لو جی ! ہم جا رہے ہیں

ایک معروف اخبارکے لکھاری نے ڈاکٹر طاہرالقادری کی مدح سرائی کرتے ہوئے لکھا کہ آصف زرداری، نواز شریف اور مولانافضل الرحمٰن جیسے رہنماء بھٹو،ضیاء اورمولانامفتی محمودکی نسبت سے مشہورہوئے ۔لیکن ڈاکٹرطاہرالقادری لمحہ موجودکی وہ واحدشخصیت ہیں جن کی قامت آوری کسی بیساکھی کی مرہونِ منت نہیں۔کالم نگارموصوف شایدبھول گئے کہ ’’نسبت‘‘توعلامہ صاحب کی بھی ہے،بڑی مضبوط نسبت،ایسی نسبت جس کی ہرراہ میاں برادران کے گھرپرختم ہوتی ہے۔علامہ صاحب کو میاں محمدشریف مرحوم جیسی مضبوط’’بیساکھی‘‘ میسرآئی جس نے علامہ صاحب کوفرش سے اُٹھاکرعرش تک پہنچادیا۔یہ کہانی اتفاق مسجدکے’’ امام‘‘سے شروع ہوکر’’القادریہ‘سے ہوتی ہوئی منہاج القرآن پرختم ہوتی ہے اورہرموڑپر ’’میاں برادران‘‘ہی کھڑے نظرآتے ہیں اِس لیے یہ کہنادرست نہیں کہ علامہ صاحب بناکسی بیساکھی کے اِس مقام تک پہنچے ۔

محترم لکھتے ہیں’’اورکون ہے ایساجس نے ایک ہزارسے زائدزندہ جاویدکتابیں تصنیف کی ہوں‘‘۔ہم سوچ میں پڑگئے کہ اگرمولانانے ایک کتاب صرف ایک ماہ میں بھی تصنیف کی ہوتوپھربھی ہزارکُتب 83سال میں لکھی جاسکتی ہیں اوراگرمولانانے 20سال کی عمرسے کتابیں لکھناشروع کی ہوں تواُن کی عمراِس وقت 103 سال تو ہونی چاہیے لیکن ذراٹھہریے،خودمولاناکے فرمان کے مطابق اُنہوں نے یہ ایک ہزارکتابیں2005ء سے2012ء کے درمیان لگ بھگ سات،ساڑھے سات سال کے عرصے میں لکھی ہیں۔یہ بھی مولاناصاحب کاہی فرمان ہے کہ 100سے زائدممالک میں منہاج القرآن کی شاخیں ہیں جہاں وہ لیکچردینے جاتے رہتے ہیں اوراُن کے لیکچروں اور خطبات کی تعدادبھی ہزاروں میں ہے۔۔۔یہاں آکر ہماری عقل نے کام چھوڑدیاہے کیونکہ سات،ساڑھے سات سال کے عرصے میں تو مولانااگربنا کھائے پیئے ،سوئے اورلیکچردیئے متواترلکھتے ہی چلے جائیں،پھربھی ایک کتاب لگ بھگ 60 گھنٹوں میں لکھی گئی جوکسی عامی کے لیے توناممکن ہے لیکن شاید علامہ جیسی ’’پہنچی ہوئی‘‘ہستی کے لیے نہیں کیونکہ ہوسکتاہے کہ’’فرشتے‘‘کتابیں لکھ لکھ کرمولانا کے سرہانے رکھ جاتے ہوں۔ہم مولاناکودروغ گوبھی نہیں کہہ سکتے کیونکہ ایساکہنادائرۂ اسلام سے خارج ہونے کے مترادف ہے۔ہماراایمان اُس وقت تھوڑا متزلزل ہواجب مولانانے 2012ء میں مینارِپاکستان لاہورمیں پچاس ساٹھ ہزارکے مجمعے کوتیس لاکھ کااجتماع قراردیا۔