ملک میں تباہی مچاتا سیلاب

دریائے چناب، جہلم اور راوی کے سیلابی ریلوں نے آزاد کشمیر اور پنجاب کے بالائی علاقوں میں تباہی پھیلانے کے بعد حافظ آباد، چنیوٹ، سرگودھا اور ملتان کے مختلف علاقوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ ذرائع کے مطابق لوگ گھروں اور عمارات کی چھتوں سمیت بلند مقامات پر پناہ لے رہے ہیں۔ سیلابی پانی نے سیکڑوں ایکڑ پر پھیلی فصلوں کو تباہ کر دیا، جبکہ متعدد دیہات کے رہائشی اپنے مویشیوں سے بھی محروم ہوگئے ہیں۔ گوجرانوالہ، حافظ آباد روڈ کو بند کردیا گیا۔ چنیوٹ کی تحصیل بھوآنہ اور لالیاں کے 100 سے زاید دیہات کا دیگر علاقوں سے زمینی رابطہ منقطع ہوچکا ہے، جبکہ 200 سے زاید دیہات سیلاب کے براہ راست خطرے کا شکار ہیں۔ حرسا شیخ کے قریب 30 سے زاید دیہات کو ڈوبنے سے بچانے کے لیے حفاظتی بند کو دھماکے سے تباہ کیا گیا۔ جھنگ شہر کو بچانے کے لیے تحصیل اٹھارہ ہزاری کو خالی کرا لیا گیا۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ بھارتی دریا سے چھوڑے جانے والے سیلابی پانی کے بعد مقامی افراد کو انخلا یا محفوظ مقامات پر منتقل ہونے کی کوئی ہدایت نہیں کی گئی تھی، حالانکہ فلڈ فورکاسٹنگ بیورو نے اس حوالے سے انتباہ بھی جاری کیا تھا۔ ایف ایف ڈی کے مطابق ہفتے کی شب ہیڈ مرالہ سے 8 لاکھ 81 ہزار کا ریلا گزرا، جو خانکی کی جانب گیا، جہاں اتوار کی صبح یہ 9 لاکھ 47 ہزار کیوسک ریکارڈ کیا گیا۔ دریائے چناب میں سیلاب کا 9 لاکھ 42 کیوسک کا ریلا قادر آباد سے دوپہر بارہ بجے چھوڑا گیا، جس کے بعد یہاں رات نو بجے تک سطح 7 لاکھ 74 ہزار کیوسک تک پہنچ گئی۔ تریموں ہیڈ ورکس پر 6 لاکھ 75 ہزار کیوسک کا ریلا ٹکرا سکتا ہے، جس کے پیش نظر اردگرد کے علاقوں میں تباہی کا خطرہ ہے، کیونکہ اس بیراج کی گنجائش 6 لاکھ کیوسک ہے۔ دریائے چناب میں سیلابی ریلے کی رفتار مرالہ سے قادر آباد تک بہت تیز رہی، جس کے نتیجے میں ملحقہ قصبوں اور دیہات میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی۔ غیرمصدقہ اطلاعات کے مطابق خانکی میں 9 لاکھ 47 ہزار کیوسک کا ریلا گزرنے کے موقع پر دریائی پشتوں میں شگاف بھی ڈالا گیا، کیونکہ اس کی گنجائش 8 لاکھ کیوسک ہے۔ پنجاب حکام کے مطابق مرالہ، خانکی اور قادر آباد سے سیلابی ریلے کے گزرنے کے نتیجے میں 6 سو دیہات ڈوب گئے ہیں۔ رپورٹس کے مطابق سیالکوٹ ریجن میں مرالہ کے قریب 56، سمبڑیال میں 53، ظفروال میں 25، پسرور میں 56 اور چنیوٹ میں 89 دیہات ڈوب گئے۔ وزیرآباد، حافظ آباد، منڈی بہاﺅالدین، چنیوٹ، جلال پور جٹاں، پھالیہ اور پنڈی بھٹیاں سے سیلاب براہ راست ٹکرایا، جس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں سڑکیں، پل اور اہم تنصیبات کو نقصان پہنچا۔

