اکثر و بیشتر الیکٹرونک و پرنٹ میڈیا پر آزادی
،جمہوریت و انقلاب پر بحث ہوتی رہتی ہے ،اورآج کل لفظ ’’ انقلاب ‘‘ تو جیسے
تعلیم یافتہ لوگوں کے زیر عتاب ہے، اﷲ اس پر رحم کرے ۔ہر کوئی اپنے مخصوص
انداز ،سوچ و فکر کے مطابق اس کی توجیح و تشریح میں مشغول ہے ،شائد اس لفظ
کی حرمت سے نابلد لوگ اس کا تمسخر اڑانے میں بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے ۔
’’انقلاب ‘‘ قلب سے ماخوذ ہے ۔۔۔قلب عربی لفظ ہے اور اس کے معنی’’ دل‘‘ کے
ہیں ۔’’انقلاب‘‘ دل کا یکسرپلٹ جانا ،بدل جانا ،جب دل پلٹ جائے ۔۔۔بدل جائے
توساتھ بہت کچھ بدل جایا کرتا ہے ،دل ایک ہو یا سینکڑوں ،ہزاروں ،لاکھوں
۔۔۔جہاں تک۔۔۔جس حدتک ۔۔۔جس انداز سے اور کن عوامل و افعال سے بدل جائیں
،ان کے بدلتے ہی وہاں کے تمام رسم و رواج ،قوائد و ضوابط بھی یکسر بدل جاتے
ہیں اس عمل کو انقلاب کہتے ہیں ۔دنیا میں جتنے بھی انقلاب’’تبدیلیاں‘‘ آئی
ہیں دلوں کے پلٹ جانے سے ،بدل جانے سے ہی ممکن ہوا ،چاہیے وہ ملک و قوم کی
سطح پر ہی کیوں ناں ہو۔۔۔دنیا میں برپا ہونے والی ہر چھوٹی بڑی تبدیلی
’’انقلاب‘‘ ہی ہے ،اس لئے اسے کسی مخصوص دائرہ میں دیکھنا قطعی نا مناسب ہے
۔انقلاب پر تشدد بھی ہوتے ہیں اور پرامن بھی۔۔۔ مکمل بھی ہوتے ہیں اور
نامکمل بھی ۔۔۔گاؤں کی حد تک بھی اور ملک و قوم کی سطح پر بھی ۔۔۔جہاں بھی
جس حد تک جس طرز کی کوئی تبدیلی آئے اسے انقلاب کہا جا سکتا ہے البتہ ایک
ایسی تبدیلی جو پورے ملک کے سیاسی ،ثقافتی ،معاشرتی و آئینی ڈھانچے کو یکسر
بدل دے اسے اس ملک کا مکمل ’’انقلاب ‘‘کہیں گے چہ جائیکہ وہ پرامن ہو یا اس
تبدیلی کے دوران انسانی جانوں کا ضیاء ہو ا ہو تو وہ خونی انقلاب کہلائے گا
۔
پاکستان میں تیسرے مارشل لاء کے بعد انتخابی عمل کا آغاز ہوا تب سے آج تک
جتنے انتخابات ہوئے اور ان کے نتیجہ میں جو سیاسی کلچر پروان چڑھا،اسکے
تصور سے ہی کسی بھی باضمیر وصاحب عقل و دانش کا دل چند لمحوں کے لئے دھڑکنا
بھول جائے ۔اس سیاسی عمل کے نتیجہ میں دو بڑی جماعتیں ابھر کر سامنے آئیں
جن کی قیادت سرمایہ دار اور وڈیرے کے ہاتھ میں رہی ہے ۔دونوں کا طریقہ
واردات بھی ایک جیسا ہی رہا ،پارٹی عہدوں سے لے کر ،پارٹی ٹکٹ ،وزارتیں
،ملازمتیں ،سفارتیں حتیٰ کے ہر سطح پر خرید وفروخت کا رواج عام ہوا ،تھانے
بکے عدالتیں بک گئیں ۔۔۔پولیس،تعلیم،صحت،عدل و انصاف جیسے مقدس و مقدم
اداروں میں اپنے جاہل و گنوار پارٹی ورکروں کو ایڈجیسٹ کیا گیااداروں کی
تما م آسامیوں کو سیاسی وابستگی کی بنیاد پر لوٹ کا مال سمجھ کر تقسیم کیا
جاتا رہا۔ایس پی ،ڈی سی،استاد ،جج،پٹواری و تحصیلدار کے دم سے ووٹ بینک میں
اضافہ ہی ناں کیا بلکہ ووٹر کو سدا کے لئے یرغمال بنا دیا گیا ،انصاف بکا
اور غریبوں کے جذبات بکتے رہے ۔ووٹر بکے ممبر بکے حتیٰ کے پوری قوم کی غیرت
کو سرعام نیلام کرنے کی بھی ریت پڑھی اور غیر ملکیوں کے ساتھ بھی اپنے
ہموطنوں کے سودے ہوئے ۔۔۔اور اس طرح ان دو نے دونوں صوبوں کو یرغمال بنا
لیا اور ایسے حالات میں ہونے والے انتخابات میں جس نے زیادہ کاریگری دکھائی
وہ کامیاب ہوا اور شکست کھانے والے دھاندلی کا واویلہ کرتے کرتے خاموش ہو
جاتارہااور آئندہ وہ کسے کامیاب ہو اس کی منصوبہ بندی میں مگن ہو گیا اور
اس طرح بظاہر یہ جمہوری عمل اس ملک میں بڑے دو خاندانوں کا پسندیدہ مشغلہ
بن گیا اور وہ حکومت حکومت کا کھیل کھیلتے رہے ۔ملکی آئین کے باوجود عوام
