بغاوت پر ریاست کے فرائض

قرآن کریم میں ارشاد ہے کہ "جس شخص نے کسی ایک انسان کو قتل کیا ، بغیر اس کے کہ اس سے کسی جان کا بدلہ لینا ہو ، یا وہ زمین میں فساد برپا کرنے کا مجرم ہو ، اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کردیا ،( سورۃ المائدہ آیت ۳۲)۔۔حضرت علی رضی اﷲ تعالی عنہ کے زمانے میں خارجیوں کا طرز عمل جیسا کچھ تھا وہ تاریخ کے طالب علموں سے چھپا ہوا نہیں ہے وہ اعلانیہ آپ کو گالیاں دیتے تھے ، قتل تک کردینے کی آپ کو دہمکیاں دیتے تھے(نعوذ باﷲ) ، مگر ان باتوں پر جب کبھی ان کو پکڑا گیا تو آپ نے انہیں چھوڑ دیا اور اپنی حکومت کے افسروں سے فرمایاکہ"جب تک وہ باغیانہ کاروائیاں نہیں کرتے محض مخالفت اور دہمکیاں ایسی چیز نہیں ہیں جن کی وجہ سے ان پر ہاتھ ڈالا جائے۔"

ایک اپوزیشن کے ساتھ خلفیہ اسلام کے اس رویئے کا تصور موجودہ جمہوری نظام سے نہیں کیا جا سکتا کہ جتنی آزادی اسلام نے اپوزیشن کو دی ہے اتنی آزادی کسی بھی نظام میں ممکن نہیں ہے۔ جب تک بات صرف زبانی حد تک رہی تو تحمل و برداشت کا مظاہرہ کیا گیا لیکن جب باقاعدہ جنگی کاروائیاں کیں تو آپ نے ان کے خلاف تلوار اٹھائی اور با الآخر ایک خارجی نے ہی آپ کو شہید کردیا۔حقوق انسانی کا یہ تصور اسلام نے سینکڑوں برسوں سے انسانیت کو دیا ہے، لیکن جب حقوق انسانی کے حوالے سے وائٹ ہاؤس اور برطانوی وزیر اعظم کی رہائش گاہ یا مغرب کا حوالہ دئیے جاتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے کہ حقوق انسانی کے حوالے سے انھیں اسلام کے جید خلفا ء وحکمرانوں کی مثالیں کیوں یاد نہیں آتی ، حالاں کہ یہ نعمت اسلام کے ذریعے پوری دنیا کو ملی ورنہ دنیا ان چیزوں سے نا آشنا اور نری جہالیت میں مبتلا تھی ، حقوق انسانی کے حوالے سے تصور انگلستان کے میگنا کارٹا کے ذریعے نصیب ہوا اگر چہ پھر بھی وہ اسلام کے چھ سو برس کے بعد کی چیز ہے لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ سترہویں صدی کے قانون دانوں سے پہلے کسی کے ذہن میں یہ تصور موجود نہ تھا کہ میگنا کارٹا میں ٹرائل بائی جیوری ، ہینسیس کارپس ((Haabeas Corpusاور ٹیکس لگانے کے اختیارات پر پارلیمنٹ کے کنٹرول کے حقوق بھی شامل ہیں ۔جبکہ اسلام میں انسانی حقوق کی بات کی جائے تو اس کے معنی یہی ہوتے ہیں کہ یہ حقوق اﷲ کی جانب سے عائد کئے گئے ہیں یہ کسی بادشاہ یا کسی مجلس قانون ساز کے دئیے ہوئے نہیں ہیں کہ جب چاہیے ان کو واپس لے لیا جائے یا ان میں بزعم خواہش تبدیلی لائی جائے ، دنیا کی کوئی مجلس قانون ساز اور دنیا کی کوئی حکومت ان کے اندر ردوبدل کرنے کی مجاز نہیں ہے ان کو واپس لینے یا منسوخ کردینے کا کوئی حق کسی کو حاصل نہیں ہے۔

