لالہ جی بڑی زبردست شخصیت کے
مالک ہیں۔ شیزان بیکرز کے مالک۔ میرے والد کے بچپن کے دوست اور سبھی کے
لالہ جی۔ میں نے سوائے اپنے والد کے ہر چھوٹے بڑے کو انہیں لالہ جی کہتے ہی
سنا۔ میرے والد کا اور ان کا بچپن کا ساتھ تھا۔ شاید اس لئے وہ انہیں ان کے
نام سے پکارتے تھے۔ ورنہ زیادہ تر لوگ تو لالہ جی کے نام سے بھی واقف نہیں۔
میرا بچپن لالہ جی کے ہاتھوں میں کھیلتے گزرا۔ آج بھی میرا اور ان کا
احترام کا رشتہ ہے۔ وہ مجھے والد کی طرح عزیز ہیں اور وہ بھی مجھے اپنا
بیٹا سمجھتے ہی نہیں، بیٹوں کی طرح پیار بھی کرتے ہیں۔ انسان کو ہر عمر میں
ایک کندھے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جہاں سر رکھ کر وہ دکھ درد کا اظہار کرتا، اور
دکھ درد بانٹتا ہے۔ تو لالہ جی میرا وہ کندھا ہیں اور اپنی تسکین کے لئے
میں ان کا محتاج۔ ہفتے یا دس دن بعد میں ضرور ان کے پاس جاتا ہوں۔ ان کی
بھرپور زندگی کی باتیں سنتا ہوں۔ ان کے ذاتی تجربات کی باتیں، ان سے مستفید
بھی ہوتا ہوں۔ کہتے ہیں کہ ضروری نہیں انسان ہر چیز ذاتی تجربے سے ہی
سیکھے۔ بہت سی باتیں سیکھنے کے لئے بزرگوں کے قدموں کے نشان دیکھتے ہوئے
راستہ پا لینا سب سے بہتر ہوتا ہے۔ منزل بھی آسان ہو جاتی ہے۔
چند دن پہلے لالہ جی اپنی جوانی کا ایک قصہ سنا رہے تھے۔ برصغیر کی تقسیم
سے پہلے وہ باغ جناح جو اس وقت کمپنی باغ کے نام سے موسوم تھا، میں بیٹھے
تھے۔ سامنے کچھ فاصلے پر دس پندرہ ہندو اور سکھ لڑکے گپوں میں مصروف تھے۔
ایک سکھ لڑکے نے پتہ نہیں کیا سمجھا اٹھ کر ان کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ
تم لوگوں نے مجھے مذاق کیا ہے۔ انہوں نے انکار کیا کہ ایسی تو کوئی بات
ہوئی ہی نہیں۔ مگر وہ بضد تھا کہ مذاق کیا گیا ہے۔ بات بحث سے چلی مگر یکدم
انہوں نے ہمارے ایک ساتھی کو پکڑ کر پیٹنا شروع کر دیا۔ ہم چار پانچ لوگ
تھے اور وہ دس پندرہ۔ ساتھی کو مار پڑنا شروع ہوئی تو ہم باقی لوگ بھی اسے
بچانے کے لئے لڑائی میں کودنا شروع ہو گئے۔ باغ میں کچھ مالی کام کر رہے
تھے۔ اتفاق سے وہ سارے مالی مسلمان تھے۔ انہوں نے دیکھا کہ ہندو اور سکھ
لڑکے تعداد میں زیادہ ہونے کے سبب مسلمان لڑکوں کے ساتھ بدمعاشی کر رہے ہیں
تو وہ بھاگے آئے اور شور مچایا کہ یہاں لڑائی مت کرو۔ مگر کوئی ان کی بات
سننے کو تیار نہیں تھا۔ کوئی صورت لڑائی ختم ہونے کی نہ پا کر ایک مالی نے
چپکے سے ہمارے ایک ساتھی کو کہا ’’جلدی سے میرا ڈنڈا مجھ سے چھین لو۔ میں
ڈنڈے کے چھینے جانے کا شور مچاؤں گا مگر تم نے پرواہ نہیں کرنی۔ ان لوگوں
کو ایسا ڈنڈا پھیرنا ہے کہ آئندہ انہیں بدمعاشی بھول جائے۔‘‘ ہمارے ساتھی
نے فوراً ڈنڈا پکڑا اور دھنائی شروع کر دی۔ ہمارے ایک دوسرے ساتھی نے بھی
ایسا ہی کیا۔ چند لمحوں میں صورتحال بدل چکی تھی۔ سکھ اور ہندو لڑکے پناہ
کی تلاش میں بھاگے پھر رہے تھے اور ہم انہیں ڈھونڈ رہے تھے۔ یہ ڈنڈے اور
ڈنڈے دینے والوں کا کمال تھا کہ جس نے اقلیت کو بڑی آسانی سے اکثریت پر
برتری دلا دی۔
آزادی مارچ اور انقلاب مارچ کو چار ہفتے ہونے والے ہیں۔ بظاہر حکومت سنبھل
گئی مگر عملاً حکومتی رٹ کہیں نظر نہیں آتی۔ دھرنے والے دھرنا ختم کرنے پر
آمادہ نہیں۔ شریف برادران استعفیٰ دینے سے انکاری ہیں۔ یوں حالات عجیب جگہ
پھنس کر رہ گئے ہیں۔ ایسے میں پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ہوا۔ جس میں
جمہوریت کے نام پر بے انتہا بغلیں بجائی گئیں۔ جمہور کی حکومت عوام کی
نمائندہ ہوتی ہے۔ سیاسی ورکرز پارلیمنٹ کو رونق بخشتے ہیں جو خدمت خلق کے
جذبے سے سرشار ہوتے ہیں ۔جو ہر طرح کے کاروبار اور کرپشن سے دامن بچا کر
