بھارتی آبی دہشت گردی اور مودی کو آموں کا تحفہ

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

ملک بھر میں جاری شدید بارشوں اوربھارت کی طرف سے دریاؤں میں بہت زیادہ پانی چھوڑنے کی وجہ سے پنجاب و آزاد کشمیر کے مختلف شہروں و دیہاتوں میں زبردست تباہی کا سلسلہ جاری ہے۔ لاکھوں ایکڑ پر کھڑی فصلیں برباد ہو کر رہ گئی ہیں۔ سینکڑوں دیہات زیر آب ہیں اور ان کا زمینی رابطہ قریبی شہروں سے کٹ چکا ہے۔ جہلم اور چناب میں سازشی بھارت نے دس لاکھ کیوسک پانی چھوڑدیاجس سے دریاؤں کی طرح ندی نالوں میں زبردست طغیانی ہے۔پاک فوج کی طرف سے سیلاب متاثرہ علاقوں میں بھرپور امدادی سرگرمیاں جاری ہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف کی زیر صدارت بارشوں و سیلابی صورتحال پر ہنگامی اجلاس منعقد ہو ا جس میں وفاقی وزراء خواجہ محمد آصف، پرویز رشید اور دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔ اجلاس کے دوران این ڈی ایم اے نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایاکہ شدید بارشوں سے آزاد کشمیر، شمالی و مشرقی پنجاب میں سیلاب کی صورتحال پیدا ہوئی ہے۔وزیر اعظم نواز شریف نے پنجاب اور آزاد کشمیر کی حکومتوں کو نقصانات کا جائزہ لیکررپورٹ تیار کرنے اور متاثرین کی بحالی کا منصوبہ فوری طور پر تیار کرنے کی خصوصی ہدایات جاری کی ہیں۔

بھارت کی طرف سے دریاؤں میں پانی چھوڑنے اور بارشوں کے سبب سیلابوں کا آنا ہر سال کامعمول بنتا جارہا ہے ۔اس کی بڑی وجہ پاکستانی دریاؤں پر متنازعہ ڈیموں کی تعمیر اور پاکستان میں کالا باغ ڈیم جیسے منصوبوں پر عمل درآمد نہ کرنا ہے۔ جب بھارت نے سندھ طاس معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ڈیموں کی تعمیر شروع کی تھی تو اس وقت محب وطن حلقوں نے بہت شور کیا کہ اس آبی جارحیت کا فوری روکا جائے وگرنہ بھارت جب چاہے گا پانی روک کر پاکستان میں خشک سالی کی کیفیت اور جب چاہے گا دریاؤں میں یکدم پانی چھوڑ کر سیلاب کی صورتحال پیدا کر دے گا مگر ان باتوں کی طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ نائن الیون کے بعد بھارت نے اسرائیلی ماہرین اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے تعاون سے جنگی بنیادوں پر ڈیموں کی تعمیر مکمل کرنا شروع کی مگر پرویز مشرف اوربعد میں آنے والی حکومتیں خاموش تماشائی بنی رہیں بلکہ متنازعہ ڈیموں کی تعمیر کے مقدمات بھی عالمی ثالثی عدالت میں صحیح معنوں میں نہیں لڑے گئے اور بھارت سے یکطرفہ دوستی پروان چڑھانے کیلئے پاکستان کے اصل موقف کووہاں پیش ہی نہیں کیا گیا۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ جب پاکستان میں پانی کی ضرورت ہوتی ہے تو فصلوں کو پانی نہیں ملتا اور جب ضرورت نہیں ہوتی تو بھارت یکدم پانی چھوڑ کر ملک میں سیلاب کی صورتحال پیدا کر دیتا ہے۔ پاکستان کے وجود کو تسلیم نہ کرنے والا ازلی دشمن بھارت 2020ء تک تمام دریاؤں کے پانیوں کو اپنی حدود میں ذخیرہ کرنے کے منصوبہ پر عمل پیرا ہے جس کی تصدیق بھارتی انسٹی ٹیوشن آف انجینئرزنے نیپال کانفرنس2011ء میں بھی کی تھی۔