لیکن ہم غلط تھے کیونکہ یہ معرفت کی باتیں ہیں جوبھلاہم جیسے لوگ کیاجانیں۔وہ تواﷲ بھلاکرے مولاناکے ایک قریبی عقیدت مندکاجس نے ہمیں سمجھایاکہ مجمع توپچاس ساٹھ ہزارکاہی تھا،باقی انتیس لاکھ پچاس ہزار’’فرشتے‘‘تھے جوصرف مولاناکونظرآرہے تھے۔پیپلزپارٹی کے دَورمیں مولانانے اسلام آبادکے ڈی چوک میں دھرنادیا،تب ایک اینکرنے مولاناکے ایک عقیدت مندسے سوال کیا کہ دھرنے میں اندازاََکتنے لوگ ہونگے؟۔عقیدت مندنے جواب دیا’’لگ بھگ ایک لاکھ توہونگے‘‘۔تب اینکرنے کہاکہ مولاناتوکہتے ہیں20لاکھ کا مجمع ہے۔تب عقیدت مندبغلیں جھانکنے لگا۔شاید وہ ابھی معرفت کے اُس مقام تک نہیں پہنچاہوگاجہاں’’فرشتے‘‘نظرآنے لگتے ہیں لیکن یہ بہرحال طے ہے کہ کالم نگارموصوف معرفت کے اُس مقام تک پہنچ چکے ہیں۔

محترم کالم نگارفرماتے ہیں’’کوئی کہہ رہاتھامیڈیاڈاکٹرطاہرالقادری کواتنی اہمیت کیوں دے رہاہے،اُن کاتواسمبلی میں ایک بھی نمائندہ موجودنہیں۔اِس شخص سے میری اتنی سی عرض ہے کہ تعصب کی عینک اتارکرڈاکٹرصاحب کے اردگرددیکھئے،وہاں آپ کوسابق وزیرِاعظم چودھری شجاعت،سابق وزیرِاعلیٰ چودھری پرویزالٰہی،سابق وفاقی وزیرشیخ رشید،سابق وزیرِخارجہ سردارآصف احمدعلی بھی دکھائی دیں گے۔کتنے اورایم این اے چاہئیں آپ کو؟‘‘۔واقعی یہ توہم بھول ہی گئے کہ 342 کی اسمبلی میں دو ایم این اے تومولاناکے ساتھ بھی ہیں لیکن شیخ رشیدکا تو’’کَکھ‘‘پتہ نہیں چلتاکہ وہ کِس کے ساتھ ہیں۔اُنہوں نے تحریکِ انصاف کے ساتھ استعفیٰ دینے کی بڑھک توماردی لیکن گھرجاتے ہی مکرگئے اوراب کہتے ہیں’’پہلے نوازشریف کااستعفیٰ لوں گا،پھرخوددوں گا‘‘۔شیخ صاحب خوب جانتے ہیں کہ میاں صاحب کبھی استعفیٰ نہیں دیں گے اِس لیے شیخ صاحب کی ’’ممبری‘‘بھی پکی البتہ کپتان صاحبب ابھی تک ڈَٹ کرکھڑے اورمرنے مارنے پرتُلے بیٹھے ہیں۔آفرین ہے خاں صاحب کی ہمت اورحوصلے پرکہ’’سونامیے‘‘ایک ایک کرکے کھِسک گئے،پارٹی کاصدر’’داغِ مفارقت‘‘دے گیا،وائس چیئرمین نے پارلیمنٹ کواپناسیاسی کعبہ قراردے کرہروہ بات کہہ دی جو خاں صاحب کبھی نہ کہتے،پارٹی ٹوٹ پھوٹ کاشکاراورایم این ایزاورایم پی ایزکی غالب اکثریت استعفے دینے سے انکاری لیکن’’ضدّی خان‘‘اب بھی ’’کھیلن کومانگے چاند‘‘۔ دراصل معاملہ ملک وقوم کانہیں،اُس کی شادی کاہے جواُس وقت تک نہیں ہوسکتی جب تک ’’نیاپاکستان‘‘نہیں بَن جاتا۔