ہماری سوسائٹی میں صحت کے مسائل کو اہمیت ہی نہیں دی جاتی
(Ata Ur Rehman Noori, India)
منشیات: پوری دنیا کے لیے ایک
سنگین مسئلہ
زندگی اﷲ تعالی کی ایک عظیم نعمت ہے اس کی قدر ہر ایک پر فرض ہے۔انسانی
زندگی اور صحت عامہ کے حوالے سے آج پوری دنیاکو جن بڑے خطرات اور چیلنجوں
کا سامناہے اس میں منشیات سرفہرست ہے۔منشیات تیزی سے ہزاروں انسانوں کو
اپنی عادت کا غلام بناتی جارہی ہے ،اس عادت کا شکار ہوکر خواتین ،نوجوان
اور بچے اپنی زندگی کو اپنے ہی ہاتھوں سے تباہ و برباد کررہے ہیں ۔منشیات
کے استعمال کی وجہ سے سالانہ لاکھوں افرادداعی اجل کولبیک کہہ رہے ہیں۔ اس
وقت منشیات پوری دنیا کا ایک سنگین مسئلہ ہے،،ہمارے ہاں بھی منشیات کا
مسئلہ اپنے عروج پر ہے،اس عادت نے ایک خطرناک شکل اختیار کرلی ہے جو ہر گھر
کو اپنا نشانہ بنا کر اور اب تیزی کے ساتھ ہرفرد کو نشانہ بنا رہی ہے۔ گٹکا،
تمباکو، شراب، الکوحل،نشہ آوردوائیاں(اینٹی ڈپریسنٹ،اینٹی سائیکوٹک ،کلوزاپین،
ہیلوپیریڈال اور اولینزاپین،بینزوڈایزیپین،ڈایزیپام،میتھاڈان
وغیرہ)افیون،بیڑی اور سگریٹ نوشی نے اس کے عادی افراد کو اپنے رحم و کرم پر
رکھا ہے۔کہتے ہیں کہ اکثرلوگ لاعلمی و جہالت کی وجہ سے مختلف برائیوں کا
شکار ہوجاتے ہیں اور اپنی زندگی کو خود مسائل کے دلدل میں ڈھکیل دیتے ہیں
مگرہمارے ہاں جہالت کے ماروں کے ساتھ ساتھ پڑھا لکھا طبقہ بھی اس برائی کا
شکار ہے ،ہم سب نے ایسے بہت سارے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کوگٹکاخوری کرتے
ہوے دیکھا ہے اور بہت سارے بااثرلوگوں کو گٹکاخوری کی دانستہ اور غیر
دانستہ سپورٹ کرتے دیکھاہے۔دوسری طرف گٹکا کے کاروبار کرنے والے جس کو ہم
گٹکا مافیاکہہ سکتے ہیں،انہوں نے بھی اپنی قوم کواور ساری انسانیت کواس کے
قہرمیں ڈبونے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔چندسکّوں کی خاطر نوجوانوں کی زندگی
اور ان کی صحت کے ساتھ موت کی ہولی کھیل رہے ہیں،ہر گاؤں ،ہر محلہ ،ہر شہر
میں ہمیں گٹکے کے یہ کھوکے زہر بیچتے نظر آئینگے مگر معاشرے کے بااثر
افراد،سماجی تنظیمیں اورحکومتی اثرورسوخ رکھنے والے احباب کو آنکھیں رکھتے
ہوئے بھی کچھ دیکھائی نہیں دیتا۔اس وقت بہت سارے نوجوان گٹکے کے نشے میں
مبتلا ہوکر تیزی کے ساتھ منہ و گلے کے کنیسر،دمہ،ذہنی تناؤ، نظر کا کمزور
ی،دل کی کمزوری ،دل کی دھڑکن کا نظام بے ترتیب ہو نا، پٹھوں میں کھچاؤ اور
کمزوری ،کھانسی، بلغم اور گلے کا گھسنا جیسی بیماریوں کا پیدا ہو نا، بھوک
میں کمی، سینے کے امراض، قوت باہ میں کمی ، غذا سے مکمل طور پر فائدہ نہ
پہنچنا، خون کے خلیے خراب ہو نا،قوت یادداشت کامتاثر ہونا(الزائمر)،جلد میں
کھجلی ( سورائیسس) ، بلڈ پریشر،پھیپھڑے کاکینسر وغیرہ وغیرہ جیسی بیماریوں
کا شکار ہو کر صحت جیسی عظیم نعمت کی ناشکری کررہے ہیں۔ بہت سارے لوگ
منشیات کا شکار ہوکر موت کے منہ میں چلے گئے ہیں اور باقی ان بیماریوں میں