انڈیا نے پن بجلی کی آڑ میں پاکستان کی طرف بہنے والے دریاؤں کے 56 ملین ایکڑ فٹ پانی کا رخ شمال سے جنوب کی طرف موڑنے کی مکمل صلاحیت حاصل کرلی ہے۔1961ء کے مقابلہ میں پاکستانی دریاؤں میں دو تہائی پانی کم ہو چکا ہے۔اس نے سندھ طاس معاہدہ کی آڑ میں پہلے پاکستان کی طرف بہنے والے مشرقی دریاؤں ستلج، بیاس اور راوی کا 33ملین ایکڑ فٹ پانی روکا اور 12بڑی نہریں نکال کر راجھستان کا غیر آباد بنجر علاقہ آباد کیا۔9ملین ایکڑ فٹ پانی مشرقی دریاؤں کی زندگی، آبی حیات، جنگلی جانوروں، چرند پرند اور ان دریاؤں کے کناروں پر عہد قدم سے آباد کروڑوں انسانوں کے پینے و دیگر گھریلو استعمال کے لئے مختص تھا وہ بھی روک لیا گیا حالانکہ یونیورسل ڈیکلریشن1948ء کے آرٹیکل 3کے تحت یہ پانی بھارت کسی معاہدے اور قانون کے تحت ہرگز نہیں روک سکتامگر کھلی جارحیت اور ہٹ دھرمی کے باوجود پاکستانی حکمرانوں نے اس مسئلہ پر مجرمانہ خاموشی اور غفلت کا مظاہرہ کیا۔کرپٹ بیوروکریسی اور حکومتوں کی وجہ سے بھارت کو دریاؤں پر غیر قانونی ڈیموں کی تعمیر کا موقع ملا اور وہ ابھی تک پاکستانی دریاؤں کے علاوہ مقبوضہ کشمیر سے پاکستان کی جانب بہنے والے ندی نالوں پر ڈیم تعمیر کر رہا ہے تاکہ پاکستانی پانی ایک ایک بوند کو ترسیں اور وہ بغیر جنگ لڑے اپنے مذموم مقاصد حاصل کر سکے۔عالمی ماہرین کی ایک جائزہ رپورٹ کے مطابق 1922ء سے 1961ء تک تقریباًچالیس سال میں دریائے سندھ میں 93 ملین ایکڑ فٹ پانی، دریائے جہلم میں 23ملین ایکڑ فٹ اور دریائے چناب میں 26 ملین ایکڑ فٹ پانی رہ گیا۔ اس ناقابل تردید جائزہ رپورٹ کے مطابق بھارت نے پاکستان کے حصہ میں آنے والے مغربی دریاؤں چناب، جہلم اور سندھ کا 56ملین ایکڑفٹ یعنی کہ 5کروڑ 60لاکھ ایکڑ فٹ پانی ہڑپ کر لیاہے۔ سندھ طاس معاہدے کے آرٹیکل 3 شق نمبر 1کے تحت پاکستان کو بغیر کسی پابندی کے مغربی دریاؤں کے پانیوں کو استعمال کرنے کا حق ہے۔ اس طرح آرٹیکل 3 شق نمبر 2 میں پھر تاکید کے صیغہ میں کہا گیا ہے کہ بھارت پر یہ لازم ہے کہ وہ مغربی دریاؤں کو بہنے دے اور اس حوالہ سے بھارت کو کسی قسم کی مداخلت کا کوئی حق حاصل نہیں ہو گا اور وہ ان پر سٹوریج ڈیم ہرگز نہیں بناسکتا اور نہ ہی کسی دریا اور نالے کا رخ موڑ سکتا ہے لیکن بھارت کے جو دل میں آتا ہے وہ کر رہا ہے کوئی اسے پوچھنے والا نہیں ہے۔ یہی وہ حکومتی پالیسیاں ہیں جس سے غاصب بھارت کے حوصلے بڑھ رہے ہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف پاکستانی ہائی کمشنر سے حریت رہنماؤں کی ملاقات کے بعد دوطرفہ مذاکرات ختم کئے جانے کے بعد پیدا ہونی والی صورتحال کو مینگو ڈپلومیسی کے ذریعہ بہتر کرنے اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ملاقاتوں کی راہ ہموار کر رہے ہیں مگر بھارت کی صورتحال یہ ہے کہ اس نے ایک تو دریاؤں میں بہت زیادہ پانی چھوڑا اور دوسری جانب پاکستان کو اعدادوشمار بھی غلط جاری کئے گئے تاکہ وہ بروقت بہتر انتظامات نہ کر سکے۔ چار اور پانچ ستمبر کو بھارت نے مکاری اور دھوکہ بازی سے کام لیتے ہوئے مختلف اوقات میں مختلف ڈیٹا جاری کئے جس سے پاکستانی اداروں میں بے یقینی کی سی کیفیت رہی۔ سابق سندھ طاس کمشنر سید جماعت علی شاہ ایک متنازعہ شخصیت ہیں لیکن میڈیا رپورٹس کے مطابق ان کا بھی کہنا ہے کہ بھارت ماضی میں بھی مکاری اور دھوکہ دہی سے کام لیتا رہا ہے ۔ اس کی طرف سے جو اعدادوشمار جاری کئے جاتے ہیں وہ درست نہیں ہوتے اس کیلئے ہمیں چاہیے کہ منگلا، سیالکوٹ اور لاہور سمیت کشمیر میں دریاؤں پر ٹیلی میٹری سسٹم لگائیں کیونکہ اس کے بغیر ہمارے ریڈار اصل صورتحال سے مکمل واقت نہیں ہو سکیں گے۔بھارتی آبی دہشت گردی کا جائزہ لیا جائے تو گذشتہ برس بھی انڈیاکی جانب سے بہت زیادہ پانی یکدم چھوڑ دینے سے سیالکوٹ، گوجرانوالہ، کامونکی، مریدکے اور دیگر کئی شہروں میں لاکھوں ایکڑ پرکھڑی فصلیں مکمل طور پر تباہ ہو گئیں اور ملک کو اربوں روپے مالیت کے نقصانات کا سامنا کرنا پڑاتھا۔ ان علاقوں میں اتنا پانی ہم نے کبھی زندگی میں نہیں دیکھا اور نہ بڑوں سے کبھی سنا ‘ جتنا زیادہ پچھلے سال بھارت کی مہربانیوں سے آیا اور لاہور کے نواحی علاقوں میں رانا ٹاؤن اور رچنا ٹاؤ ن کے علاقوں میں بھی کئی دنوں تک کشتیاں چلتی رہیں۔اب ایک بار پھر وہی صورتحا ل پیدا ہونے کا خدشہ ظاہر کیاجارہا ہے۔ سیالکوٹ، جہلم، گجرات، وزیر آباد ، جھنگ و دیگر شہروں اور ان سے متصل علاقوں و دیہاتوں میں سیلابی پانی سے شدید نقصانات ہو رہے ہیں۔ پاک فوج کی طرح جماعۃالدعوۃ کے رفاہی ادارے فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کے ہزاروں رضاکار بھی امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق فلاح انسانیت کے رضاکاروں نے بعض علاقوں میں موٹر بوٹ سروس بھی شروع کر رکھی ہے اور پانیوں میں پھنسے افراد اور ان کے سامان کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جارہا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پاک فوج اور جماعۃالدعوۃ جیسی تنظیموں کی امدادی سرگرمیاں قابل تحسین ہیں۔ پوری قوم کو چاہیے کہ وہ اس ناگہانی صورتحال میں کھل کر متاثرہ بھائیوں کی مددکریں تاکہ ان کی مشکلات کو کم کیاجاسکے۔ بہرحال ہم سمجھتے ہیں کہ سیلاب کی تباہ کاریوں کے یہ سلسلے روکنے کیلئے بھارت کو پاکستانی دریاؤں پر غیر قانونی ڈیموں کی تعمیر سے روکنا اور کالا باغ ڈیم جیسے منصوبوں پر عمل کرنا بہت ضروری ہے۔بھارت کے تعمیر کر دہ متنازہ ڈیم وطن عزیز پاکستان کے دفاع کیلئے بھی سخت نقصان دہ ہیں اس لئے حکومت کو بھارتی آبی دہشت گردی کے مسئلہ پر سنجیدگی سے سوچناچاہیے اور اس کے تدارک کیلئے عملی اقدامات کرنے چاہئیں۔
Habib Ullah Salfi
About the Author: Habib Ullah Salfi Read More Articles by Habib Ullah Salfi: 194 Articles with 141302 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.