بابری مسجد پر جسٹس لبراہن کمیشن رپورٹ

بھارت کا مکروہ چہرہ

بھارت میں بابری مسجد اور تین ہزار مسلمانوں کی شہادت کے واقعہ نے ساری دنیا کے لئے سیکولر بھارت کا وہ چہرہ بے نقاب کردیا تھا جس میں وہ اقلیتوں پر ظلم ڈھا رہا ہے۔ تین سو سال تک ہندوستان پر حکومت کرنے والے مسلمانوں کے خلاف ہندوﺅں کا رویہ ہمیشہ معاندارانہ رہا ہے۔ ہندو کی تعصب اور مسلمانوں سے امتیازی برتاﺅ ہی کے سبب قائد اعظم محمد علی جناح نے مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ وطن کا مطالبہ کیا تھا۔ قائد اعظم کو ہندو ذہنیت اورسازشوں اور ان کی مکاری کا بخوبی اندازہ تھا۔ تقسیم کے بعد بھارت میں مسلمانوں کو ہندوﺅں نے کسی میدان میں پنپنے نہ دیا۔ بابری مسجد کو انتہا پسند ہندوﺅں نے جس طرح شہید کیا اور نہتے مسلمانوں کا قتل عام کیا وہ بھارت کے ماتھے پر کلنگ کا ٹیکہ ہے۔ مسلمانوں پر انتہا پسندی کا الزام دھرنے والے بھارت میں اس کے سیاسی رہنما بھی مسلمانوں کے قتل اور مسجد کا شہید کرنے میں کسی سے پیچھے نہیں تھے۔ ایودھیا میں واقع بابری مسجد کو چھ دسمبر انیس سو بانوے کو ہندو انتہا پسندوں نے مسمار کر دیا تھا جن کا دعویٰ تھا کہ مسجد ان کے بھگوان رام کی جائے پیدائش پر تعمیر کی گئی تھی۔ اس واقعے کے دس دن بعد کہ جسٹس منموہن سنگھ لیبرہان کی سر براہی میں جسٹس لبراہن کمیشن کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ تاکہ اس تاریخی مسجد کی شہادت میں ملوث عناصر کو منظر عام پر لاکر انہیں سخت سے سخت سزا دی جائے۔ کمیشن نے ۷۱ برس کے بعد اپنی رپورٹ جون ٢٠٠٩کو پیش کردی تھی۔ جسٹس لیبرہان نے تیس جون کو یہ رپورٹ حکومت کو پیش کی تھی اور حکومت کو اسے ایک ایکشن ٹیکن رپورٹ (اے ٹی آر) کے ساتھ چھ مہینے کے اندر ایوان میں پیش کرنا تھا۔ لیکن بھارت کی موجودہ حکومت نے سیاسی مقاصد کے تحت اس رپورٹ کو چار ماہ تک دبائے رکھا۔ چند دن پہلے اس رپورٹ کے کچھ حصے انڈین ایکسپریس اخبار نے شائع کردئیے۔ جس سے بھارت کی سیاست میں ایک بھونچال آگیا ہے۔ اخبار نے انکشاف کیا ہے کہ جسٹس لیبرہان نے مبینہ طور پر یہ بھی کہا ہے کہ مسجد کی مسماری کا منصوبہ کافی سوچ سمجھ کر تیار کیا گیا تھا اور بی جے پی کی اعلیٰ قیادت کو اس کا علم تھا۔ انگریزی اخبار انڈین ایکسپریس نے وزارت داخلہ میں ایسے ذرائع کے حوالے سے خبر دی تھی کہ جسٹس منموہن سنگھ لیبرہان نے بی جے پی کی اعلیٰ قیادت کو ’سیوڈو ماڈریٹ‘ یا دکھاوے کے اعتدال پسند بتایا ہے۔ اس رپورٹ میں جہاں مسلمانوں پر یہ کہہ کر تنقید کی گئی ہے کہ وہ ایک منطقی اور واضح نقطہ نظر پیش کرنے میں ناکام رہے۔ وہاں سنگھ پریوار ( آر ایس ایس، شو سینا اور وی ایچ پی) کی اعلیٰ قیادت کے بارے میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے ملک کو فرقہ وارانہ منافرت کے دہانے پر پہنچا دیا تھا۔ اخبار کے مطابق بابری مسجد کی مسماری ایک سوچا سمجھا قدم تھا۔ اس میں ہندو نظریاتی تنظیم آر ایس ایس کا ہاتھ تھا اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈر اٹل بہاری واجپائی اس سازش میں شامل تھے۔ رپورٹ مییں اس وقت کے وزیر اعظم نرسمہا راو کو یہ کہہ کر بری کردیا ہے کہ مرکز میں اس وقت کانگریس کی حکومت کیا کرسکتی تھی۔ اس رپورٹ کا شائع ہونا تھا کہ بی جے پی نے واویلا مچانا شروع کردیا کہ اس کے خلاف سازش کی جارہی ہے اور اسے ایک خاص وقت میں منظر عام پر لایا گیا ہے۔ انکوائری کمیشن کی رپورٹ ذرائع ابلاغ میں منظر عام پر آنے کے بعد حزب اختلاف نے مطالبہ کیا تھا کہ اسے بلا تاخیر پارلیمان میں پیش کیا جائے۔ پارلیمان میں رپورٹ پیش کیے جانے کے بعد راجیہ سبھا میں حزب اختلاف کے اراکین نے نعرے بازی کی اور کچھ ارکان کے درمیان ہاتھا پائی بھی ہوئی۔

اس رپورٹ میں پولیس پر الزام ہے کہ وہ بابری مسجد کا انہدام چپ چاپ دیکھتی رہی اور اسے روکنے کی کوشش نہیں کی جن لوگوں نے جمہوریت کے ساتھ غداری کی مخالفت کرنی چاہی انہیں فوراً خاموش اور بے اثر کر دیا گیا۔ وفاقی حکومت مفلوج ہوکر رہ گئی تھی کیونکہ انٹیلیجنس ایجنسیوں نے اسے صورتحال کا صحیح تجزیہ فراہم نہیں کیا تھا۔ ریاست کے وزیر اعلیٰ نے پہلے ہی یہ احکامات دے دیے تھے کہ کار سیوکوں کے خلاف طاقت کا استعمال نہ کیا جائے اور موقع پر موجود پولیس افسران نے مسجد کی مسماری کو روکنے کی کوشش نہیں کی۔ سنگھ پریوار کے رہنما یہ چاہتے تھے کہ چھ دسمبر کے واقعات کو کوئی واضح ریکارڈ باقی نہ رہے اس لیے صحافیوں کو چن چن کر نشانہ بنایا گیا۔ بابری مسجدی کی مسماری کے لیے تین طرح کے لوگ ذمہ دار تھے۔ ایک وہ جنہوں نے سازگار حالات پیدا کیے، یہ وہ لوگ تھے جو اس حملے کو روک سکتے تھے۔ یہ ریڈیکل عناصر تھے۔ دوسرا گروپ ان لوگوں کا ہے جن پر نظریاتی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ یہ وہ لوگ تھے جنہیں دکھاوے کا اعتدال پسند کہا جاسکتا ہے۔ ریڈکل کسی بھی قیمت پر مسجد گرانا چاہتے تھے، نام نہاد اعتدال پسند مندر بنانا چاہتے تھے لیکن لازمی طور پر مسجد کی مسماری کی قیمت پر نہیں۔ تیسرا گروپ وہ ہے جس پر ثانوی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ رپورٹ میں ان ’سیوڈو ماڈریٹ‘ یا صرف دکھاوے کے اعتدال پسندوں کو آڑے ہاتھوں لیا گیا ہے۔ ایک طرف تو ایڈوانی، واجپائی اور جوشی جیسے رہنما یہ کہتے رہے کہ اس پورے سانحہ میں ان کا کوئی قصور نہیں تھا لیکن دوسری طرف یہ بات بالکل واضح ہے کہ چھ دسمبر کے واقعات نہ جذبات کی رو میں بہہ کر پیش آئے اور نہ یہ کسی غیر ملکی سازش کا نتیجہ تھے۔ ان کی منصوبہ بندی بہت سوچ سمجھ کر اور بہت تفصیل سے کی گئی تھی۔ لہٰذا ایسے میں سوال یہ اٹھتا ہے کہ ان دکھاوے کے اعتدال پسندوں کو کیا سازش کا علم تھا، کیا سنگھ پریوار ان کے کنٹرول میں تھا اور کیا وہ مسجد کی مسماری کو روکنے کے لیے کچھ کرسکتے تھے؟ کافی گہرے مطالعے کے بعد کمیشن اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ ان دکھاوے کے اعتدال پسندوں کو بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ایک لمحے کے لیے بھی یہ نہیں مانا جاسکتا کہ ایڈانی، واجپائی اور جوشی کو سنگھ پریوار کے عزائم کا علم نہیں تھا۔ یہ لوگ فیصلہ سازی کے عمل میں شامل تھے۔ یہ رہنما آر ایس ایس کے احکامات کی خلاف ورزی نہیں کرسکتے تھے کیونکہ ایسا کرنے سے ان کی سیاسی زندگی ختم ہوجاتی۔ آر ایس ایس ان کے کنٹرول میں نہیں تھا اور جو راہ انہیں اختیار کرنے کی ہدایت دی گئی تھی اس کے تعین میں بھی ان کا کوئی عمل دخل نہیں تھا۔

