کا خرچ میں کیسے پورا کرتا۔
حکومت کی طرف سے ہر سال ہر منتخب نمائندے کی طرح مجھے بھی نوکریوں کا ایک
خصوصی کوٹہ ملتا ہے۔ میں دوسرے نمائندوں کی طرح چپ چاپ کسی اور علاقے کے
لوگوں کو وہ کوٹہ بیچ نہیں دیتا میرے ملازم صرف اور صرف اپنے علاقے کے
ضرورت مندوں کا پتہ لگاتے ہیں کیونکہ یہ نوکریاں میرے پاس ان کی امانت ہیں
اور پھر ان میں سے جو کوئی ہمارے خدمت خلق فنڈ میں بڑھ چڑھکر عطیہ دیتا ہے،
نوکری اسے دے دی جاتی ہے، حق بحق دار رسید ہی میرا اصول ہے۔
میرے حلقے کے جن علاقوں میں زمین کا لین دین زیادہ ہوتا ہے وہاں میں نے
کبھی کسی کرپٹ پٹواری کو تعینات نہیں ہونے دیا۔ لوگوں کو پٹواریوں کی دست
برد سے محفوظ رکھنا بھی ایک جمہوری منتخب نمائندے کا فرض ہے۔ میں نے جو
پٹواری تعینات کروائے ہیں ان کا اولین فرض کسی بھی زمین کے بارے جھگڑے کو
میرے علم میں فوراً لانا ہے۔ میں لوگوں کے جھگڑوں کو ختم کرنے کی پوری کوشش
کرتا ہوں اور زیادہ تر جھگڑوں کو طول ہونے سے بچانے کے لئے وہ زمین خود
خرید لیتا ہوں حالانکہ بہت دفعہ پیسوں کے انتظام میں مجھے بہت مشکل پیش آتی
ہے مگر جمہوری فرض تو فرض ہے اور منتخب نمائندے کو اسے ہر حال نبھانا ہوتا
ہے۔
یہ جمہوریت ہی کا کمال ہے کہ میرے حلقے میں شیر اور بکری ایک گھاٹ پانی
پیتے ہیں۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ جمہوریت کااصلی کمال یہ ہے کہ ہم منتخب
نمائندے شیر کو بکری اور بکری کو شیر بنانے پر قادر ہیں۔ پتہ نہیں جمہوریت
دشمن لوگوں کو جمہوریت کے یہ فوائد نظر کیوں نہیں آتے۔ انہیں سمجھنا چاہئے
کہ آمریت میں ہمارے معاشی آمدن کے چشمے بند ہو جائیں گے ہماری حکومت میں
عمل دخل ختم ہو جائے گا ہم ان کے قیام طعام اور سفارش کا سلسلہ مجبوراً بند
کر دیں گے۔ حکومت اور عوام کے درمیان پُل ٹوٹ جائے گا۔ ان بدترین حالات میں
ہر ایک کا نقصان ہے۔ آج ساری جمہوری قوتوں سے میری اپیل ہے کہ خدارا
جمہوریت کو بچاؤ۔ متحد ہوجاؤ تاکہ آمریت کے نقصانات سے قوم کو بچایا جا
سکے۔ جمہوریت زندہ باد۔ |