سفید سورج کا صحرا

بسماچی تحریک نامی بغاوت دراصل روس کے جابرانہ طرز ِ حکومت ، ثقافتی جبر اور سوویت عہد میں اشتراکیوں کی جانب سے زراعت کے حوالے سے مطالبوں کے خلاف ایک مقامی تحریک تھی جس کے پیچھے مسلم روایت پسندی اور تورانیت اہم عناصر تھے 1916ء میں روسی سلطنت نے مسلمانوں کے عسکری خدمات سے استثنی کا قانون ختم کردیا تھا جس کے خلاف وسط ایشیا میں زبردست بغاوت پھوٹی ، زار انتظامیہ کی جانب سے زمینوں کی جبری وصولی نے ماحول پہلے ہی خراب کر رکھا تھا اور اس فیصلے نے گویا عوام میں آگ بھڑکا دی ، اس بغاوت کو کچلنے کیلئے زار کی افواج نے بد ترین مظالم کا بازار گرم کیا۔ زار کے خلاف فیض اﷲ خوجایوف جیسے رہنماؤں نے اشتراکی حلقوں کا ساتھ دیا اور بخارا اور خواززم کے حصول میں سرخ افواج کی مدد کی جبکہ سابق امیر بخارا محمد علیم خان جیسے رہنماؤں نے بسماچی تحریک میں شمولیت اختیار کرلی اور ان کے دو جرنیلوں نے 30ہزار جنگوؤں پر مشتمل لشکر تیار کیا۔خواززم و بخار کی حکومتیں روسی ریاست کے زیر انتظام تھا اور ان کی پھٹو حکومتیں تھیں اور ان ہی کے اشاروں پر ناچتی تھیں جبکہ بالشیوک مخالف سفید افواج کے مقابلے میں بسماچیوں کو کسی طرح کی بیرونی امداد بھی حاصل نہیں تھی اس کے باوجود 1920ء کے اوئل تک بسماچی وسط ایشیا کے بڑے حصے میں پھیل گئے تھے اور ترکستان کو خطرہ لاحق ہوگیا تھا کہ ترکستان سے محروم ہوجائے گی۔ بسماچی تحریک زار اور سوویت عہد کے خلاف مسلمانوں کی ایک بغاوت تھی جس کا آغازپہلی جنگ عظیم کے بعد1916ء میں ہوا ، سووویت اتحاد نے اس بغاوت کو بدترین اندازمیں کچلا۔گو کہ لنین حکومت نے ترکستانی باشندوں کے اعتراضات کے خاتمے کیلئے ان سے مصالحت کا منصوبہ بنایا جس میں غذائی اجناس کی فراہمی ، محصولات میں نرمی ، زرعی اصلاحات کے وعدے ، اسلام مخالف پالیسیوں کے خاتمے اور زراعت پر حکومتی ضابطے کے خاتمے کے وعدے شامل تھے ، ان اقدامات نے بسماچی تحریک کی کشش کو کم کردیا اور سرخ افواج کیلئے بسماچیوں کو زیر کرنا ممکن بنا دیا ۔ گویا یہ عوامی غیض و غضب کو کم کرنے کیلئے ایک منصوبہ بندی تھی جس میں عوامی حمایت حاصل کی گئی لیکن درپردہ اس تحریک کو ختم کرنے کیلئے پوری قوت کا استعمال کیا گیا۔بسماچیوں کے خلاف سوویت حکومت نے اپنی اصلاحات کے جھانسے میں مسلم دہقانوں پر مشتمل ایک رضا کار فوج تشکیل دی جو سرخ چھڑیاں کہلاتی تھی اور باضابطہ افواج میں مسلمانوں فوجیوں کو شامل کرکے انہیں بسماچیوں کے خلاف لڑادایا ، یہ حکمت عملی کامیاب ہوئی ۔ نومبر 1921ء میں سلطنت عثمانیہ کے سابق وزیر جنگ اسماعیل انوار پاشا خطے میں آئے اور انھوں نے خطے میں اسلامی حکومت کے قیام کیلئے سوویت اتحاد کے خلاف بغاوت کا اعلان کردیا ۔ جبکہ اس سے قبل سوویت حکومت نے ان سے امن پیشکش کی جیسے انور پاشا نے ٹھکرادیا اور پندرہ روز میں روسی فوج کو انخلا کی وارننگ جاری کردی ، ماسکو حکومت کے خلاف ان جنگجوؤں کے خلاف جنگ جاری رہی لیکن ماسکوکے مسلمان دہقانوں کو دھوکے سے شامل کئے جانے کے سبب’ جنگ کفرون ‘میں بسماچی جنگجوؤں کو شکست ہوئی انور پاشا کو ۴ اگست ۱۹۲۲ میں موجودہ ترکستان میں سوویت افواج کے خلاف حتمی کاروائی کی تیاریوں کے دوران شہید کردیا گیا۔ انور پاشا کے بعد بسماچیوں کی قیادت سلیم پاشا نے سنبھالی لیکن انھیں1923ء میں افغانستان فرار ہونا پڑا اور پھر اہم قائدین کے مارنے جانے کے بعد بسماچی تحریک نے خفیہ انداز میں پہاڑوں میں خفیہ ٹھکانوں کے ذریعے کاروائیوں کا آغاز کردیا لیکن اس نتیجے میں وہ عوامی حمایت سے محروم ہوگئے کیونکہ عوام، اغوا اور دہشت گردانہ کاروائیوں کو پسندیدہ نظروں سے نہیں دیکھتے تھے1926تک بسماچی بغاوت حقیقتاـ اپنے انجام تک پہنچ گئی تاہم سوویت افواج نے بسماچی رہنما ابراہیم بیگ کو گرفتار کرلیا 1934ء میں بسماچیوں کے آخری گڑھ کو موجودہ کرغستان میں ختم کردیا گیا سوویت ذرائع کے مطابق اس بغاوت میں 1441روسی فوجی ہلاک ہوئے۔یہ مسلمانوں کی اس جد وجہد کی حقیقی داستان ہے جب برصغیر کے مسلمانوں میں ہندوستان سے آزادی کی عملی تحریک شروع بھی نہیں ہوئی تھی ، چونکہ اسلام ساری دنیا کے لئے نبی اکرم ﷺ کے توسط سے پیام رحمت اور ظلم کے خلاف مزاحمت کیلئے تا قیامت کیلئے مقرر کیا گیا تھا اس لئے اسلام کے نام لیوا دنیا کے کسی کونے میں بھی ہوں اگر اسلام کے خلاف لادینوں اور مسلم دشمنوں کی کاروائیاں حد سے بڑھ جاتی ہیں تو مسلم قوم میں وہ جذبہ حریت بیدار ہوجاتا ہے جیسے شدت پسندی و عسکریت پسندی کا نام دیا جاتا ہے ۔گو کہ انقلاب روس نے یورپ کے نظام کو ہمیشہ کیلئے دگرگوں اور پر گندہ کردیا تھا مگر اس کے بعد جب صنعتی انقلاب آیا تو اس نے جہاں ہالینڈ ، فرانس اور انگلستان کو یورپ کے سب سے متمدن اور ترقی یافتہ ممالک بنادیا وہاں روس جیسے ممالک کو جن کی معیشت زرعی تھی قعر ، عزلت میں ڈال دیا ،1847میں کارل مارکس اورالیکس نے اشتمالی منشور شائع کیا جو صنعتی کارخانوں میں مزدوروں کو بغاوت پر آمادہ کرتا تھا کارخانے دار مزدور سے کام لینے کیلئے ان پر کوڑے برساتے اور ظلم کرکے طرح طرح کی اذیتیں دیتے تھے مگر اس فلسفے نے روس میں جوصنعتی لحاظ سے پسماندہ اور جاگیرادنہ نظام معیشت کا حامل تھا لنین کے دماغ کو انگیخت دی اور اس نے کیمونسٹ اصولوں کی علم بردار سیاسی تحریک کی بنیاد ڈالی ، کارل مارکس نے کہا تھا کہ سرمایہ داری نظام کے خلاف انقلاب روس میں ہوگا اور یہ دعوی حیرت انگیز طور پر درست نکلا 1917ء میں زار روس کی حکومت زمین بوس ہوئی اور لنین روس پہنچا اور حکومت کا سنگ بنیاد رکھا جو دنیا میں سب سے پہلی سوشلسٹ جمہوریہ کہلائی ، اس انقلاب کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے پہلا انقلاب فروری میں زار حکومت کے خاتمے کے وقت ہوا اور عبوری حکومت قائم ہوئی اور دوسرا انقلاب اکتوبر میں جس میں اشتراکیوں نے عبوری حکومت کا خاتمہ کرتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کرلیا اور دنیا کی پہلی اشتراکی جمہویت قائم کی۔