گدا گری
(Prof. Niamat Ali Murtazai, )
انسانی معاشرے ہمیشہ گداگری کا
شکار رہے ہیں۔گداگری کا لفظ دو الفاظ کا مجموعہ ہے: پہلا’ گدا‘ اور دوسرا ـ
’ گری‘۔’گدا ‘ کو اگر مذید تقسیم کا نشانہ بنایا جائے تو ’گد‘ اور’ا‘ رہ
جاتے ہیں۔’گد‘ کے ساتھ اگر ’ھ‘
لگا دی جائے تو ایک اور معنی خیز لفظ یعنی ’گِدھ‘ بن جاتا ہے۔اگر گدھ کو
اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لئے ’ا‘ بڑھا دی جائے تو ایک خوب صورت، صحت مند،
محنتی، خود دار، امن پسند، مستقل مزاج مخلوق بن جاتی ہے جسے عرفِ عام میں’
گد ھا‘ کہا جاتا ہے۔ اور اگر ’گد‘ سے پہلے ’ بر ‘کا اضافہ کیا جائے تو ’
برگد‘ کا درخت وجود میں آتا ہے جو اپنی شکل و صورت اور اہمیت کے لحاظ سے
ادبی دنیا میں اپنا مقام رکھتا ہے۔
اب اگر دوسرے لفظ پر بات کریں تو یہ بھی معنویت سے لبریز ہے۔گری کو اگر
گِری پڑھیں تو ایک کھانے والی مزیدار چیز کا تصور آتا ہے جیسے ناریل کی
گِری، بادام کی گِری،مونگ پھلی کی گِری۔ گِری کو اگر فعل کے ضمن میں دیکھیں
تو تکلیف کا احساس دامن گیر ہوتا ہے یعنی گرنا سے گری، چھت سی گِری، سیڑھی
سے گِری، راستے میں گری، نظر سے گِری،آسمان سے گِری وغیرہ۔اور اگر’ گری‘ کو
گَری پڑھیں تو اس کی معنویت میں بہت بڑا فرق پڑجاتا ہے۔گَری کا معنی فن ہے
جیسے زرگری، قلعی گری، بازی گری،سپاہ گری وغیرہ۔اگر گَر ی کا لفظ بھی تقسیم
کا نشانہ بنایا جائے تو’ گَر ‘ کا بہت ہی مفید اورکارآمد لفظ بن جاتا ہے
جیسے کاریگر، کار گر ، چارہ گر وغیرہ۔گر کو اگر گُر پڑھیں تو اور بھی
باوقار لفظ بن جاتا ہے،جس سے علمیت،اور بصیرت کا پہلو جھلکتا ہے۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ کہاں گداگری اور کہاں یہ نشیب وفرازِ حیات۔ میری اتنی
رنگارنگ تمہید کا مقصد ہی یہ ہے کہ گداگری میں یہ سارے رنگ پائے جاتے ہیں
جو اوپر بیان کیے گئے گردونواح میں ملتے ہیں۔
سب سے پہلے گدھ اور گدا گری کا تعلق واضح کرنے کی کوشش کی جائے گی۔جس طرح
گداگر زمیں کا فقیر ہے اسی طرح گدھ آسمان کا گداگر ہے۔ ہر وقت دربدر مارے
مارے پھرنا اور کچھ مل جائے تو اس کی طرف لپکنااور اگر کچھ نہ ملے تو اپنی
بھوک پیاس میں مست رہنا۔گداگر کو زمانے نے صدا لگانے کی اخلاقی اجازت عطا
فرمائی ہے اور گدھ کو فضا میں اڑنے کی۔گداگر کسی کے ہاتھ سے نہیں چھینتا
اور اسی طرح گدھ کسی کا نہیں کھاتی جو پھینک دے کھا لیا ورنہ فاقہ مستی ہی
کفایت کر جاتی ہے۔
ہمارا دوسرا لفظ جس سے گداگری کا تعلق جوڑا گیا ہے ’گدھا ‘ ہے۔ ہم نے ہمیشہ
