امریکی فوج پر مایوسی کے سائے

پرانے وقتوں کی بات ہے ایک بوڑھے شخص کا دنیا میں کوئی سہارا نہ تھا۔ بڑھاپے میں وہ اس طرح گزارا کرتا کہ جنگل میں لکڑیاں کاٹنے چلا جاتا۔ سارا دن لکڑیاں کاٹنے اور چننے میں گزر جاتا۔ شام ہونے سے پہلے لکڑیاں بیچنے کا چارہ کرتا اور انہیں بیچ کر روٹی کھاتا۔ ایک دن اس کی طبیعت ٹھیک نہ تھی۔ اتنی کمزوری محسوس کررہا تھا کہ اس سے چلا نہ جاتا تھا۔ لیکن مرتا کیا نہ کرتا۔ لکڑیاں جنگل سے نہ لاتا تو روٹی کہاں سے کھاتا۔ گرتا پڑتا جنگل میں پہنچا۔ بڑی مشکل سے لکڑیاں کاٹیں۔ اس کے بعد بڑا سانس لیا۔ پھر گٹھا جو اٹھایا تو سر سے پاؤں تک کانپنے لگا۔ بڑی مشکل سے گٹھا اٹھایا۔ کمزوری تو پہلے ہی سے تھی گٹھا اٹھا کر ابھی سینے تک لایا تھا کہ بازو جواب دے گئے۔ گٹھا زمین پر آرہا۔ تھوڑی دیر سانس لیا۔ جوں ہی گٹھا اٹھایا پھر گر کر زمین پر آرہا۔ بوڑھا سر پکڑ کر زمین پر بیٹھ گیا۔ درد کی شدت سے ہانپتے ہوئے آسمان کی طرف نظریں اٹھا کر کہنے لگا۔”خدایا! بڑھاپے میں کس طرح یہ مشقت کروں۔ مجھ سے تو اپنا آپ نہیں اٹھایا جاتا اتنا بھاری گٹھا کیسے اٹھاؤں؟ میری قسمت کا ستارہ کب تک گردش میں رہے گا؟ اس جینے سے تو موت بہتر ہے۔ اے موت! مجھے اس دنیا سے اٹھا لے۔“یہ سنتے ہی اچانک موت ایک طرف سے نمودار ہوئی اور بولی! مجھے کس واسطے جنگل میں پکارا ہے؟ موت کو دیکھتے ہی بوڑھے پر دہشت طاری ہو گئی۔ تھر تھر کانپنے لگا اور کہا ”میں نے تمہیں اس واسطے جنگل میں پکارا ہے کہ اس جنگل میں دور اور نزدیک کوئی نظر نہیں آرہا یہ گٹھا اٹھا کر میرے سر پر ٹکا دو“۔

حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جوانی میں جب اسلام قبول نہیں کیا تھا اس وقت دنیا کو چھوڑنا میں موت سمجھتا تھا اور ظاہر ہے کہ موت کی طرف کون رغبت کرتا ہے۔ لیکن اب جبکہ میں بوڑھا ہوں مگر اسلام کی دولت سے مالامال ہوں میں موت کو ابدی زندگی کا سبب سمجھتا ہوں۔ اب مجھے دنیاوی زندگی آخرت کی زندگی کے مقابلے میں بالکل حقیر نظر آتی ہے۔ افغان مجاہدین اللہ پر بھروسہ کیے دشمن کے خلاف صف آرا ہیں۔ جبکہ استعماری قوتوں کا سرخیل امریکہ ڈرپوک آج موت کو سامنے پا کر بوڑھے لکڑہارے کی طرح تھر تھر کانپ رہا ہے۔ ذلت اور موت سے بچنے کے لیے کل کے مجاہدین آج کے دہشتگردوں کو چھ صوبوں میں شریعت نافذ کرنے کی پیشکش کر رہا ہے۔ امریکہ اور اتحادی فوجیوں کی شکست چھپانے کے لیے ہیلے بھانے تراشنا، طالبان کو شریعت کے نفاذ کی دعوت دینا، مزید افواج کی افغانستان روانگی میں تاخیر، بوڑھے لکڑہارے کی طرح موت کو سامنے پا کر نجات حاصل کرنے کا بہانہ سب جان چھڑانے کی کوششیں ہیں۔ انسداد بغاوت کے خلاف امریکہ کی دفاعی حکمت عملی سے بالآخر تاریخ اپنے آپ کو دہرائے گی اور ویت نام کی طرح امریکہ یہاں سے بھی منہ چھپا کر نکلنے پر مجبور ہو گا۔ (انشاءاللہ)

امریکی ائیربورن مینٹل ہیلتھ اسپیشلسٹ ایریکا چینی کا کہنا ہے کہ محاذ جنگ سے واپس آنے والے امریکی فوجیوں میں بے چینی، گھبراہٹ، کم خوابی، خودکلامی اور جسمانی کمزوری پائی جاتی ہے۔ امریکی اعلیٰ فوجی کمانڈروں نے اعتراف کیا ہے کہ عراق، افغان جنگ کی وجہ سے فوجی سخت ذہنی دباؤ کا شکار ہیں۔ جس کے باعث خود کشی کرنے والے فوجیوں کی تعداد رواں سال کے آخر تک ریکارڈ سطح تک پہنچ سکتی ہے۔ امریکی فوج کے نائب سربراہ جنرل پیٹر چیئرلی نے کہا ہے کہ فورٹ ہڈ اکیڈمی میں فوجی افسر کی فائرنگ کے واقعہ کے بعد امریکی فوج میں ڈپریشن اور ذہنی تناؤ میں اضافہ ہوا ہے۔ سال 2009ء میں 140 فوجیوں کی خود کشی پریشان کن بات ہے۔