بے بس و لاچار تمام تر شہری حقوق سے محروم ہوگئے ۔اس گھٹن زدہ ماحول کا سب
سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ بد عنوانی اعلیٰ سطح سے ہوتی ہوئی سوسائٹی کی جڑوں
تک پہنچ گئی ۔برائی کو برائی کہنا جرم بن گیا رول آف لاء کی بات کرنے والوں
کا تمسخر اڑایا جانے لگا ۔حتیٰ کے دن رات ملکی آئین کا واویلہ کرنے والے
خود یہ کہتے سنے گئے کہ اگر دفعہ ۶۲،۶۳ کا نفاذ ہو تو پارلیمنٹ خالی ہو
جائے ۔اور اس بوسیدہ و چیچک زدہ نظام کے چلتے غریب غریب تر اور امیر امیر
تر ہوئے اورحکمراں اس ملک سے لوٹی ہوئی دولت کو دیار غیر میں منتقل کرتے
رہے ۔نتیجتاً مقامی کرنسی کی قیمت گرتی گئی اور مہنگائی بے قابو ہو گئی
،روزمرہ ضروریات کی ایشاء عام آدمی کی پہنچ سے دور ہوگئیں تو عام انسان کے
لئے کوئی راستہ ہی باقی نہ رہا کے وہ بھی اس کرپٹ ترین نظام کا حصہ بن جائے
۔
دنیا کے کسی بھی ملک میں جہاں جمہوریت ہو وہاں ایسا کبھی نہیں ہوتا
،جمہوریت پسند ممالک میں صحت ،تعلیم ،امن وامان و عدل و انصاف جیسے بنیادی
شہری و انسانی حقوق مساوی بنیادوں پر ملتے ہیں ،لیکن کیا کیجئے جمہوری
ممالک میں ایک کتے کوبیجا ہلاک کرنے کے جرم میں چھ ماہ قید کی سزا ملتی ہے
اور یہاں ریاست کی گولی سے بیسیوں لوگ ہلاک کر دئیے جاتے ہیں مگر ایف آئی
آر ہی درج نہیں ہو پاتی ۔۔۔اس ایف آئی آر کے اندراج کے لئے بیس ہزار لوگ
احتجاج کرتے کرتے ملک کی پارلیمنٹ کے سامنے جا کر مہینوں چلچلاتی دھوپ
وطوفان باد باران میں کھڑے فریاد کرتے ہیں ۔۔۔پھر بھی انصاف نہیں ملتا
۔۔۔اور جواب میں ’’ہیڈ کاؤنٹنگ ‘‘ اعدادو شمار کے جھمیلے ۔۔۔اور کہا جاتا
ہے کہ کہ چند ہزار لوگ پارلیمنٹ کی اکثریت کو چیلنج نہیں کر سکتے ۔۔۔ان سے
سوال یہ ہے کہ جو ۔۔۔چند ہزار ہوتے ہیں کیا وہ جمہور نہیں ہوتے ۔۔۔؟ان کے
شہری حقوق نہیں ہوتے۔۔۔؟پاکستانی سیاست کاروں کے اس روئیے نے ارد گرد کے
لوگوں کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے ۔۔۔دنیا دیکھ رہی ہے اور اس
ریجن کے اہم ترین ایشو ’’مسئلہ کشمیر‘‘ جس کا پاکستان بھی ایک فریق ہے اور
کبھی کبھار ریاست کے حق خود ارادیت کی بات کہتا رہتا ہے دنیا سوال کرتی ہے
کہ جو اپنے ہی لوگوں کا استحصال کرتے ہیں انہیں حقوق دینے سے انکاری ہیں
انہیں غلام بنا کر رکھنا چاہتے ہیں وہ ریاست جموں کشمیر کے عوام کو ان کا
حق خود ارادیت دلانے میں کیا کردار ادا کر سکتے ہیں؟ یہ اس صدی کا ایک اہم
ترین سوال بن چکا ہے ۔۔۔یہ وہ عوامل ہیں جن کی بدولت عوام کی ایک بڑی تعداد
نے اس نظام کو للکارہ ۔ان کا طریقہ کار غلط ہو سکتا ہے ان کا رویہ غلط ہو
سکتا ہے لیکن ۔۔۔ان کا مطالبہ ایک سو بیس فیصد مبنی بر حق ہے۔اور ان کی
موجودہ تحریک منتقی انجام کو پہنچے ناں سہی ،کوئی بڑا ہدف حاصل کر پائے ناں
سیہی مگر اس تحریک نے اس ملک کے عام انسانوں کو ایک سیاسی بیداری عطا ء کر
دی ہے انہیں ان کے حقوق سے آشنا کر دیا ہے انہیں یہ بھی بتا دیا ہے کے
تمارے ملک کے اداروں کے فرائض کیا ہیں اور انہیں کیسے کام کرنا چاہیے ۔اور
یہ بھی کے تمارے ملک کے حکمراں تمارے خدمتگار ہوں مالک نہیں ۔اور بلا شعبہ
یہ اہداف یہ بحث جسے ہر دور میں شجر ممنوع سمجھا جاتا رہا ،آج ہر گلی محلے
کی شان ہے یہ بہت بڑی تبدیلی ہے یہ بھی ایک’’ انقلاب‘‘ ہے ۔اور آج وہ
تمام’’اسٹیٹس کوہ ‘‘سے جڑی قوتیں جو اس موجودہ نظام کی مہمار تھیں اپنے
مفادات کو لاحق خطرات دیکھ کر یک جان ہوئے اور جمہوریت کا نعرہ بلند کیا
،لیکن جمہوریت محض اکثریت کا نام نہیں ہے ۔ |