گدھوں کو عظمت کے اعلیٰ تریں مقام پر متمکن پایا ہے۔ کسی کو اس سے اتفاق ہو
یا نا اتفاقی۔سارا دن سال کے تین سو پینسٹھ دن گدھے کام میں مصروف نظر آتے
ہیں۔ ان کے متوازی اگرانسانوں میں سے کوئی پیشہ ٹھہرتا ہے تو وہ بلاشبہ
گداگری کا پیشہ ہے۔ دن رات سال کے تین سو پینسٹھ دن یہ گدا گر بھی گدھوں کے
شانہ بشانہ برسرِ پیکار رہتے ہیں۔گدھے اپنا کام منہ دھیان کرتے ہیں اور
گداگر بھی۔ ہر کسی کو ہاتھ اٹھا کر دعا دینااور سلام بجا لانا۔سارا سارا
بازار پھرنا، علاقے پھرنا، ان تھک کوشش کرنا ۔اس سارے کام کے لئے بالکل
گدھوں کی سی ٹانگیں درکار ہوتی ہیں جو کہ صرف اورصرف گداگروں کے حصے میں
آسکی ہیں۔
برگد یا بڑ کا درخت بھی گدا گری میں ملوث ہوا چاہتا ہے۔بھلا کیسے؟ نئی
پتہ!میں کوشش کرتا ہوں۔
بڑ کا درخت ایک و سیع پھیلا ہوا درخت ہوتا ہے۔اس کی عمر بھی بہت زیادہ ہوتی
ہے۔اس کی جڑیں بھی بہت گہری اور دوردورتک پھیلی ہوئی ہوتی ہیں۔یہی حال
گداگری کا بھی ہوتا ہے۔یہ ایک وسیع و عریض پھیلا ہوا درخت ہے۔ساری دنیا میں
اس کی شاخیں ہیں۔اس کی جڑیں بھی بہت گہری اور وسیع ہیں۔کسی زمانے میں اور
کسی علاقے سے گداگروں کو بے دخل نہیں کیا جا سکا۔وہ خود ہجرت یا نکل مکانی
کر جائیں تو اور بات ہے۔ورنہ کوئی مائی کا لال ان کو نکال باہر نہیں کر سکا۔
بڑ کی طرح اس گدا گری کے سائے میں کتنی روحوں کا بھلا ہوتا ہے۔ جس طرح برگد
کا درخت کسی کو اپنے سائے سے محروم نہیں رہنے دیتا بلکہ ہر کسی کے لئے اپنا
دامنِ دل وا کر دیتا ہے ایسے ہی گداگری ہر کسی کے لئے اپنے در وا کئے رکھتی
ہے۔اس میں کسی ذات برادری، رنگ و نسل اور مذہب و ملت کے لوگ سما سکتے
ہیں۔یہ وہ واحد پیشہ ہے جس میں نسلِ آدم ایک سی نظر آتی ہے ورنہ دنیا میں
انسان ہی انسان ہیں۔لیکن ابنِ آدم نظر نہیں آتے جن میں کچھ مشترک آدمیت ہو۔
جیسا کہ پہلے بیان کر چکے کہ گداگری کو گدا گِری بھی پڑھا جا سکتا ہے۔جس کی
توجیہہ کچھ یوں کی جا سکے گی۔کہ گدا گری کا کام گِری کھانے کے مترادف ہے۔
بس شرم نہیں آنی چاہیے۔باقی کوئی مسئلہ نہیں۔بس ہاتھ پھیلاتے جائیں۔ رب کا
نام لیتے جائیں،سب کا بھلا ،سب کی خیر الاپتے جائیں، کو ملے اسے سلام کرتے
جائیں،جو دے اس کا بھلا اور کو نہ دے اس کا بھی بھلا،سلام اور دعا ہر کسی
کو دیں۔جو ملے اس کی دختی رگ پر ہاتھ رکھیں۔ نوجوانوں کو من پسند شادی،
شادی شدہ کو اولاد کی، شادی زدہ کو نجات کی، بوڑھوں کو اولاد کی سلامتی کی،
مالداروں کو کاروبار کی وغیرہ دعا دیتے جائیں اور ناریل کی گِری کھاتے
جائیں یعنی تھیلا بھرتے جائیں۔تو یہ کام گداگِری ہی ہوا !
