غزہ میں حماس نے اسرائیل کو
میدان جنگ میں شکست دینے کے بعد مذاکرات کی میز پر شکست دے کر دوسری بڑی
کامیابی حاصل کی ہے ۔یہ اسرائیل کی زندگی میں پہلا موقعہ جب اسے پیچھے ہٹنا
پڑا اس سے پہلے عرب اسرائیل کے درمیان جتنی بھی جنگیں ہوئیں ہیں اس میں
اسرائیل نے جتنے بھی علاقوں پر قبضہ کیا آج تک وہ اسی کے قبضے میں ہے چاہے
وہ شام کی گولان کی پہاڑیاں ہوں یا بیت المقدس ہو لیکن اس دفعہ ایک ماہ سے
زیادہ حماس کے خلاف جنگ میں اسرائیل کو کوئی کامیابی ملنا تو درکنار الٹا
سب سے زیادہ نقصان ہوا پھر اسرائیل نے مذاکرات میں حماس کو بہت دبانے کی
کوشش کی کئی بار مذاکرات ختم بھی ہوئے لیکن حماس نے بھی صبر، حکمت اور تدبر
سے کام لیا اور اپنے اہداف پر نظر یں جمائے رکھیں29اگست کے جسارت میں
اسرائیل کی شکست اور مزاحمت کی فتح کے عنوان پر مضمون میں جناب پروفیسر
شکیل صاحب نے ان کامیابیوں کا ذکر کیا ہے جو حماس نے حاصل کی ہیں اسرائیل
نے محاصرہ کے حوالے سے کچھ نرمیوں پر آمادگی ظاہر کی ہے بالخصوص غزہ کی
تباہی کے بعد اس کی تعمیر نو کے لیے تعمیراتی سامان کی فراہمی کے لیے آ
سانیاں دی جائیں گی مذاکرات میں یہ بھی فیصلہ ہوا پہلے ماہ میں میں سمندری
حدود میں دس میل تک غزہ کے شکاریوں کو مچھلی شکار کرنے کی اجازت ہو گی
دوسرے ماہ پندرہ میل اور تیسرے ماہ یہ حدود بیس میل تک ہو جائے گی ،بہت
پہلے غزہ کے لوگ سمندر میں مچھلیوں کا شکار کرتے تھے اسرائیل نے کئی برسوں
سے پابندی عائد کر رکھی تھی اب اس پابندی کے ختم ہونے کے بعد پہلے مرحلے پر
جو شکار ہوا اس میں غزہ کے مچھیروں نے بیس ٹن مچھلیاں پکڑی ہیں ان کا کہنا
ہے کہ جب انھیں پوری مکمل حدود مل جائیں گی تو یہ مقدار کئی گنا بڑھ جائے
گی ،اسی طرح غزہ کے باشندوں کو ہوائی اور بحری سفر کے لیے اسرائیل کے ائیر
پورٹ اور بندرگاہ پر جانا پڑتا تھا اس کے اوپر بھی بات ہوئی ہے غزہ میں ایک
ایئر پورٹ اور بندرگاہ بھی بنائی جائے گی اسرائیل حماس کو غیر مسلح کرنا
چاہتا ہے لیکن اس شق کو حماس کے مذاکرات کاروں نے تسلیم نہیں کیا اس موضوع
پر کسی اور شکل میں آئندہ بات ہو گی اسی طرح غزہ میں جو تباہی ہوئی ہے اس
کی تعمیرات کے لیے ترکی اور قطر کی حکومت نے اپنے بھر پور تعاون کا یقین
دلایا ہے اس کے علاوہ پوری دنیا سے جو امداد ملی ہے وہ الگ ہے ،در اصل جہاد
سے معیشت بہتر ہوتی ہے اسرائیل نے ایک منصوبے کے تحت عام آ بادی کو بمباری
کا نشانہ بنایا کے غزہ کے عام لوگ حماس سے متنفر ہو جائیں کہ اس کی وجہ سے
ہمیں ان مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے لیکن اس میں اسرائیل کو کوئی
کامیابی نہ مل سکی اسرائیل بچوں کو اس لیے اپنی وحشت کا نشانہ بناتا ہے کہ
یہ بڑے ہوں گے تو مجاھد بنیں گے خواتین کو اس لیے نشانہ بناتا ہے یہ کم ہوں
گی تو مجاھدین کم پیدا ہوں گے ۔غزہ کی اس چھو ٹی سی پٹی میں جہاد کے جذبوں
نے حماس کو حیرت انگیز کامیابیاں دلائی ہیں جس طرح ہمارے یہاں مائیں اپنے
چھوٹے بچوں سے جو ابھی گود میں ہی ہوتے ہیں پیاربھرے انداز میں کچھ اس طرح
باتیں کرتی ہیں "میرا بیٹا بڑا ہو گا پڑھے گا لکھے گا ڈاکٹر بنے گا /انجنیر
بنے گا اپنے ماں باپ کی خدمت کرے گا اپنے دادا دادی اور نانا نانی کی خدمت
کرے گا "اسی طرح کی اور بھی باتیں کرتیں ہیں.۔غزہ میں مائیں اپنے بچوں سے
کچھ اس طرح کی باتیں کرتی ہیں "میرا بچہ بڑا ہو گا مجاھد بنے گا اسرئیلی
فوجیوں کا مقابلہ کرے گا یہودیوں کو واصل جہنم کرے گا اور بیت المقدس آزاد
کرائے گا "یہ ہے سوچ کا فرق ،غزہ میں اس کامیابی سے حماس کے حوصلے بلند
ہوئے ہیں عام آبادی میں ان کے لیے اعتماد بڑھا ہے اور اسرائیل کی یہ چال
ناکام ہو گئی کہ وہ اس طرح حماس کو صفحہ ہستی سے مٹانے آیا تھا لیکن اب خود
اسرائیل کے اپنے مٹ جانے کے امکانات روشن ہوتے جارہے ہیں ،مذاکرات کے اگلے
دور میں قیدیوں کے تبادلے کے بارے میں فیصلے کیے جائے گے امید ہے کہ اس میں
بھی حماس کو شاندار کامیابی ملے گی کراچی میں جو عظیم الشان غزہ ملین مارچ
ہوا تھا سوشل میڈیا کے ذریعے سے اس کی گونج غزہ کے ہر شہریوں تک پہنچی ہے
جس کے لیے وہ پاکستانیوں کے بہت شکر گزار ہیں - |