فلڈ فور کاسٹنگ ڈویژن کے مطابق تریموں میں پانی کی سطح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، جہاں اس وقت پانی کا بہاؤ ایک لاکھ 80 ہزار کیوسک ہے، تاہم یہاں سے 7 لاکھ کیوسک کا سیلابی ریلا گزرے گا۔ اس کے علاوہ چنیوٹ برج پر پانی کا بہاؤ 8 لاکھ 40 ہزار کیوسک ریکارڈ کیا جا رہا ہے۔ دریائے راوی میں بلوکی پر پانی کی آمد 1 لاکھ 5ہزار اور اخراج 92ہزار 600 کیوسک، جسڑ پر پانی کا بہاؤ 30ہزار، شاہدرہ پر 85 ہزار اور راوی سائفن پر 86 ہزار کیوسک ہے۔ دریائے چناب کا سیلابی ریلا بالائی پنجاب میں تباہیوں کی داستان رقم کرنے کے بعد تیزی سے جنوبی پنجاب کی جانب بڑھ رہا ہے۔ تریموں ہیڈورکس اور جھنگ شہر کو بچانے کے لیے تریموں کے دائیں پشتے کو توڑنے کی خبروں پر تحصیل احمد پور سیال اور ہزاری کی80 فیصد آبادی مال مویشیوں سمیت علاقے سے نقل مکانی کرگئی ہے۔ تریموں کے دائیں پشتے کو اس سے پہلے بھی 1973 اور 1992 میں توڑا گیا تھا اور اس سے متاثر ہونے والا علاقہ رقبے میں شمالی وزیرستان جتنا بڑا ہے اور یہاں 5 لاکھ سے زاید افراد رہائش پذیر ہیں۔ دریائے چناب اس کے بائیں سمت جبکہ دائیں جانب صحرائے تھل واقع ہے۔ زرخیر زرعی زمین کے ساتھ اس علاقے میں دو شوگر ملیں اور متعدد کاٹن جننگ کارخانے، آئل ملز، چاولوں کی فیکٹریاں اور مارکیٹیں بھی واقع ہیں۔ ملتان کی ضلعی انتظامیہ نے چناب، جہلم اور راوی کے ملنے کے مشترکہ مقام پر شدید سیلاب کا خطرہ ظاہر کیا ہے، جہاں 8 لاکھ کیوسک کا ریلا گزر سکتا ہے۔ انتظامیہ کی جانب سے دریائی پٹی پر رپائش پذیر افراد کو علاقے سے نکل کر محفوظ مقامات میں منتقل کرنے کی ہدایت کردی گئی ہے۔ دریائے چناب میں ہیڈ مرالہ کے مقام پر پانی کا ریلا 8 لاکھ کیوسک کا ہے اور اگر دریائے جہلم اور راوی کا پانی بھی چناب میں شامل ہوگیا تو ضلع کو انتہائی اونچے درجے کے سیلاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔

سیلابی تباہی کے پیش نظر پاکستان ٹیلی کمونیکیشن اتھارٹی(پی ٹی اے) نے تمام موبائل آپریٹرز کو ہدایت کی ہے کہ متعلقہ علاقوں میں سیلاب کے خطرے سے قبل از وقت آگاہ کرنے کے لیے ایس ایم ایس الرٹ سروس شروع کریں۔ پی ٹی اے کے ترجمان کے مطابق ہر شخص سیلاب کے بارے میں جاننے کے لیے ٹیلی ویژن کے سامنے بیٹھ کر خبریں نہیں سن رہا ہوتا، مگر متعدد لوگوں کے پاس موبائل فون کی سہولت موجود ہے اور مختصر پیغامات کے ذریعے انہیں آئندہ 72 یا 24 گھنٹوں بعد درپیش خطرے سے آگاہ کر دیا جائے تو اس سے یقیناً زندگیاں بچانے میں مدد مل سکتی ہے۔ اتوار کو موبائل کمپنیوں نے سیالکوٹ، ناروال، شیخوپورہ، گوجرانوالہ، گجرات، حافظ آباد، منڈی بہاﺅ الدین، چنیوٹ، فیصل آباد، جھنگ، جہلم، ملتان، مظفرگڑھ، بہاولپور اور خانیوال کے اضلاع میں اپنے صارفین کو سیلاب کے خطرے کے حوالے سے ایس ایم ایس ارسال کیے۔ پی ٹی اے ترجمان کا کہنا تھا کہ صارفین کو خبردار کیا گیا ہے کہ وہ سیلابی پانی کی آمد اور تباہی سے قبل محفوظ مقامات پر منتقل ہوجائیں۔ وزیر داخلہ بلوچستان میر سرفراز بگٹی کے مطابق سیلاب کے خدشے کے پیش نظر بلوچستان میں بھی فلڈ ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے، صوبائی ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کے حکام اور اہلکاروں کی چھٹیاں منسوخ کر دی گئی ہیں، کسی بھی ناخوشگوار صورت حال سے بچنے کے لیے پی ڈی ایم اے نے ایمرجنسی صورتحال کے لیے ضروری انتظامات کر لیے ہیں، آئندہ دو روز میں تمام ضروری سامان سبی اور نصیر آباد پہنچا دیا جائے گا۔ واضح رہے کہ دریائے راوی، چناب اور جہلم کا سیلابی پانی دریائے سندھ میں مل کر 14 اور 15 ستمبر کو سندھ اور بلوچستان کے علاقوں میں پہنچے گا۔ جبکہ دوسری جانب سکھر بیراج 8دروازے جام ہوچکے ہیں، جس کی وجہ سے 30لاکھ افراد کے متاثر ہونے کا خطرہ ہے، سندھ میں اونچے درجے کے سیلاب کے خطرے سے 19 لاکھ ایکڑ اراضی کی تباہی کے خطرات بھی منڈلا رہے ہیں، جس میں سے 12لاکھ اراضی قابل کاشت ہے۔ حکومت سندھ نے پاک فوج اور نیوی کو الرٹ رہنے کی ہدایت کر دی ہے، ساتھ ہی دریائے سندھ کے 45 حساس بندوں اور مقامات کی نشاندہی بھی کی گئی ہے۔ سکھر بیراج کے 66 دروازوں میں سے دس دروازے پہلے سے ہی بند تھے، لیکن مزید 8 بند ہوگئے ہیں، جس سے تباہی کے خطرات مزید بڑھ گئے ہیں۔

دوسری جانب وزیر اعظم نواز شریف نے آزاد کشمیر میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ متاثرین کی بحالی اولین ترجیح ہے۔ اللہ تعالیٰ سندھ کو سیلاب سے محفوظ رکھے۔ وزیراعظم کوسیلابی صورتحال پر بریفنگ کے دوران بتایا گیا کہ بارشوں سے بنیادی ڈھانچے گھر اور لینڈ سلائیڈنگ کے باعث رابطہ سڑکیں بند ہو گئیں اور آزاد کشمیر میں بارشوں اور سیلاب سے 64 افراد جاں بحق، 1800 گھر مکمل طور پر تباہ، جبکہ 185 دکانوں کو نقصان ہوا، 12 پل متاثر ہوئے اور ٹرانسمشن لائنوں اور بجلی کے 9 منصوبوں کو بھی نقصان پہنچا۔ جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے صوبے میں سیلاب کی صورت حال اور امدادی سرگرمیوں کا تفصیلی جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ متاثرین کی بحالی کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے جا رہے ہیں۔ اس سلسلے میں کوئی کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی، متاثرین کی محفوظ مقامات پر منتقلی کے لیے کشتیاں اور ہیلی کاپٹر استعمال کیے جائیں، ان کے لیے خوراک، پانی اور رہائش کی کمی نہیں آنی چاہیے۔ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ریلیف کیمپ قائم کردیے گئے ہیں۔ سیلاب کی صورت حال اور امدادی سرگرمیوں کو میں خود مانیٹر کر رہا ہوں۔ پنجاب حکومت آخری متاثرہ شخص کی بحالی تک چین سے نہیں بیٹھے گی۔ دوسری جانب گوجرانوالہ ڈویژن میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں پاک آرمی کا ریلیف آپریشن چوتھے روز بھی جاری رہا۔ پاک آرمی کی ٹیموں نے 11 ہزار 283 افراد کو کشتیوں کے ذریعے، جبکہ 771 افراد کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے منتقل کیا۔ پاک آرمی کے 4 ہیلی کاپٹر ریسکیو آپریشن میں حصہ لے رہے ہیں، جبکہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں 300 کشتیاں بھی استعمال کی جا رہی ہیں، جن علاقوں میں پانی نہیں اترا، وہاں گوجرانوالہ کور ہیڈ کوارٹر سے اضافی نفری بھجوائی جا رہی ہے، تاکہ لوگوں کے جان و مال کو محفوظ بنایا جا سکے۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 644422 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.