پاکستان میں حقوق کے نام پر جس طرح کا انتشار پیدا کا جاچکا ہے اس سے پوری مملکت میں انارکی کی ایک کیفیت پیدا ہوچکی ہے اور اس کا لازمی نتیجہ تصادم کی صورت میں نکلتا ہے ۔ اسلام آباد میں سترہ دنوں سے جن اشتعال انگیز تقاریر کے ذریعے حکومت کو دباؤ میں لانے کی کوشش کی جا رہی تھی اس کا لازمی نتیجہ یہی نکلنا تھا جو اسلام آباد میں نکلا ۔ کوئی بھی باشعور انسان یہ نہیں کہہ سکتا کہ دونوں جماعتوں کے دھرنوں کے قائدین نے انسانی حقوق کے حوالے سے اس بات کا خیال رکھا ہو کہ ان کی تقاریر سے معاشرے میں کس قدر فرسٹریشن پیدا ہو رہی ہے اور اس کے نتائج کس قدر ہولناک ہوسکتے ہیں۔جمہوری نظام ، یقینی طور پر اسلامی نظام سے متصادم ہے اور اس کے اکثریتی امور و احکام اسلام سے متصادم ہیں ، لیکن ایسے ایک عبوری دور کا نام دیا جا سکتا ہے کہ اسلام کے نام پر حاصل کی گئی سرزمین پر اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کا نظام اس لئے نافذ نہیں ہوسکا کیونکہ مملکت میں مختلف فرقوں و مسالک کی وجہ سے ممکن نہیں تھا کہ کس مخصوص مسلک و فرقے کے عقائد پر مبنی نظام نافذ کیا جائے لیکن یہ ضرور ہو سکتا تھا کہ جن باتوں پر تمام مکاتب فکر کا اجماع ہو انھیں اسلامی طرز معاشرت کے نام پر نافذ کیا جاسکتا تھا لیکن بد قسمتی سے اسلامی نظریاتی کونسل کی دی گئی سفارشات کو اہمیت نہیں دی جاتی اور مغربی طرز حاکمیت کی بنا ء پر ہماری تمام تر توجہ یہود و نصاری کی خوشنودی تک ہی محدود ہے۔

اسلام میں ایسے گروہ یا فرد کے متعلق واضح طور پر فرما دیا گیا کہ جو اصلاح کے نام پر مملکت میں فساد پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے وہ اسلام کے قوانین کی کس قدر خلاف ورزی کرتا ہے۔اس لئے اس میں کوئی دو رائے نہیں ہونی چاہیے کہ ہم اسلام کے زریں اصولوں کو چھوڑ کر جب مغرب کو اپنا آئیڈیل بنا لیں تو اس قوم کے لیڈروں کے ساتھ ان کے پیروکار بھی سوائے تباہی کے کوئی اور تحفہ نہیں دے سکتے۔پاکستان میں جب کسی خاص مکتبہ فکر نے اسلام کے نام پر جبری طور پر ایک ایسے نظام کے نفاذ کیلئے مسلح تحریک کا سلسلہ شروع کیا تو اس سے معاشرے میں عدم استحکام پیدا ہوا اور شدت پسندی کے رجحان کو فروغ حاصل ہوا ۔جب ان کا طرز عمل تمام حدود سے تجاوز کرگیا تو ان کے خلاف فساد فی الارض کے جرم میں بھرپور ریاستی طاقت کا استعمال کیا گیا جس کے نتیجے میں لاکھوں انسانوں کو بنا کسی جرم کے نقل مکانی بھی کرنا پڑیں ، ان کے گھر بار گولہ بارود کے نذر ہوگئے ان کے معاشی وسائل تباہ و برباد ہوگئے لیکن ریاست کی جانب سے اٹھائے گئے اقدام پر ان کی جانب سے صدائے احتجاج بلند نہیں ہوئی حالاں کہ ایک ہی مملکت کے شہریوں کو ایک صوبے سے دوسرے صوبے جانے سے روکنے کیلئے احتجاج ، مظاہرے ،ریلیاں اور ہڑتالیں کیں گئیں اور آج بھی کسمپرسی کے عالم میں لاکھوں انسان ریاست کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں ان کے تمام حقوق انسانی سلب ہوچکے ہیں اور وہ اپنے معصوم بچوں اور پردے دار خواتین کے ساتھ انتہائی تکلیف دہ زندگی گذار رہے ہیں۔سوات ، جنوبی وزیرستان پھر شمالی وزیرستان میں عسکری قوت کی جانب سے بھرپور طاقت کا مظاہرہ اس لئے کیا گیا کیونکہ چند ناعاقبت اندیش افراد اور گروہ کی جانب سے حکومت کی رٹ کو چیلنج کیا گیا اور ریاستی اداروں پر حملے کرکے ریاست کی قوت کی رٹ کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی گئی جس کے بعد یہ ناگزیر ہوگیا کہ ان عناصر کے خلاف ریاست بھرپور قوت کا مظاہرہ کرے اور انھیں ریاست کی رٹ تسلیم کرنی پڑے ۔ جس کے نتیجے میں لاکھوں افراد نے عسکری قوت کے ساتھ ملکر قربانیوں کی مثال قائم کی اور اپنے آبا و اجداد کی سر زمین کو عسکری اداروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ۔ یہ ان کی پاکستان سے محبت ہی تھی جس پر انھوں نے اپنے مفادات و آسائش پر ترجیح دی اور نقل مکانی اختیار کی اب انھیں نہیں معلوم کہ ان کے حقوق کب بحال ہونگے ۔ در بدر اور بے سرو ساماں یہ لاکھوں افراد ، صدیوں کی روایات اور ثقافت کے امین ہیں اور تاریخ گواہ ہے کہ جبری طور پر ہزاروں سال سے ان پر کوئی حکمرانی نہیں کرسکا ، لیکن ان کے نزدیک حب الوطنی اولین ترجیح تھی اس لئے انھوں نے حکومت کے ساتھ تعاون کیا ۔

