پیپلز پارٹی کے اکثر وزراء یہ کہتے پائے
جاتے ہیں کہ جب بھی کبھی ملک عزیز سے آمریت کے سائے ڈھلتے ہیں اور پیپلز
پارٹی بر سر اقتدار آتی ہے تو کچھ مخصوص حلقے اس کے خلاف زہریلا پراپیگنڈہ
شروع کر دیتے ہیں اور حکومت کا تختہ الٹانے کی کوششیں شروع ہوجاتی ہیں،
پیپلز پارٹی سے وابستہ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ خاص حلقے نہیں چاہتے کہ
پاکستان میں پیپلز پارٹی کی حکومت اپنی مدت پوری کرے اس لئے وہ پہلے دن سے
ہی افراتفری پھیلانے کی کوششیں کرتے ہیں اور ”چھوٹے چھوٹے“ ایشوز کو بڑا
کرتے رہتے ہیں۔ ان لیڈران کرام کا اکثر و بیشتر فرمان ہوتا ہے کہ ابھی ہمیں
حکومت سنبھالے عرصہ ہی کتنا ہوا ہے؟ جب ہماری حکومت برسر اقتدار آئی تو اس
کو ورثے میں بہت سے مسائل بھی ساتھ ملے اور ان تمام مسائل سے نبرد آزما
ہونے کے لئے کچھ وقت تو درکار ہوتا ہے، آخر عوام اور ان مخصوص حلقوں کو
اتنی جلدی کس بات کی ہے؟ اگر وہ آٹھ سال سے یہ مسائل برداشت کرتے چلے آرہے
ہیں تو کیا وہ اپنی جمہوری حکومت کو تھوڑا سا وقت نہیں دے سکتے؟
متذکرہ بالا اصحاب کی بات میں یقیناً وزن موجود ہے کہ اگر قوم آمریت کے
عفریت کو آٹھ سال تک برداشت کر سکتی ہے، اگر سابقہ دور آمریت میں مہنگائی
کے دیو، لوڈ شیڈنگ کے جن اور امن امان کے پیچھے ہاتھ دھوکر پڑی ہوئی بلاﺅں
سے مقابلہ کرسکتے ہیں تو اب بھی تھوڑا سا صبر کرنا چاہئے، آخر ”آپ کی اپنی“
اور ”جمہوری“ حکومت کو اقتدار سنبھالے عرصہ ہی کتنا ہوا ہے؟ جمعہ جمعہ آٹھ
دن ہوئے ہیں اور آپ حکومت کے خلاف لٹھ لے کر اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ جواباً
عوام الناس کی اکثریت یہ کہتی ہے کہ ہم حالات کو سدھارنے کے لئے حکومت کو
”صدیاں“ وقت دینے کو تیار ہیں لیکن وہ کسی بھی لحاظ سے ہمیں ”اپنی“ اور
”جمہوری“ نظر تو آئے۔ کسی بھی سفر کو مکمل کرنے اور منزل پر پہنچنے کے لئے
ضروری ہے کہ اس کا آغاز کیا جائے اور صحیح سمت کا تعین کیا جائے۔ اگر ایک
شخص کو لاہور سے کراچی جانا ہو، وہ ریلوے سٹیشن پر پہنچ جائے، ٹکٹ بھی حاصل
کر لے اور وہیں سٹیشن پر ہی بیٹھا رہے تو وہ کبھی اپنی منزل پر نہیں پہنچ
سکتا، اسی طرح اگر وہ ٹکٹ حاصل کرنے کے بعد ٹرین پر سوار بھی ہوجائے لیکن
کراچی کی بجائے راولپنڈی کی ٹرین پر بیٹھ جائے تو وہ منزل کے حصول کی بجائے
لمحہ بہ لمحہ اس سے دور ہوتا جائے گا اور ایسے میں اگر وہ اپنے چاہنے والوں،
عزیز و اقارب سے موبائل فون پر بات بھی کررہا ہو اور انہیں صبر کا مشورہ
بھی دے رہا ہو کہ اتنی جلدی کیا ہے، ابھی تو میں نے سفر شروع کیا ہے، منزل
پر پہنچنے میں کچھ وقت تو لگے گا، تو اس کی سادگی پر ہر کسی کا مرنے کو ہی
جی چاہ سکتا ہے!
