ہندو لڑکیوں کے دھرم پریورتن کی سازش یا کرسی کیلئے سیاسی ایجنڈہ
(Ata Ur Rehman Noori, India)
مذہبی ٹھیکیداروں اورسیاسی
لیڈروں کا اصول:لڑاؤ اور حکومت کرو
لَوجہاد:مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے کا بھگواپروپیگنڈہ
ہمارے ملک ہندوستان سے انگریز تو چلے گئے مگر ’’لڑاؤ اور حکومت کرو‘‘کی
پالیسی اب بھی موجود ہے۔اسی لئے ہر مرتبہ الیکشن کی آمد سے چند مہینے قبل
سیاسی پارٹیاں نت نئے ایجنڈے لاتی ہیں جن کی بدولت وہ ملک بھر میں
ہندو،مسلم،سکھ اور عیسائی فسادات کو بھڑکاکراپنی سیاسی روٹیاں سینکتے
ہیں۔اس مرتبہ بھی الیکشن کے پیش نظر چند انتہاپسند تنظیموں،پارٹیوں اور
مذہبی جنونیوں نے ’’لَو جہاد‘‘کا شوروغل مچانا شروع کردیاہیں۔جس کے سبب
میرٹھ،مظفرنگر ،سہارن پور،گورکھپوراور اترپردیش کے مختلف علاقوں میں فسادات
ہوئے اور اب مہاراشٹر میں اسمبلی الیکشن کے پیش نظرریاست مہاراشٹر بھی
نشانے پر ہے۔’’لَو جہاد‘‘اصطلاح نہ جانے کس کے ’’ذہنِ نارسا‘‘کی اختراع
ہے۔اہل زبان جانتے ہیکہ یہ ایک بے معنی ترکیب ہے۔خیر’’لَوجہاد‘‘ کا
جھوٹاپروپیگنڈہ پہلی بار نہیں کیاگیا بلکہ’’ ہندولڑکیوں کے دھرم پریورتن کی
سازش‘‘کے نام سے یہ تحریک کئی برسوں سے کوکن،مراٹھواڑہ، خاندیش، پونے،
شمالی مہاراشٹر،جنر اور دیگر مقامات پر بڑ ے زوروشور سے جاری ہے۔فرضی قصے ،کہانیوں
اور من گھڑت الزامات کے ذریعے کچھ مذہبی جنونی اورفرقہ پرست عناصر ملک کا
ماحول خراب کررہے ہیں۔ان مذہبی جنونیوں نے کسی’’لَو گرو تنظیم‘‘ کے ذریعے
مسلم لڑکوں کے ذریعے ہندولڑکیوں کو عشق ومحبت کے جال میں پھنسانے کا بے
بنیاد الزام لگایاہے ۔اس بے ہودہ کام کے کرنے والے نوجوان کو لَوگرو تنظیم
کے ذریعے دی جانے والے امدادکابھی انکشاف کیا، جو کس قدر مضحکہ خیز ہے۔ان
کا کہناہیکہ لَو گرو نامی کل ہندتنظیم کسی ایک ہندولڑکی کو عشق کے جال میں
پھنسانے اور اسلام قبول کروانے والے مسلم لڑکے کو (۱)ایک لاکھ روپئے
نقد(۲)ایک عالیشان گاڑی(۳)موبائیل فون اور(۴)فیشن ایبل کپڑے دیتی ہے۔مزید
تعجب خیز الزام یہ عائد کیاکہ اس تنظیم نے اب تک چار ہزار لڑکیوں کا دھرم
پریورتن کروایا جس میں اس نے ڈھائی سو کروڑروپئے خرچ کئے ہیں۔اگر ان
الزامات کو وقتیہ درست مان بھی لیاجائے تو لوگرو تنظیم کے پاس اتنی خطیر
رقم آئی کہاں سے؟اور اتنی بڑی تنظیم حکومتی اداروں ، انٹلی جنس اور خفیہ
محکمہ کی نظر سے محفوظ کیسے ہے؟اس تنظیم کے کون کون سی ریاست میں کون کون
نمائندے ہیں؟کروڑوں روپیوں کی خریدوفروخت انکم ٹیکس آفیسران کی نظروں سے
پوشیدہ کیوں ہے؟وغیرہ وغیرہ۔
الزامات کی حیثیت ہوا میں گھل مل جانے والے الفاظ کی ہوتی ہے۔الزامات کے
ذریعے لمحاتی پریشانی لاحق ہوتی ہے مگر حقیقت کے سامنے الزامات راکھ کا
ڈھیر ثابت ہوتے ہے۔ درحقیقت فرقہ پرستی اور نفرت کی سیاست کرنے والی چند
