کنویں کے مینڈک!

ہمیں فرانس ،رومانیہ،مصر،عراق، ایران ، لیبیاکی مثالوں کو نہیں بھولنا چاہئے کہ جب وہاں پر انقلاب آیا تو بادشاہت اور شہنشاہت کی دھجیاں اڑادی گئی عوام کا پرامن احتجاج جب ایک بے ہنگم ہجوم کی شکل اختیارکرتا ہے تو پھر شاہ اور اس کے وفاداروں کوکوئی جائے پناہ نہیں ملتی۔ پھر انکے جسموں اورلاشوں کو سڑکوں پر گھسیٹا جاتا ہے۔ انہیں نشان عبرت بنا دیا جاتا ہے جب عوام اپنے حقوق کیلئے سنجیدگی کے ساتھ ٹی وی اسکرین سے سامنے بیٹھنے کی بجائے سڑکوں پر آکر بیٹھ جاتی ہے تو پھر مذکورہ بالاممالک میں ہونے والے واقعات کو رونما ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔لیکن اس میں ایک بات واضح طور پر سمجھ لینی چاہئے کہ یہ انقلابات صرف چند مخصوص افراد ،ٹولہ یا کسی ایک جماعت کے کارکن کے احتجاج سے ظہور پذیر نہیں ہوا تھا بلکہ اس میں ہرطبقہ فکر کے لوگ موجود تھے یعنی کے عوام ۔وہی عوام جس کیلئے جمہوریت بنی اور جن سے جمہوریت بنی۔ موجودہ حکومت بھی اس بات کو ہوا دے رہی ہے اور ہٹ دھرمی پر اتری ہوئی ہے ۔بھئی کہ آپ ملک کی سب سے معزز اور پاور فل اتھارٹی ہو کر بھی ڈھٹائی سے جھوٹ بولتے ہیں اپنے قول و فعل سے مکر جاتے ہیں اور ایک باوقار اور قابل احترام ادارے اور اس کے سربراہ کی عزت داؤ پر لگانے پر تل جاتے ہو اس لئے کہ نام نہادپارلیمانی جماعتیں آپ سے سوال کرتی ہیں کہ ہم سے پوچھے بغیر کیسے اس عمل کا حصہ بن گئے ۔ان کو خوش کرنے کیلئے آپ اپنی عقل کو بالائے طاق رکھ کراپوزیشن لیڈر کی تیلی پر آگ لگانے پر اتارو نظر آتے ہو۔ ملک خداداد میں ہر گزرتے لمحے کے ساتھ بحران میں شدت آئی جارہی ہے حکومت ایک ایسی گلی میں بند ہو چکی ہے کہ اس میں تو پتلی گلی بھی موجود نہیں ۔لے دے کے ایک فوج کی مدد اور تعاون نظر آتاتھا لیکن میاں صاحب کی چست چالاکیوں نے اس پر بھی بہت سے سوالیہ نشان کھڑے کر دیئے ۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ شریف برادران کی اولادوں میں بھی اس بات پر سخت مزاحمت سامنے آتی کہ شہباز شریف استعفی دیں ۔ بیٹے نے باپ کی وزارت بچانے کیلئے کہہ دیاہے کہ ہر مرتبہ ہم ہی کیوں قربانی کا بکرا بنیں ؟اسی طرح ایم کیو ایم حکومت گرانے کیلئے مکمل طور پر تول چکی ہے استعفوں کی بات چل نکلی ہے جن پر تکیہ تھا وہی ہے پتے ہوا دے دے کر حکومت کو نمونیہ میں مبتلا کررہے ہیں کیونکہ مسائل حل ہونے کی بجائے گھمبیر ہوتے جارہے ہیں گتھیاں الجھتی جارہی ہیں ۔ محب وطن شہری پریشان ہیں ۔روزگار جو کہ اس ملک میں ویسے ہی نا پید ہے اب ملنا محال ہوچکاہے۔

تمام سیاسی پارٹیاں اس بات پر متفق ہیں تو عمران خان اور طاہرالقادری صاحب کے الزمات سوفیصد نہیں تو نوے فیصد درست ہیں۔ان کے مطالبات بھی ایک مطالبہ کے علاوہ درست دکھائی دیتے ہیں۔ان میں سب سے اہم نکتہ انتخابی اصلاحات ہیں جن کا ملک میں فی الفور نافذ کیا جانا ازحد ضروری اور تقاضائے وقت ہے۔حکومت نے دباؤ میں آکر کمیٹی تو بنادی ہے لیکن ہمیشہ کی روایات پر سختی سے کاربند حکومت نے اس پر کوئی کام شروع نہیں کیا ہے صرف کاغذات کی حد تک نافذالعمل ہیں۔مسائل کو حل کرنے اور معاملات میں سدھار لانے کیلئے ضروری ہے کہ حکومت روایتی ہٹ دھرمی کو چھوڑتے ہوئے اسے قابل عمل بنائے مثلا پارلیمنٹ کا ممبر بننے کیلئے قا بلیت اور خاصیت کا ہو نا ضروری ہے ۔جبکہ تعلیم تو اس کا لازمی جزو ہونا چا ہے ۔بی اے کی شرط بھی بہت سی قباحتوں کو ختم کر سکتی ہے سرمایہ دار، جا گیر دار جو کہ ہمیشہ پیسے کے بل کر پارلیمنٹ کا حصہ بنتے رہے ہیں تعلیم کی شرئط ان کا بھی قلع قمع کردے گی۔ اس حوالے سے یہ ply لی جاتی ہے کہ ان نواردوں کو تو آئین کی ابجد سے بھی واقفیت نہیں ہوتی وہ کیا قانون سازی کریں گے تو اس کا مدلل اور واضح جواب یہ ہے کہ آپ نے تیس تیس سال گزارنے کے باوجود رتی برابر بھی ملک و قوم کے مفاد میں کوئی قانون سازی نہیں کی سوائے اپنے پیٹ بھرنے اور حکومتی خزانے کو ہڑپنے کے۔ کیونکہ آپ کی سوچ کنویں کے اس مینڈک طرح ہے جو ناگہانی طور پر سمندر میں جانے کے باوجود کنویں میں ہی آنے کا سوچتا ہے۔لہذا نئی جنریشن اگر کچھ دے نہ سکی تو کم ازکم کھائے گی بھی نہیں۔