اب اگر گداگِری کا دوسرا معنی یعنی گِرنا مراد لیا جائے تو اس پر بھی قدغن
نہیں لگتی۔گداگر معاشرے کا ایک گِرا ہوا طبقہ ہے وہ بس زمین کے ساتھ رینگ
رینگ کے چل رہا ہوتا ہے۔ اس کی حیثیت ایک گرے ہوئے انسان سے قطعاً زیادہ
نہیں ہوتی۔گداگِری معاشرے کو جھنجھوڑجھنجھوڑ کے اس منظر کی طرف بلاتی ہے کہ
د یکھو ایک انسان دوسرے انسانوں سے کچھ مانگ رہا ہے۔ انسان نے انسان کا کیا
حال کر دیا ہے کہ ایک کے پاس سوائے مانگنے کے کچھ نہیں بچا۔
اب ہم گداگری بطور ایک مہارت ڈسکس کرتے ہیں۔اس صورت میں اسے گَری ہی پڑھا
جائے گا۔ یہ ایک ماہرانہ کام ہے کو ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ یہ کام کرنے
کے لئے اچھی خاصی مہارت درکار ہے ورنہ سارے شہر کا چکر بھی لگ جائے گا اور
ہاتھ بھی کچھ نہیں آئے گا۔بعض گداگر اپنے کام میں اسقدر نابغہء روزگار ہوتے
ہیں کہ اپنی نظیر نہیں رکھتے۔ اور ان سے بھی کچھ نہ کچھ نکلوالیتے ہیں جو
کنجوسوں کے آی جی مانے جاتے ہیں۔یہ کام بغیر گُر کے ہو ہی نہیں سکتا۔گَری
کسی فن، مہارت اور یدِ طولیٰ جیسی باتوں کے لئے بولا جاتا ہے۔جنابِ من
گداگری سے زیادہ ماہرانہ کیا کام ہو سکتا ہے کہ صرف دعائیں دے کر لوگوں کی
جیبوں پر ہاتھ صاف کیے جانا۔انسان تو کسی کو مکھی مار کر دینے کو تیار نہیں
ایسے کنجوس انسان کی جیب سے نوٹ نکلوا لینا مہارت کے بغیر نا ممکن ہے۔
گداگری کا ایک انوکھا استعمال اور فائدہ یہ ہے کہ یہ کسی ملک کی معیشت کا
انڈکس ہے۔بھلا کیسے؟ نئی پتہ۔ وہ ایسے کہ ایک زمانے میں گد اگر کس چھوٹی سے
چھوٹی اکائی پر مطمئن ہوتا ہے اس سے اس دورکی معاشی حالت کا واضح اشارہ
ملتا ہے۔آج کل کے وطنِ عزیز میں مہنگائی کا انڈکس یہ ہے کہ آج کل گدا گر
بھی پانچ اور دس روپے ہی لینا پسند فرماتے ہیں۔ایک دو روپوں کو وہ بھی
حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔جب ملک میں گداگری کا ریٹ پانچ یا دس روپے ہوں
تو اس ملک میں افراطِ زر کی شرح کا بخوبی اندازہ لگایا کا سکتا ہے۔ایک
زمانہ تھا جب گدا گر ایک دو پیسے لے کر ٹل جایا کرتے تھے۔ اور ایک یہ دور
کہگداگر کو خوش کرنے کے لئے اور اس کی دلی دعا لینے کے لئے دس کا نوٹ اس کے
ہاتھ میں تھانا از حد ضروری ہے۔گداگری کو ہر وقت منفی رویہ سمجھ کر گھٹیا
گردانتے رہنا بھی کوئی معقول رویہ نہیں ہے۔
ہم تو بذاتِ خود بھی ریٹائرمنٹ کی طرف جاتے ہوئے بار ،بار،بار،بار۔۔۔سوچتے
ہیں کہ پھر کیا کریں گے۔کبھی خیال آتا ہے کہ کسی فقیرنی سے شادی رچا لی
جائے، ریٹائرمنٹ کا خوف جاتا رہے گا،کبھی خیال دامن گیر ہوتا ہے کہ اس سے
جگ ہنسائی ہو گی، کیوں نہ علاقہ بدل کے خود ہی گداگری اختیار کر لی جائے جس
سے ریٹائرمنٹ کا نا صرف ازالہ ہوگا بلکہ ایک نئی ملازمت بھی ہاتھ لگ جائے
گی۔کسی کو کیا پاتا کہ ہم کون ہیں:
بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالبؔ
تما شائے اہلِ کرم دیکھتے ہیں
اس سے بھی دو نشانے ہو جائیں گے ایک تو روزگار مل جائے گا اور دوسرا
تماشائے اہلِ کرم بھی مفت میں دیکھا جا سکے گا۔ آپ کے مشورے کی ضرورت ہو گی
کیونکہ ہمیشہ کسی دانا تجربہ کار سے صلاح مشورہ کر کے ہی پیش قدمی کی جانی
چاہیے۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ بھی گدا گری کا تجربہ کر چکے ہیں نہیں ہر