جب سے موجودہ حکومت نے عنان اقتدار سنبھالا ہے اس نے پاکستان کو درپیش
چیلنجز سے نمٹنے اور نبرد آزما ہونے کے لئے ایک بھی قدم وقت پر نہیں اٹھایا،
جب پانی سر سے گزر جاتا ہے تو انہیں ہوش آتا ہے، پاکستان کو درپیش سنجیدہ
اور فوری نوعیت کے مسائل کے حل کے لئے حکومت کی چال انتہائی سست اور اس کی
”باڈی لینگوئج“ کسی شکست زدہ کھلاڑی کی سی ہے جس کو اپنی ہار کا صد فیصد
یقین ہوتا ہے اور جس کے دل میں نہ تو جیت کی لگن ہوتی ہے نہ اس کی افعال
میں کسی قسم کی چستی نظر آتی ہے۔ حکومت شروع دن سے ہی ”این آر او“ زدہ نیم
جان وزراء کے ہاتھوں میں کھیل رہی ہے اور اسے اپنی شکست کے حصول کی اتنی ہی
جلدی نظر آرہی ہے جتنی واش روم کے باہر کھڑے کسی بے چین شخص کو ہوتی ہے جو
بار بار دروازہ پیٹ رہا ہوتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کا دور حکومت تو میں نے
نہیں دیکھا لیکن اس کے دو خالص بھٹو حکومتیں اور موجودہ ”زردار“ ملاوٹ شدہ
بھٹو حکومت کو دیکھ کر یہی محسوس ہوتا ہے کہ اصل میں جلدی پیپلز پارٹی
مخالفین یا عوام کو نہیں ہوتی بلکہ اصل جلدی ہمیشہ پیپلز پارٹی کی حکومتیں
دکھاتی رہی ہیں۔ جو کام ایک آمرانہ حکومت اپنے دور کے آخری حصہ میں عوامی
رائے عامہ کے مخالفانہ جذبات کی وجہ سے کرتی ہے وہی کام پیپلز پارٹی کی
حکومت اپنے دور کے شروع میں عوام کے جذبات کو مخالفانہ رنگ دینے کے لئے
سرانجام دیتی ہے۔ سابقہ دور کی مثال ہی لے لیجئے، مشرف کا دور پاکستان کی
تاریخ کا ایک انتہائی سیاہ باب تھا، اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے
لیکن اس دور حکومت میں اس وقت کے وزیر اطلاعات شیخ رشید نے بے شمار ٹی وی
چینلز کا اجراء کیا اور نشریات کی اجازت دی۔ وہ گروپ جو پہلے دبئی، ہانگ
کانگ اور یو کے سے اپنی نشریات جاری کرنے پر مجبور تھے اور عوام کی اکثریت
انہیں دیکھنے سے محروم رہا کرتی تھی انہی گروپوں کو پاکستان سے نشریات کی
اجازت دی گئی اور ان نشریات تک عوام کی آسان رسائی ممکن ہوسکی اور اسی
”آگاہی“ کی نعمت نے جب مشرف کے لئے زحمت کا روپ دھار لیا تو اس نے اپنے
”آخری“ وقت میں میڈیا پر پابندیاں لگانا شروع کر دیں لیکن کوئی بھی پابندی
میڈیا کو حق کی آواز دکھانے اور سنانے سے نہ روک سکی البتہ وہ آمر اپنی
سیاہیوں اور تیرہ بختیوں کے نشانات یہاں چھوڑ کر خود ”اڑن چھو“ ہوگیا، اس
کے کئے گئے اعمال اور افعال کو آج تک یہ قوم بھگت رہی ہے اور نہ جانے کب تک
بھگتتی رہے!
بات ہو رہی تھی جلدی کی، تو عوام کی اکثریت کی سمجھ سے یہ امر بالاتر ہے کہ
آخر ہر بار پیپلز پارٹی کی حکومت کو اتنی جلدی کیوں ہوتی ہے؟ جو کام مشرف
نے سات سال بعد کیا، وہی کارنامہ موجودہ حکومت نے دوسرے ہی سال میں انجام
دے دیا، پہلے بھی میڈیا پر پابندیوں کی بات کی گئی، پارلیمنٹ میں بعض ٹی وی
چینلز پر سچ بولنے اور حکومت کے عوام دشمن اقدامات کی بابت عوام کو آگاہی
کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور اب ایک بار پھر ”زردار“ حکومت کے
غصہ کا شکار ہوا ڈاکٹر شاہد مسعود کا پروگرام ”میرے مطابق“! کیا حکومت نے
یہ کام ذرا زیادہ ہی جلدی نہیں کرلیا؟ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مذکورہ بالا
پروگرام میں جن امور کی جانب توجہ دلائی جاتی تھی وہ بالکل صحیح اور سچ تھے،
ڈاکٹر صاحب کو بھی ذہن میں رکھنا چاہئے کہ سچ بولنے کی بعض اوقات (آجکل
اکثر اوقات) بہت بڑی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ لیکن ایک بات جو یقینی اور
مسلمہ ہے کہ حق کو جتنا دبایا جائے وہ اتنا ہی ابھرتا ہے۔ اس ملک کے عوام
اب بہت کچھ سمجھ چکے ہیں اور بہت کچھ سمجھ رہے ہیں، انہیں اپنے حقوق کا
ادراک ہوگیا ہے، انہیں ان کے حقوق سے اب مزید محروم رکھنا اتنا آسان نہیں
ہے، پاکستانی عوام موجودہ حکومت کو معقول وقت دے چکے ہیں اور تھوڑا بہت وقت
اور بھی دے سکتے ہیں لیکن شرط وہی ہے کہ حکومت ان معاملات میں جلدی کرے جن
کا تعلق اس ملک اور اس کے عوام سے ہے، ان مسائل کے حل میں عجلت دکھائے جو
یہاں کے لوگوں کے مسائل ہیں، یہاں سے کرپشن اور ”کرپشن کی ماں “این آر او
اور اس سے ملتے جلتے مجوزہ قوانین کو یکسر ختم کرے، غریب کو بھی زندہ رہنے
کا حق دے اور اس حق کے تسلسل میں ضروریات زندگی جو ریاست کی ذمہ داری ہوتی
ہیں وہ فراہم کرے۔ امریکہ کی غلامی چھوڑے، امریکی امداد کو ٹھوکر مارے،
حکومتی زعماء خود قربانی دیں، اپنا رہن سہن سادہ بنائیں، اپنا سرمایہ
پاکستان میں لائیں، اس ملک اور عوام کی بہتری کے لئے جان لڑائیں اور یہ قوم
روکھی سوکھی کھا کر، بجلی، پانی، گیس اور دیگر سہولیات کی کمی کو بھی
برداشت کر لے گی لیکن ایسے امور میں روایتی تساہل سے کام لیا جاتا رہا اور
لوگوں سچ بتانے کے جرم میں سچ اور حق کی آواز کو دبانے اور بند کرنی کی
جلدی کی گئی تو یقین رکھیں کہ ایسی جلدیاں ہی اس حکومت کی جلد رخصت کا باعث
بن جائیں گی! کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا؟ |