مشا ہدے کی بات ہے کہ پارلیمنٹ میں اپر پنجا ب یا صو بائی دارلحکومت کی نمائندگی کرنے والے چند افراد بولتے چیختے دکھائی دیتے ہیں جبکہ پسما ندہ علاقے اور اضلاع کے ایم این ایز اور ایم پی ایز صرف ڈیسک بجانے کی حد تک اپنا فریضہ انجام دے کر اپنے علاقوں کی نمائندگی کرتے ہیں ان کوبھی اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ آئین و قانون کو کسی مقصد کیلئے بنایا جارہاہے آیا کہ اس کا نفاذ قابل عمل بھی ہے کہ نہیں ۔ یہ آئین عوام کے حق میں کتنا منا سب اور کارآمد ہے وغیرہ وغیرہ۔ وہ تو صرف یہ دیکھتے ہیں کہ کب باد شاہ کا مزاج خوش ہو کب ملاقات کی اجازت ملے اور کب ہم اپنے لئے کوٹہ اور صوابدیدی فنڈ لے کر اپنی خود کی فلاح و بہبود کیلئے استعمال کریں ۔ یہ عمل بھی ختم ہونا چاہئے ۔ اگر پڑھے لکھے اور سمجھ بوجھ رکھنے والے تو پارلیمنٹ کا حصہ بنیں گے تو بہت سی خرایباں اور خامیاں اپنی موت آپ مر جائیں گی۔ امید وار کی قابلیت اہلیت اور علاقے میں پسند و نا پسند کیلئے ضروری ہے کہ وہ تمام ووٹوں کا پچاس فیصد سے زیادہ صل کریں علاوہ ازیں اس حلقہ کے انتخابات کو کالعدم قراردے کر دو بارہ کرائے ہیں ۔ ملک کا وزیراعظم دو مرتبہ سے زائد اس عہدہ پر فائز نہ ہو سکے۔وزارتیں متعلقہ لوگوں کو دی جائیں ۔ کسان مزدور ، انجینئرز ،ڈاکٹرز، اساتذہ، تاجر وغیرہ کے طبقات سے کم از کم 40فیصد نمائندگی ہو۔ ان کیلئے کوئی مخصوص لائحہ عمل مرتب کیا جائے ۔ مخصوص نسشتوں پر بھی اہل اور قابلیت و لیاقت رکھنے والے افراد کوپسند نا پسندہ سے ہٹ کر انتخاب کیا جائے ۔وراثتی اور خاندانی سیاست کی حوصلہ شکنی کی جائے اور ایک خاندان سے صرف ایک ہی فرد ممبرقومی یاصوبائی اسمبلی بن سکے ۔آصف زرداری ، نواز شریف ،محموداچکزئی ۔ چوہدری برادران کے رشتہ داروں اورعزیز داروں کی بڑی تعداد عوامی ٹیکس کو باپ کا حال سمجھ کر ہڑپ کرتے جارہے ہیں یہ پریکٹس بند ہونا چاہئے۔ کسی بھی جرم میں سزایافتہ کو نااہل قراردیا جائے جبکہ ہمارے ہاں یہ علامت بن چکی ہے کہ جس نے جیل کاٹی ایم این اے یا ایم پی اے شپ پر اسکا پشتینی حق ہے ۔ شرابی ،زانی، جواری،بے ایمان،دھوکہ باز،نادہندہ وغیرہ کو الیکشن کیلئے اہل ہی قرار نہ دیا جائے۔ جب ہم تمام مصلحتوں کو پس پشت ڈال کر صرف اور صرف ملک و قوم کیلئے سوچیں گے تو یہی انقلاب ہے یہی تبدیلی ہے اور یہی جمہوری اور پارلیمانی نظام ہے۔ جس کے سب خواہاں ہیں۔
liaquat ali mughal
About the Author: liaquat ali mughal Read More Articles by liaquat ali mughal: 238 Articles with 211740 views me,working as lecturer in govt. degree college kahror pacca in computer science from 2000 to till now... View More