گز نہیں اس طرح کی باتیں سرِ عام کرنے کی بھلا ہیں کیا ضرورت۔ ہم نے کون سے
کسی کو بلیک میل کر کے پیسے لینے ہیں۔اس کا مطلب صرف اور صرف یہ ہے کہ دانا
لوگوں کی سوچ بچار تو ہر طرف ہوتی ہے اس لئے وہ کوئی معتبر بات ہی کریں گے۔
الغرض گداگری ایک ایسی ملازمت ہے جس سے بندہ کبھی ریٹائر نہیں ہو تا، جس کی
بھرتی کے لئے نہ رشوت دینی پڑتی ہے اور نہ کسی کی منتیں اور ترلے کرنے پڑتے
ہیں۔بس بھیس بدلیں اور رب کو یاد کرتے ہوئے میدانِ کازار میں کود پڑیں۔ اﷲ
آپ کا حامی و ناصر ہوگا۔
ویسے بھی اگر دیکھیں تو انسان ہے تو گداگر۔ پیدائش سے لے کر مرتے دم تک
مانگتا ہی تو رہتا ہے،کبھی بندوں سے اور کبھی بندوں کے خدا سے۔ اس کے ہاتھ
مانگے کے انداز میں پھیلے ہی رہتے ہیں۔کبھی حکومت سے، کبھی آئی،ایم،ایف سے
کبھی کسی سے کبھی کسی سے۔ اگر انسان کا مقدر مانگنا ہی ہے تو گداگر بننے
میں کیا عار ہے، مانگنا مانگنا ہے چاہے وہ کسی سے ہو۔کہتے ہیں:
اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے
انسان سے اپنے آپ سے تو روٹی نہیں پکتی ،دنیا کیسے بنے گی، دوسروں کا سہارا
لینا ہی پڑتا ہے، تو کیوں نہ سہارا کچھ زیادہ لے لیا جائے تا کہ سہارا دینے
والوں کو بھی اعتراض نہ رہے کہ سہارا پورا نہیں لیا گیا۔یعنی پکی پکائی
روٹی ہی مانگ لی جائے تا کہ دینے والے کو ثواب بھی حاصل ہو جائے۔اور مانگنے
والے کا پیٹ بھی بھر جائے۔
کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ گداگر جس کثرت کے ساتھ رب کا نام لیتے ہیں اور
بار بار اس کے واسطے ڈالتے ہیں اس سے تو خود خدا بھی مان سکتا ہے۔ ان گدا
گروں سے زیادہ رب کو کون یاد کرتا ہے۔ صبح سے لے کر شام تک ایک ایک سانس کے
ساتھ رب کا واسطہ دینا اور اس کے نام پر مانگنا کس قدر یادِخدا میں رہنے
والی بات ہے۔
گداگروں کی جو بات دل پر زیادہ اثر انداز ہوتی ہے وہ ان کی انکساری کی
انتہا ہے۔اتنی انکساری کہ بس انسان کیا مٹی کیا۔ کوئی کچھ دے یا نہ دے کسی
پر کوئی احسان یا اعتراض نہیں۔سب کو دعا دینا،چاہے اوپراوپر سے ہی کیوں نہ
ہو۔یہ بھی آسان کام نہیں۔
گداگروں کا ایک اور سماجی اور نفسیاتی فائدہ ہے اور وہ یہ کہ ان کو دیکھ کر
بہت سے لوگ لاشعوری نفسیاتی تسکین حاصل کرتے ہیں۔جس سے کئی ایک مسائل اپنا
حل تلاش کر لیتے ہیں۔بعض مذاہب میں تو رہبانیت کا باقائدہ سسٹم قائم کیا
جاتا ہے تا کہ لوگ ان تارک الدنیالوگوں کو دیکھ کرذہنی سکون حاصل کریں۔یہ
گداگر بھی رہبوں کی کچھ جدید شکل کہی جا سکتی ہے۔اگرچہ یہ اور بات ہے۔
گداگروں کا ایک اور فائدہ یہ ہے کہ ان کے ہوتے ہوئے کوگوں کو صدقہ خیرات
کرنا بہت آسان رہتا ہے۔جلد ہی ان کو مستحق لوگ مل جاتے ہیں اور وہ اپنا
سرصدقہ دے کر ذہنی آسودگی پا لیتے ہیں۔
بعض گدا گر اخلاقی تربیت کا فریضہ بھی ادا کرتے ہیں۔ مانگتے ہوئے وہ بہت سی
اخلاقی باتیں بھی بیان میں لاتے ہیں جیسے ماں کی شان، دنیا کی بے ثباتی،
وغیرہ۔اس طرح گداگری صرف اور صرف بے کار اور مفت خوروں کا پیشہ نہیں رہتا
بلکہ کئی ایک اخلاقی مصلحین بھی اس گدا گروں کے بھیس میں اپنا رول پلے کرتے
پھرتے ہیں۔
الغرض گداگری ایک ایسا سماجی مظہر ہے جس کی بے شمار سمتیں اورپہلو ہیں۔اس
بال کی جتنی بھی کھال اتاری جائے اترتی جائے گی اور آخر کھال اتارنے والا
ہی تھک ہار کر بیٹھ جائے گا کھال کے آگے چمڑا بننے کا پروسیس جاری و ساری
رہے گا۔ |
|