ویسے خاں صاحب اگرہماری مانیں تواعلان کردیں کہ بنی گالہ میں اُن کااپنا وسیع وعریض گھرہی دراصل نیاپاکستان ہے ۔کیونکہ ایسے اعلان سے کم ازکم اُن کی شادی توہوجائے گی۔ ایسے اعلان کے بغیرتواُن کی شادی کادور دورتک کوئی امکان نہیں۔ویسے جانتے وہ خودبھی ہیں کہ ’’معاملہ گَڑ بَڑہے‘‘۔اسی لیے اُنہوں نے کہہ دیا’’ پارٹی میں تقسیم شروع ہوگئی۔پتہ چل گیاکہ مشکل وقت میں ساتھ دینے والے کون ہیں اورسونامی سے فائدہ اُٹھانے والے کون۔اسی لیے اب یہ میچ ٹوئنٹی ٹوئنٹی نہیں،لمباچلے گا‘‘۔کتنالمباچلے گا؟کچھ پتہ نہیں لیکن اگرزیادہ لمباچلاتوہمارے کپتان صاحب کوبھی علامہ صاحب کی طرح 38 ادویات کاسہارالینا پڑسکتاہے۔ علامہ صاحب کہتے ہیں کہ وہ آجکل بہت معمولی خوراک لیکن 38 ادویات استعمال کررہے ہیں۔سبھی جانتے ہیں کہ ادویات کاتعلق انسان کے جذبات،احساسات،عادات،سوچ،قوتِ فیصلہ اورذہنی نفسیات سے ہوتاہے۔ہوسکتاہے کہ مولاناانہی ادویات کے زیرِاثراپنے جذبات کی انتہاؤں تک پہنچ کرقوتِ فیصلہ سے محروم ہوجاتے ہوں۔ہم توحاکمانِ وقت کویہی مشورہ دیں گے کہ وہ پولیس سے مشورہ کرکے کسی ماہرچورکی خدمات حاصل کریں اور مولاناکا’’میڈیکل بکس‘‘چوری کروالیں،پھر’’نہ رہے گابانس،نہ بجے گی بانسری‘‘۔میڈیکل بکس کی عدم موجودگی پرمولانااعتدال میں آکرکینیڈا لوٹ جائیں گے اورقوم سُکھ کاسانس لے گی۔ویسے بھی جب سے شاہ محمودقریشی نے قومی اسمبلی میں مولاناکے خلاف ’’ایف آئی آر‘‘کٹوائی ہے،مولاناکادِل کچھ ٹوٹ ساگیااسی لیے اُنہوں نے اپنے عقیدت مندوں کوکہہ دیاکہ جومجبورہیں وہ چلے جائیں۔ایک راز کی بات جو مولاناکے ایک قریبی عقیدت مندنے ہمیں بتلائی،یہ ہے کہ مولاناکوجوآخری’’بشارت‘‘ہوئی اُس میں بتلایاگیا کہ پہلی ساری بشارتیں منسوخ کردی گئی ہیں اوراب ’’اصلی تے وَڈی‘‘ اورآخری بشارت یہ ہے کہ پاکستان میں اُن کی دال نہیں گلنے والی اِس لیے اِس سے پہلے کہ حکومت اُن کانام ای سی ایل میں ڈال دے،وہ چپکے سے کینیڈاکھسک لیں۔
Prof Riffat Mazhar
About the Author: Prof Riffat Mazhar Read More Articles by Prof Riffat Mazhar: 894 Articles with 645719 views Prof Riffat Mazhar( University of Education Lahore)
Writter & Columnist at
Daily Naibaat/Daily Insaf

" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی ب
.. View More