کمیشن کو اس بات کے شواہد نہیں ملے ہیں کہ حالات ان رہنماں کے کنٹرول میں تھے یا وہ ان کی سمت بدل سکتے تھے۔ لیکن جرم کی ذمہ داری کے تعین میں انہیں شبہہ کا فائدہ نہیں دیا جاسکتا۔ ’اوپر سے ملنے والے احکامات‘ کی بنیاد پر کسی کو ذمہ داری سے بری نہیں کیا جاسکتا۔ عدالت میں اس صفائی کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ ان رہنماؤں نے جو کیا ہے اس سے بڑا جرم یا غداری جمہوری نظام حکومت میں ممکن نہیں ہے۔ لہٰذا کمیشن کو ان دکھاوے کے اعتدال پسندوں کی مذمت کرنے میں کوئی جھجھک نہیں ہے۔ بابری مسجد کی مسماری کی انکوائری کرنے والے لیبرہان کمیشن نے سترہ سال کی تفتیش کے بعد جو نتائج اخذ کیے ہیں ان سے بی جے پی کی اعلیٰ قیادت اور سنگھ پریوار کے رشتوں کی ایک حیرت انگیز لیکن جیتی جاگتی تصویر ابھر کر سامنے آتی ہے۔ کمیشن کی رپورٹ نو سو صفحات سے زیادہ پر مشتمل ہے جس میں تحریک کے آغاز سے لیکر مسجد کے انہدام تک کے واقعات پر کافی دلچسپ انداز میں روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس رپورٹ کے کچھ اہم اقتباسات ملاحظہ کیجئے۔

سنگھ پریوار نے رام مندر کی تحریک کے دوران اپنی اشتعال انگیزی سے عام آدمی کی آواز کو خاموش کیا تاکہ کوئی مندر کے مطالبے کے خلاف آواز اٹھانے کی جرات نہ کرسکے۔ رام مندر کی تحریک کو آدمی اور ایک عام ہندو کی رضاکارانہ حمایت حاصل نہیں تھی لہٰذا اصل معنوں میں یہ عوامی تحریک نہیں تھی۔ تحریک چلانے کے لیے فنڈنگ سنگھ پریوار کے مختلف بینک کھاتوں سے فراہم کی گئی۔ یہ رقم دسیوں کروڑ روپے سے زیادہ تھی اور اسے چھ دسمبر انیس سو بانوے کے واقعات کو عملی شکل دینے کے لیے استعمال کیا گیا۔ مسجد کی مسماری سے قبل ایودھیا میں بڑی تعداد میں کارسیوکوں کی موجودگی محض اتفاق نہیں تھی۔ آر ایس ایس جیسی جماعتوں میں فوج جیسا ڈسپلن ہوتا ہے۔ لہٰذا اس بات میں دم نہیں کہ کار سیوک (مذہبی رضاکار) جذباتی ہوگئے تھے۔ بابری مسجد کی مسماری کے لیے بہت تفصیلی منصوبہ بندی کی گئی تھی اور یہ بات قابل یقین نہیں کہ وزیر اعلیٰ کلیان سنگھ یا آر ایس ایس کے سربراہ کے سدرشن یا سنگھ کے مقامی رہنماؤں کو اس کا علم نہیں تھا۔ آر ایس ایس اور وی ایچ پی کے مٹھی بھر رہنماؤں نے جس طرح عوام کے جذبات بھڑکائے، اس کی حالیہ وقتوں میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ بی جے پی، آر ایس ایس، بجرنگ دل اور وی ایچ پی وغیرہ میں قیادت کا ایک ایسا طبقہ ابھرا جس نے کسی بھی نظریہ اور اخلاقی اقدار کی پرواہ کیے بغیر ایودھیا ایشو کو بھڑوا دیا اور اس دوران کسی بھی جانی نقصان کی پرواہ نہیں کی۔ یہ قاتل تھے جن کے ہاتھوں میں تلوار ان کے نظریاتی رہنماؤں نے تھمائی تھیں۔ اس دوران اتر پردیش میں آر ایس ایس کی متوازی حکومت کام کر رہی تھی۔ کلیان سنگھ اور ان کی ٹیم نے ایسے حالات پیدا کیے کہ بابری مسجد کی مسماری یقینی ہوگئی تھی۔ اور انہیں لال کرشن ایڈوانی، اٹل بہاری واجپائی اور مرلی منوہر جوشی کی حمایت حاصل تھی۔ یہ ہے بھارت کا اصل چہرہ۔ مسلمانوں نے ہندوستان میں جس مذہبی رواداری سے کام لیا۔ یہ مسجد بھی اسی کی ایک داستان ہے۔ تاریخی طور پر یہ بات درست نہیں ہے کہ یہ مسجد بابر نے تعمیر کروائی تھی۔ اس مسجد کی تعمیر اس زمانے میں ہوئی جب اورنگ زیب عالمگیر یہاں کا صوبہ دار تھا ایک روائت کے مطابق یہاں ایک ہندو جاگیردار رہا کرتا تھا جس کی بیٹی حسن و شباب میں یکتا تھی۔ صوبہ کے ایک مسلمان حاکم نے ( جو وہاں کافی اثرورسوخ کا مالک تھا ) اپنی حیثیت کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے جاگیردار کی بیٹی پر دست درازی کی۔ مقامی طور پر جاگیردار کا کوئی داد رسی کرنے والا نہ تھا آخر کار وہ اپنی شکایت لے کر صوبہ دار اورنگ زیب عالمگیر کے پاس بہنچا۔ عالمگیر نے جاگیردار کا مؤقف سنا حاکم کو طلب کیا۔ تحقیقات کے نتیجے میں حاکم کا جرم ثابت ہوجانے پر اس کو سزائے موت دی گئی۔ کہا جاگیردار اس انصاف پر اپنے خاندان سمیت مسلمان ہوگیا اور اپنی جاگیر کا وہ بہترین حصہ پیش کیا جس پر یہ شاندار مسجد تعمیر کی گئی۔ اس مسجد کو مغل حکمرانوں کے جدامجد ظہیر الدین محمد بابر کے نام سے منسوب کیا گیا۔ یہ مسجد رام کوٹ پہاڑی پر 16 ویں صدی میں ریاست اتر پردیش کے شہر ایودھیا میں تعمیر کی گئی۔ 1528ء کے لگ بھگ انتہا پسند ہندوؤں نے یہ شوشہ چھوڑا کہ مسجد رام کی جنم بھومی یعنی جائے پیدائش کو گرا کر تعمیر کی گئی ہے۔ 1949 میں مسجد کو بند کرا دیا گیا۔ اس طرح 40 سال سے زائد عرصے تک یہ مسجد متنازع رہی۔ 6 دسمبر 1992ءکو انتہا پسند ہندوؤں نے مسجد کو شہید کردیا۔ جس کے بعد بھارت میں اپنی تاریخ کے بدترین ہندو مسلم فسادات ہوئے۔ جن میں تین ہزار افراد ہلاک ہوئے۔ اس مسجد پر پہلے بھی فسادات ہوتے رہے ہیں سب سے پہلے1853: ایودھیا کے پہلے مذہبی فسادات ہوئے۔1859: برطانوی نوآبادیاتی حکومت کی جانب سے عبادت کی جگہ کی تقسیم کر دی گئی۔1949: مسجد کے اندر سے ’رام‘ کی مورتی کی دریافت کا شوشہ چھوڑا گیا۔ حکومت نے متنازعہ مقام قرار دے کر مسجد بند کروا دی۔1984: وشوا ہندو پریشد کی جانب سے’رام‘ کی جائے پیدائش کو آزاد کروانے کے لیے تحریک کا اعلان کیا گیا اور بی جے پی کے رہنما لعل کرشن ایڈوانی نے اپنی سیاست چمکانے کے کئے اس تحریک کی قیادت سنبھال لی۔1986: ضلعی عدالت کی جانب سے ہندوؤں کو متنازعہ مقام پر پوجا کی اجازت دے دی گئی۔ جس پر مسلمانوں کا جانب سے بابری مسجد ایکشن کمیٹی کا قیام عمل میں آیا۔1989: وشوا ہندو پریشد نے مسجد سے ملحقہ زمین پر رام مندر کی بنیاد رکھ دی۔1990: وشوا ہندو پریشد کے حامیوں نے مسجد کو جزوی طور پر نقصان پہنچایا۔ بھارتی وزیرِاعظم کی جانب سے مسئلے کے حل کی کوشش کی گئی۔ جو ناکام رہی۔1991: ریاست اتر پردیش میں بی جے پی حکومت کا قیام عمل میں آیا۔ بی جے پی کی حکومت میں1992: وشوا ہندو پریشد کے حامیوں کی جانب سے بابری مسجد کی شہادت ایک سوچے سمجھے منصوبے سے کی گئی اور ہندو مسلم فسادات کرائے گئے جس میں تین ہزار افراد ہلاک ہوئے جن کی اکثریت مسلمان تھی۔ گجرات کے بدنام زمانہ فسادات میں بھی گجرات کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندر سنگھ مودی ملوث تھے۔ کشمیر میں مسلمانوں کو جس طرح قتل کیا جارہا ہے۔ یہ سب بھارت کا مکروہ چہرہ ہے۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 409013 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More