حقیقت یہی ہے کہ ہمارے آباؤاجداد نے بڑی قربانیاں دے کر
یہ ملک حاصل کیا، لیکن ہم نے اس کو کس نہج پر لا کھڑا کیاہے،یہ دیکھ کر
شاید ان شہیدوں کی روحیں تڑپتی ہوں گی،جنہوں نے اسے بنانے اور بچانے کے لئے
اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ یہ نظریاتی ملک تھا۔یہاں ہر شخص نے
آزاد،خودمختار ، باوقار زندگی گزارنے ، بنیادی حقوق اورانصاف ملنے کا خواب
دیکھا تھا ۔سوچا تھا کہ اپنی محنت،قابلیت اور لگن سے دنیا میں اپنے آپ کو
منوائیں گے،امیر اور غریب یکساں ہوں گے۔ ہر کسی کوتعلیم،صحت،روزگار برابری
کی بنیادوں پر میسر ہوگا، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ نہ نظریہ رہا، نہ آزادی اور
نہ ہی بنیادی حقوق میسر آئے۔
ملک پر مسلط حکمرانوں نے حکومت حاصل کرنے کے لئے سیاسی کھیل کھیلنا شروع
کردیا۔ اس کھیل میں کوئی اصول وضع نہیں کیا گیا۔ہر غیر اخلاقی،غیر قانونی
اور انسانیت سے ہٹ کر ہوس اقتدار میں اتنا آگے بڑھ گئے کہ انہیں یہ احساس
تک نہ رہا کہ عوام جن پر وہ حکمرانی کررہے ہیں، انہیں اور کچھ نہیں تو
بنیادی حقوق تو دیئے جائیں،مگر انہیں اس سے غرض ہی نہیں کہ عوام کے مسائل
کس قدر گمبھیر ہیں،بس وہ اپنے اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں۔
یہ تمہید باندھنے کی وجہ عوام کے بنیادی مسائل میں ایک صحت کا ہے، جو ریاست
کی ذمہ داری ہے۔ جس ریاست کے عوام صحت مند ہوگے ،وہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے
کار لاکر ملک وقوم کی خدمت کرسکیں گے ۔ دنیا میں مسائل کس ملک میں نہیں ہیں
،لیکن انہوں نے ترقی دوبنیادوں پر کی ہے، صحت اور تعلیم۔ ایشیا میں سری
لنکا کی مثال ہی لے لیں۔ وہاں کے مسائل ہم سے کم نہیں تھے، دہشتگردی انتہا
پر تھی، گھر سے نکلنے والا کوئی بھی شخص واپسی کی امید نہیں رکھتا تھا
،لیکن وہاں کے حکمرانوں نے تعلیم اور صحت پرکبھی مفاہمت نہیں کی۔
نام نہاد سیاسی رہنماؤں نے ملک کی بنیادیں ہی کھوکھلی کردی ہیں۔ پرانا
جاگیردارانہ ذہن ختم نہیں ہوا۔وہ اپنے علاقے کے عوام کو تعلیم حاصل نہیں
کرنے دیتے ، تاکہ ان میں شعور پیدا نہ ہواور بغاوت نہ کرسکیں۔ انہیں صحت
مند نہیں ہونے دیتے کہ کہیں ان کی جسمانی طاقت مل کر ہماری طاقت کو للکار
نہ دے۔
67 سال کے بعد بھی اپنی اس قابل نہیں ہوئے کہ ہم آنے والی نسل کو یکساں
تعلیم اور مفت طبی سہولیات دے سکیں۔ جب کوئی بیماری بڑھ جاتی ہے تو میڈیا
اپنی خبر بناتا ہے، الیکٹرانک میڈیا اسے سیاسی ایشوء بنا کر حکومت پر تنقید
کرتا ہے۔ حکومت چند دن کچھ اقدامات کرتی ہے ،پھر وہی حال ہوجاتا ہے۔ ایسا
کبھی نہیں ہوا کہ آنے والی مصیبت کا پہلے سے اندازہ لگاتے ہوئے مناسب
انتظامات کئے جائیں۔ سیلاب آنے کے بعد پلاننگ شروع ہوتی ہے کہ اس سے کس طرح
نمٹا جائے۔ بیماری پھیلنے کے بعد سوچا جاتا ہے کہ اس کے تدارک کے انتظامات
کیسے کئے جائیں۔
ملیریا کی وباء پھیلی تو اس وقت سوچا گیا کہ اس سے کیسے نمٹا جائے۔ ڈینگی