اسلام آباد میں بھی ریاست کے اداروں کو یرغمال بنالیا گیا ، ریاستی اداروں کی رٹ کو چیلنج کیا اور چند ہزار کے مجمع نے اپنے نظریئے کے مطابق من پسند نظام لانے کی کوشش کی جس پر ان کا تصادم ریاست کے اداروں سے ہے ۔ ان کے بیانات و تقاریر میں ریاست کے خلاف بغاوت ہے اور ملک میں جاری نظام کو یہ نہیں مانتے تو اس کے ساتھ ہی وہ ایک ایسے نظام کا نفاذ چاہتے ہیں جس کی اساس مغرب ہے ،اسلامی قوانین و اصول نہیں ہیں ۔ مسلکی رنگ واضح اور تفکیریت و فرقہ ورایت کی مکمل غمازی ہے جس سے مملکت کے دوسری اکائیوں میں بے چینی کا پیدا ہونا فطری امر ہے۔جب تک ان کی تقاریر اپنی تمام تر اشتعال انگیزیوں کے ساتھ زبانی حد تک تھیں تو اس وقت تک حکومت کی جانب سے صبر و تحمل ایک مناسب حد تک ٹھیک تھا لیکن جب ریاست کے خلاف کھلی بغاوت کے طور پر اداروں پر قبضہ کرنے کی کوشش میں تصادم ہوگیا اور دنیانے یہ مظاہرہ براہ راست دیکھا تو اس کے بعد ریاست پر حجت تمام ہوجاتی ہے کہ سوات ، جنوبی وزیرستان و شمالی وزیرستان کی طرح مملکت کے دارالخلافے میں جارحیت کرنے والوں کے خلاف بھرپور طاقت استعمال کی جائے ۔قرآن کریم ، سنت رسول ﷺ اور اصحابہ اکرام رضوان اﷲ اجمعین کی تقلید ثابت کرتی ہے کہ ان عناصر کے خلاف ریاستی طاقت کا استعمال اس لئے واجب ہوگیا ہے کیونکہ انھوں نے اصلاح کے نام فساد فی الارض کی کوشش کی اور بے گناہ سرکاری اہلکاروں کی جان لینے کی کوشش کے ساتھ ریاستی عمارتوں پر قبضہ کرنے کی کوشش کی۔جس طرح فوج پاکستان کا قابل احترام ادارہ ہے اسی طرح رینجرز اور پولیس بھی پاکستان کے ادارے ہیں اور ان میں بھرتی و ڈیوٹی دینے والے کسی دوسری ملک کے دشمن نہیں ہے کہ انھیں ہلاک و تشدد کرنے کیلئے جارحیت و تشدد کا راستہ اختیار کیا جائے ان کا بھی وہی حق ہے جو دوسرے اداروں کا۔
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 744963 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.