پارٹیوں کا وطیرہ بن گیاہے کہ ہر معاملے کو مذہب کا رنگ دے کرسیاسی فائدہ
حاصل کیاجائے چاہے اس میں کتنے ہی بھارتیوں کی جان چلی جائے۔ان فرقہ پرست
جنونیوں کوان نکات پر سوچنا چاہئے کہ اسلام ایسا مقدس مذہب ہے جونکا ح جیسے
پاکیزہ رشتے میں بندھنے والے دولہا دلہن کوبھی نکاح سے قبل ملنے جلنے کی
اجازت نہیں دیتا،وہ مذہب اپنے ماننے والوں کو غیر مسلم کے ساتھ عشق ومعاشقے
کی اجازت کیونکردے سکتاہے؟دوم اسلام مومنین کی تعداد کو بڑھاناچاہتاہے
منافقین کی نہیں،اس طرح پیسے کے بل بوتے اور جنسی خواہش کی تکمیل کی بنیاد
پر سچے مومنین میں اضافہ ممکن ہی نہیں۔ سوّم مسلم سماج میں لڑکیوں کی کمی
نہیں،پھر کیوں کوئی نوجوان باحیا،باکردار اور بااخلاق مسلم لڑکیوں کو چھوڑ
کر ایسی لڑکی کی طرف جائے جس کا رشتہ اپنے مذہب سے اتنا کمزور ہو کہ عشق کے
چند بناؤٹی جملوں اور سکوں کی کھنک سے ٹوٹ جائے۔معلوم ہوایہ ہتھکنڈہ محض
سیاسی کرسی کی بحالی کے لیے کیا جارہا ہے۔ورنہ تاریخ کے اوراق کھنگالے تو
مذہب کے ان ٹھیکیداروں کے گھروں میں مسلم نوجوانوں سے شادی کرنے کا رجحان
زیادہ رہاہے۔وشوہندوپریشد کے لیڈراشوک سنگھل نے اپنی بیٹی کی شادی مختار
عباس نقوی سے کی ہے،مرلی منوہر جوشی نے اپنی بیٹی کی شادی شاہنواز حسین سے
کی ہے،مودی کی بھتیجی کی شادی مسلم نوجوان سے ہوئی ہے، لال کرشن اڈوانی کی
بیٹی نے دوسری شادی مسلم سے کی ہے۔ سبرامنیم سوامی کی بیٹی نے مسلم سے شادی
کی ہے،شیوسینا کے سربراہ آنجہانی بال ٹھاکرے نے اپنی پوتی کی شادی مسلم
نوجوان سے کی تھی،مسلمانوں کے خلاف زہر اُگلنے والے وشوہندوپریشد کے
لیڈرپروین توگڑیا کی بہن سے شادی کرنے والا مسلم رئیس زادہ ہے،سشیل کمار
مودی نے دوسرے مذہب کی لڑکی سے شادی کی،دھرمیندراور ہیمامالینی نے شادی کے
لیے اسلام دھرم کا سہارالیاتھاکیونکہ ہندودھرم میں دوسری شادی کی اجازت
نہیں ہے،فلم انڈسٹری میں اس طرح کی کئی مثالیں ان فرقہ پرستوں کے لیے
موجودہیں۔کیا یہ لَوجہاد نہیں؟یا یوں کہہ لیجئے کہ مذہب کے ان ٹھیکیداروں
کو مسلم داماد زیادہ پسند وعزیز ہے۔
ہماری ہر ہندوستانی سے اپیل ہیکہ اس ایشوکے ذریعے بھولے بھالے شہریوں کو
دھوکہ دینے کی جو ناپاک کوشش کی جارہی ہے،اسے ناکام کریں،ماحول کو
سازگاربنائے رکھنے کی ہر ممکن کوشش کریں اور ہر شہر کے اثر ورسوخ اور اعلیٰ
حکام تک رسائی رکھنے والے احباب کو چاہئے کہ ملکی قوانین کی پاسداری کرتے
ہوئے مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کرنے والوں اور مسلمانوں کا عرصۂ حیات
تنگ کرنے والوں سے ایسے بے بنیاد الزامات کے متعلق حکومتی سطح پرباز پُرس
کی جائے اورملکی فضاکو آلودہ کرنے سے انھیں روکاجائے۔تعجب ہے اگر عوام
دوسرے مذہب میں شادی کریں تو جرم ہے تو پھر ان مذہبی ٹھیکیداروں نے اس جرم
کا ارتکاب کیوں کیا؟؟ |
|