بسماچی تحریک ان ہی دنوں میں اٹھنے والی ایک مسلم تحریک تھی جو اشتراکی حکومت کی جانب سے زراعت کے حوالوں سے نا انصافیوں پر مبنی احتجاج تھا ، لنین حکومت جہاں سرمایہ داری نظام کے خلاف ایک استعارے کے روپ میں سامنے آیا اور زار روس میں انقلاب کا باعث بنا لیکن جب بات مسلم عوام کی روایات اور جبر کی جانب آئی تو یہاں بھی انھوں نے اس بات کو نہیں دیکھا کہ یہ زمینیں کس کی ملکیت ہیں لنین کی جانب سے غذائی اجناس کی فراہمی ، محصولات میں نرمی ، زرعی اصلاحات کے وعدے ، اسلام مخالف پالیسیوں کے خاتمے اور زراعت پر حکومتی ضابطے کے خاتمے کے وعدوں کے باجود وقتی طور پر بسماچی تحریک میں کشش کم ہوئی لیکن درپردہ اس مطالبوں کی آڑ میں بسماچی تحریک کو کچلنے کی کوشش کی گئی اور اس میں اشتراکی کامیاب ہوئے لیکن یہ تحریک پھر بھی چلتی رہی اس وقت تک جب تک اس نے اپنے منشور سے ہٹ کر ایسی کاروائیاں شروع کردیں جو عوام میں غیر مقبولیت کا سبب بنیں۔ترکستان وسط ایشیا کا ایک خطہ ہے جس میں آج بھی اکثریت ترکوں کی ہے ۔ یہ او غوزترک ، ترکمان، ازبک ، قازق ، خزر ، کرغز اور ایغور قوموں کی سرزمین ہے یہی اقوام وقت کے ساتھ ساتھ آگے بڑھتی گئیں اور آج ترکی ، آزربائیجان اور تاتارستان انہی ترکوں کی ریاستیں ہیں، ترکستان کو مغربی اور مشرقی ترکستان میں تقسیم کیا گیا ، مغربی ترکستان وہ مسلم اکثریتی علاقہ ہے جس پر سوویت یونین نے قبضہ کرلیا تھا ،جسے چین میں سنکیانگ کہا جاتا ہے ، چین کے ایغور علیحدگی پسند سنکییانگ کو ایغور ستان کہتے ہیں ، یورپ اور چین کے درمیان تجارت کا اہم راستہ شاہراہ ریشم اسی سے ہوکر گذرتا ہے۔ مسلم سلطنتوں کا حصہ بننے کے بعد 1860میں مغربی علاقہ روسی سلطنت کے زیر اثر آگیا ، انقلاب روس کے بعد اسے ترکستان خودمختار سوویت اشتراکی جمہوریہ میں تبدیل کردیا گیا اور مسلمانوں کی مزاحمت کے خاتمے کیلئے اسے قازق ، کرغز ، تاجک ، ترکمان اور ازبک سوویت اشتراکی جمہوری ریاستوں میں بانٹ دیا گیا ، روس کے خاتمے کے بعد ان جمہوری ریاستوں نے آزادی حاصل کرلی۔چین سے مشرقی ترکستان کی آزادی کیلئے ترکستان اسلامی موومنٹ جدوجہد کر رہی ہے۔تاہم دنیا میں مسلمانوں کی کئی تنظیمیں اپنا حق لینے کے لئے مختلف طریقوں سے عمل کر رہی ہے اور ان سب کو پاکستان ہی ایک اسی مملکت نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان دشمن عناصر اور ممالک پاکستان کی بقا اور سا لمیت کیخلاف ہیں گو کہ پاکستان خود عالمی استعماری سازشوں کا گڑھ بنا ہوا ہے کیونکہ پاکستان ان عالمی طاقتوں کیلئے کمزور ہونا ضروری ہے تاکہ ایٹمی طاقت پاکستان عالمی مسلم سیاست میں کوئی موثر کردار ادا نہ کرسکے اور مسلم دنیا کا لیڈرنہ بن جائے۔آج ہم مسلم علیحدگی پسندوں کو کوئی نام بھی دیں لیکن یہ ثابت ہے کہ مسلمانوں کیخلاف جبر ، ظلم و ستم نے انھیں یہ راستہ اختیار کرنے پر مجبور کیا ۔
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 744936 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.