افغان صوبہ وردگ میں مقیم کیپٹن جیف مسنیگل اور کیپٹن سام رائیکو کی تصدیق امریکہ کی ناکامی، موت سے خوفزدہ ہونا اور افغانستان سے بھاگنے کی تیاری کی نشاندہی ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔ دونوں کیپٹن فرماتے ہیں”امریکی فوجی سب سے زیادہ اس وقت مضطرب ہوتے ہیں جب ان کے ساتھی ہلاک ہو جاتے ہیں۔ اپنے ہلاک شدہ ساتھیوں کو لمبے عرصے تک یاد کرتے رہتے ہیں۔ جبکہ مرنے والے فوجیوں کے واقعات برسوں ان کے ذہنوں پر نقش رہتے ہیں“۔مزید فرماتے ہیں کہ” فوجیوں کے لیے افسردگی کی بات یہ ہے کہ وہ نہیں جانتے کہ آنے والے دن ان کے ساتھ کیا ہوگا۔ جبکہ دوسری جانب افغان عوام بھی ان کے ساتھ تعاون نہیں کرتے۔ ہم چاہے عوام کو لاکھ امداد فراہم کریں تب بھی یہ امریکی فوجیوں کے ساتھ تعاون کرنے سے اجتناب کرتے ہیں بلکہ معلومات بھی درست نہیں دیتے“۔ عوام کا یہ رویہ، اوبامہ اور امریکی جنرلوں کے درمیان افغانستان کے معاملات پر اتفاق رائے نہ ہونا افغانستان میں موجود امریکی افواج کا مورال دن بدن گرانے کا سبب ہے۔ کیپٹن جیف مسنیگل کا کہنا ہے ان کے بٹالین میں شامل بیشتر فوجی جنگ کے دوران ذہنی اور جسمانی تھکاوٹ کی وجہ سے مایوس ہو چکے ہیں اور جلد وطن واپسی کے لیے بے تاب ہیں۔ بہت سے فوجیوں نے افغانستان میں پٹرولینگ سے انکار کر دیا ہے۔ امریکی جریدے ٹائم کے صحافی نے صوبہ وردگ میں موجود امریکی فوجیوں کا مشاہدہ کرنے کے بعد کہا کہ بیشتر امریکی فوجی خود کو افغانستان میں محفوظ تصور نہیں کرتے۔ ایک تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ امریکی صدر بارک اوبامہ کے لیے افغانستان سے نکلنے کا یہ آخری موقع ہے، اگر وہ اس موقع کو کامیابی سے حاصل کرلیتے ہیں تو امریکی و اتحادی افواج بحفاظت انخلاء کرلیں گی بصورت دیگر افغانستان، اتحادی افواج، بالخصوص امریکیوں کا قبرستان بن جائے گا۔

امریکہ کو القاعدہ، طالبان اور پاکستان سے زیادہ اندرونی خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ رواں ماہ امریکہ کی سب سے بڑی ملٹری بیس میں میجر ندال ملک حسن کی اندھا دھند فائرنگ سے دس فوجیوں سمیت تیرہ افراد کی ہلاکت افغانستان و عراق میں تعیناتی کا ردعمل اور ذہینی و نفسیاتی کمزوری کا واضح ثبوت ہے۔ تین حملہ آور امریکی فوجیوں میں سے ایک جوابی کارروائی میں مارا گیا جبکہ دو کو گرفتار کیا گیا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس واقعے میں ملوث مسلمان نام کا امریکی کو امریکی میڈیا نے فوکس کیا جبکہ مرنے والے اور دوسرے حملہ آور امریکی کا ذکر ہی کہانی سے غائب کر دیا گیا۔ اور سوچے سمجھے منصوبے کے تحت واقعہ کا ذمہ دار امریکی مسلمان میجر کو بنا ڈالا گیا۔ غور طلب اور تعجب کی بات ہے کہ اگر غیر مسلم امریکی فوجی ایسی کارروائی کرے تو وہ نفسیاتی مریض قرار پاتا ہے، لیکن اگر کوئی مسلمان یا مسلمانوں جیسا نام رکھنے والا شخص ایسا کر بیٹھے تو اسے انتہا پسند اور دہشت گرد کہا جانے لگتا ہے۔ مسلمان جو دنیا کی آبادی کا پانچواں حصہ ہیں،57 مسلم ممالک بھرپور وسائل، طاقتور افواج کے باوجود روئے زمین پر بے وزن اور بے وقعت ہیں۔ نائن الیون کے بعد امریکہ نے نام نہاد دہشتگردی کے خلاف جس جنگ کو شروع کر رکھا ہے وہ دراصل امریکی صلیبی جنگ ہے۔ اس کا مقصد دہشتگردی ختم کرنا نہیں بلکہ مسلمان ممالک پر دہشتگردوں کو مسلط کرنا ہے۔ امریکہ مکافاتِ عمل کی زد میں آ چکا ہے۔ وہ دن دور نہیں جب اس کا حال بھی سویت یونین جیسا ہوگا۔
Hafiz Mansoor Jagiot
About the Author: Hafiz Mansoor Jagiot Read More Articles by Hafiz Mansoor Jagiot: 22 Articles with 18170 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.