انتہائی دیانتداری سے اپنے فرائض انجام دیتے ہیں ۔مگر ہماری پارلیمنٹ کیسے
جمہوری ہے۔ اس میں تو سیاسی ورکر یا سیاسی افراد کی تعداد دس فیصد سے بھی
کم ہے۔ باقی تمام سرمایہ دار، صنعت کار، پیر اور وڈیرے ہیں۔ جو ٹیکس چور
ہیں۔ رسہ گیروں اور ڈاکوؤں کے سرپرست ہیں اور سب سے بڑھ کر بے حس، بے ضمیر
اور بے شعور ہیں۔ اگر ان میں یہ اوصاف نہ ہوتے تو یقینا آج عوام کے حالات
بہت مختلف ہوتے۔
میرا جناب عمران خان اور محترم ڈاکٹر طاہر القادری سے کوئی سیاسی تعلق نہیں
مگر یہ کہنا کہ ان کا ایک مخصوص ایجنڈے کے سوا کوئی لائحہ عمل نہیں۔ کوئی
ٹھوس پروگرام نہیں۔ کوئی منشور نہیں۔ سراسر غلط ہے۔ دونوں وہی باتیں کر رہے
ہیں جو دنیا بھر کے انقلابی کرتے رہے ہیں جو قائداعظم نے کیں جو بھٹو نے
کیں۔ وہ غریبوں کی بات کر رہے ہیں۔ نچلے طبقوں کی بات کر رہے ہیں۔ موجودہ
پارلیمنٹ کے ممبریا وہ انقلابی جو بات سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں وہ بھی
خاموش ہیں۔ اس لئے ان میں سے زیادہ تر یا تو مشرف با امریکہ ہو چکے ہیں یا
پھر نواز شریف کی گود میں پل رہے ہیں۔ انقلابی پن جب مالی زنجیروں میں بندھ
جائے تو وہ مجبور اور لاچار ہو جاتا ہے۔ سچ بات کہنے کی ہمت اور جرات اس
میں نہیں ہوتی۔
لاہور میں ماڈل ٹاؤن کے سانحے میں جو لوگ بلاک ہوئے انہیں ریاست کے زور پر
پولیس گردی سے مارا گیا۔ ان کی ہلاکت میں سیاسی ہاتھ پوری طرح عیاں ہیں۔
افسوس پارلیمنٹ میں کوئی ایک شخص ایسا نہیں جسے مقتولوں سے ہمدردی ہو۔
کیونکہ وہ عام لوگ تھا۔ پارلیمنٹ کو عام لوگوں سے کیا لینا دینا۔ پوری
پارلیمنٹ کسی نہ کسی انداز میں قاتلوں کو تحفظ دینے کے لئے سرگرم ہے۔
پارلیمنٹ میں جمہور کے نمائندے موجود ہی نہیں۔ جمہور سے ہمدردی کسے ہو گی۔
پارلیمنٹ میں قاتلوں کے زر خرید یا ان سے مفادات لینے والے لوگ ہی نظر آتے
ہیں۔ اگر کوئی میری اس بات سے انکاری ہے تو جرات کا مظاہرہ کر دکھائے
کیونکہ عمران خان اور طاہر القادری کو چھوڑیں قتل ہونے والے چودہ افراد کا
تعلق تو جمہور سے ہے اور ان کے بارے بات کرنا آپ کا فرض ہے بشرطیکہ آپ
واقعی جمہوری ہیں اور اس ملک میں واقعی جمہوریت ہے وگرنہ یاد رکھیں اﷲ کے
ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔
فوج اس ملک کی بقا، سلامتی اور اتحاد کی ضامن ہے۔ پارلیمنٹ میں جس طرح فوج
کو ٹارگٹ کیا گیا اور جو باتیں کی گئیں وہ سب اس قوم کے لئے باعث شرم ہے۔
فوج نہ کبھی پہلے کمزور تھی اور نہ اب کمزور ہے۔ فوج جب بھی آئی سیاست
دانوں کی سیاہ کاریوں کے نتیجے میں آئی۔ اب بھی فوج کے لئے سیاستدانوں نے
سب اسباب مہیا کر دئیے ہیں مگر فوج تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کر رہی ہے۔
ڈنڈا فوج کے ہاتھ میں ہے وہ اگر کسی کو چند لمحوں کے لئے بھی ڈنڈا تھما دے
وہی فاتح ہو گا۔ رہی مسلم لیگ تو پاکستان بننے سے آج تک کی پاکستان مسلم
لیگ کی تاریخ دیکھ لیں۔ یہ ان لوگوں کا ٹولہ ہے کہ جن کی سرشت میں وفا
نہیں۔ فوج اگر کسی کے ساتھ کھڑی ہو گئی تو اس کے سارے شیر دم ہلاتے اسی طرف
جاتے نظر آئیں گے۔ فوج اگر خود کو سیاست سے پرے رکھ رہی ہے تو حوصلہ کریں
کسی شخص کے انفرادی فعل کو فوج سے موسوم نہ کریں۔ آپ کے فضول نعروں کے سبب
فوج کے جوانوں اور افسروں میں اضطراب ہے۔ جنرل راحیل اور ان کے دوسریسینئر
ساتھی متحمل ہیں۔ بردبار ہیں۔ ان میں قوتِ برداشت ہے، مگر کب تک ۔سیاسی
مافیہ کو بھی وقت کی نزاکت کا خیال ہونا چاہیے۔ اس ملک کے عوام کو اب تک
جمہوریت نے کچھ نہیں دیا اس لئے جمہوریت کے نام پر عوام سے بھی بہت زیادہ
امید نہ رکھیں۔ |