کے سینکڑوں مریض مرے تو حکومت اور محکمہ صحت حرکت میں آئے۔ ہونا تو یہ
چاہئے کہ جب پہلا مریض سامنے آیا تھا، تو اس کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے
مستقبل کے لئے ہنگامی بنیادوں پر لائحہ عمل بنایا جاتا۔ کئی قیمتی انسانی
جانوں کے ضیاع کے بعد ہروہ اقدام کیا جو پہلے کرنا ضروری تھا۔
یوں تو پاکستان میں بہت سے امراض مختلف وجوہات کی وجہ سے پھیلتے ہیں ، جیسے
سرطان یعنی کینسر کا مرض ہے۔ جس کا ہسپتال شوکت خانم بناکر عمران خان نے نہ
صرف اپنا نام کمایابلکہ اپنی سیاسی قدر بڑھانے کے لئے خوب استعمال کیا۔ آج
وہ ملک کی تیسری بڑی پارٹی کے لیڈر ہیں۔ کینسر ایک جان لیوا مرض ہے۔ اسے لا
علاج مرض سمجھا جاتا تھا۔ مریض بھی موت کا انتظار کرتا ہے اور آخر تھوڑے
عرصے میں موت کے منہ میں چلا جاتا تھا ، مگر جدید دنیا نے کینسر کو لاعلاج
نہیں رہنے دیا۔ آج اس کا علاج ممکن ہے اور لاکھوں لوگ اس بیماری کا علاج
کروا کر نارمل زندگی گزار رہے ہیں۔
پاکستان میں یہ مرض تیزی سے پھیل رہاہے۔ مستقبل میں یہ ایک بہت بڑا مسئلہ
بن کر سامنے آنے والا ہے۔ یہ امیروں کا نہیں غریبوں کا مرض ہے۔ اس کی
ادویات انتہائی مہنگی ہیں، علاج کی سہولیات ناپید ہیں۔پنجاب میں ریکارڈ
مریضوں کی تعداد پونے دو لاکھ ہے،16 ٹیچنگ ہسپتالوں میں سے چار میں علاج
ہورہا ہے۔ پنجاب بھر میں صرف 8 سپشلسٹ ڈاکٹر ہیں۔ 46 میڈیکل کالجوں میں سے
4 کالجوں میں کینسر کی تعلیم دی جاتی ہے۔جن چار ہسپتالوں میں علاج ہورہا
ہے،وہاں ایسی ٹیکنالوجی نہیں ہے، جس سے بہتر علاج کرسکیں۔ان تمام ہسپتالوں
میں علاج ہونے والے مریضوں کی تعداد ان کے مطابق 30ہزار سالانہ ہے ۔ 3 لاکھ
75 ہزار کی ایک ماہ کی دوا ئی آتی ہے۔ اس کا کورس 12 ماہ کے لئے ہوتا ہے،
یہ رقم تقریباً 42 لاکھ بن جاتی ہے۔ اتنی رقم غریب کہاں سے لائے گا، وہ تو
موت کو سینے سے لگائے گا۔
ایک سروے کے مطابق 15 فیصد ہیپاٹائیٹس کے مریض ہیں، لیکن حقیقت میں ان کی
تعداد زیادہ ہے۔ ہیپاٹائیٹس کا آخر کینسر ہے۔ غیر صحت مندانہ لائف سٹائل کی
وجہ سے پھیپھڑوں،منہ اور بڑی آنت کا کینسر عام ہے ،مگر حکومت کی اس مسئلے
کی طرف کوئی توجہ نہیں ہے۔ انڈیا نے ریسرچ کرکے کینسر کی دوائی کو صرف دس
ہزار میں بنالیا ہے۔ کیا ہم نہیں بنا سکتے ……؟ہم ایٹم اور میزائل بنا سکتے
ہیں، تو یہ بھی کوئی بڑا مسئلہ نہیں ،چونکہ حکمرانوں کے خاندانوں کے افراد
علاج دوسرے ممالک سے کروالیتے ہیں،وہ پاکستانی غریب عوام کا کیوں سوچیں۔
یہاں سڑکیں اورپُل تو بنائے جارہے ہیں لیکن کسی انسان کی زندگی بچانے کے
لئے کچھ نہیں کیا جارہا ۔ دھرنوں،نئی آزادی ، انقلاب کے نعرے لگائے تو جا
رہے ہیں مگر درحقیقت انہیں صرف اپنے اقتدار کی خواہش ہے،اس کے لئے وہ عوام
کو جب چاہیں استعمال کرتے ہیں اور عوام اس کے لئے بخوشی راضی بھی ہوجاتے
ہیں ۔یہی حکمرانوں کی حقیقت ہے ،یہی ان کا طرزِ حکمرانی ہے ……! |