مبتلا ہوکر سسک سسک کر جی رہے ہیں ،ہمارے ہاں صحت کے مسائل پر سوچھنے و
سمجھنے کے عمل کو اہمیت ہی نہیں دی جاتی ، معاشرے میں رشتوں کے اندر تمیز
ختم ہوتی جارہی ہے ایک باپ،ماں یا استاد بچوں کو گٹکے کھانے سے کیسے منع
کرسکتاہے جبکہ اسکے خود کے منہ میں 24؍ گھنٹہ گٹکا ہوتاہے ، یہی وجہ ہے کہ
ہمارے ہاں پورا گھر کا گھر گٹکے کے نشہ کا شکار ہے اور یہ عمل بہت خطرناک
نتائج کو جنم دے گا جس کا شاید ہم نے تصور نہ کیا ہو اور آنے والی نسلیں
گٹکے خوروں کی نسلوں سے جانی جائیں، ہمیں سوچنا اور سمجھنا ہوگا کہ ہم کس
سمت جارہے ہیں؟؟
اس تمام تر صورت حال میں سوائے آخری امید کے کچھ نظر نہیں آتا کہ ہم لوگوں
کوبتائیں کہ منشیات کا استعمال ایک برائی ہے جس کانقصان انسانی جسم اور عقل
پرہوتاہے۔ اس کے لیے ہمیں اپنے عزم کے ذریعے لوگوں میں شعور کی سطح کو بلند
کرناہوگا،ذہن وفکر کو تبدیل کرناہوگا،منشیات کے خلاف ایک مؤثر فورم تشکیل
دے کرسرکردہ افراد اور حکومتی احکام کے ساتھ اس مسئلے کی سنگینی کے بارے
میں عوام کو جانکاری دی جائے اور اس حوالے سے مزید قانون سازی کی راہ ہموار
کی جائے تاکہ لوگوں میں صحت عامہ خصوصا ًمنشیات کے تباہ کن اثرات کے متعلق
بیداری آئے اور اس زہر قاتل پرکنٹرول کے لیے حکومتی اور غیرحکومتی سطح پرہر
ممکن اقدامات ہو۔
بہت ممکن ہے کہ منظقی ذہن وہٹ دھرم افرادیامنشیات کے عادی اپنی بے ڈھب دلیل
میں کہے کہ کچھ لوگ نشے کے عادی نہیں ہیں باوجوداس کہ انہیں بیماریاں جکڑے
ہوئے ہیں اور جوعادی ہیں وہ ہٹّے کٹھّے ہیں، ان کے لیے جواب یہ ہیکہ
ایسانہیں کہ ہر عادی کوکینسرودیگرمہلک امراض ہوتے ہی ہیں بلکہ ان میں
دوسروں کی بہ نسبت بیماریوں کاتناسب زیادہ ہوتا ہے۔ ایسے افراد دینی
وسائنسی دونوں طرح کے خسارہ کاشکارہیں،دینی طور پر ایسے کہ لاکھوں روپیہ
دھنویں اور تھوک کی نذرکرکے کے فضول خرچ بن کرقرآن کے مطابق شیطان کے بھائی
بن رہے ہیں اور سائنسی طور پر صحت کونقصان پہنچاکر گھربیٹھے امراض کودعوت
دے رہے ہیں۔پیغمبراسلام ﷺکے فرمان کامفہوم ہیکہ وقت اور صحت کے جانے کے بعد
ہی انسان کواس کی قدروقیمت کا اندازہ ہوتاہے۔اﷲ پاک قرآن مقدس میں
فرماتاہے۔ترجمہ:اور اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑو(البقرہ،پارہ 2،آیت
195)اسلام نے ایسی چیزوں سے دور رہنے کا حکم دیا ہے جو انسان کی ہلاکت کا
باعث ہو۔ شریعت اسلامیہ میں ان چیزوں کا کھانا ،پینا حرام یا کم از کم
مکروہ ہے جو انسان کی صحت یا عقل کے لئے نقصان دہ ہو۔مصطفی جان رحمت ﷺنے
وحی ربانی کے ذریعے ہمیں جوہدایات دی ہیں ان سے بجاطور پر یہ ثابت ہوتاہے
کہ انسان کی اپنی ذات اور اعضااس کی اپنی ملک نہیں بلکہ یہ سب خالق کائنات
کی ملک ہیں جوحضرت انسان کے پاس اﷲ کی امانت ہیں ۔اس لیے کوئی بھی انسان
اپنی ذات یااعضا کے تعلق سے ایسا کوئی تصرف نہیں کرسکتاجسے عقل سلیم امانت
میں خیانت تصور کرے۔ |
|
Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.