عوامی تحریک اور تحریک انصاف کے
دھرنے کو ایک ماہ ہونے کو ہے ۔ جوں جوں اننگز طویل ہوتی جارہی ہے سیاسی
بالخصوص حکمرانوں کے چہروں پر اطمنان کے آثار نظرآنا شروع ہو گئے ہیں لیکن
انہیں حقیقی قرار اُس دن ملے گا جس دن جمہوریت سے محروم یہ جمہور شاہراہ
دستور کے پرفضا مقام سے نکل کر دوبارہ ٹوٹے پھوٹے گلی محلوں کی راہ لیں گے۔
میڈیا پر پر دھرنوں سے اُکتاہٹ اوربے نتیجہ ہونے کی باتیں بھی ہونے لگی ہیں
لیکن ان حلقوں کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ میچ ابھی جاری ہے ۔ یہ پاکستان
کی تاریخ کی سب سے لمبی سیاسی اننگ ہے جس میں کبھی حکومتی پلہ بھاری تو
کبھی مظاہرین بازی لے جاتے دکھائی دیتے ہیں۔ دھرنے سے قبل وفاقی
وزیراطلاعات پرویز رشید نے کہا تھا یہ میچ ون ڈے ہوگا اور مظاہرین صبح جاکر
شام کو واپسی کی راہ لیں گے لیکن یہ تو طویل ترین ٹیسٹ میچ ثابت ہوا۔ اور
ٹیسٹ کرکٹ کی یہ خصوصیت ہے کہ یہ روایتی کرکٹ سے ہٹ کر اعصاب کی جنگ ہوتی
ہے جس میں مخالف ٹیم پر حملوں سے زیادہ اُسے تھکانے پر توجہ دی جاتی ہے۔ اس
میچ میں کبھی کبھی ایک بھی غلطی جیتی ہوئی بازی ہارنے کا سبب بنتی ہے۔ اب
تک تینوں فریقین یعینی حکومت ، عوامی تحریک اور تحریک انصاف اپنے اپنے محاذ
پر ڈٹے ہوئے ہیں ۔ تینوں ایک دوسرے کو تھکانے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔
وقت کے ساتھ دھرنوں میں افرادی قوت کا کم ہونا فطری عمل ہے لیکن مظاہرین کے
حوصلے بلند دکھائی دیتے ہیں-
حکومت کی بات کی جائے تو یہ اس اعصابی جنگ میں مسلسل تناؤ کا شکار نظر آتی
ہے ۔ ایسے ایسے فیصلے کیے جارہے ہیں جو کسی بھی وقت اس کی ہار کی وجہ بن
سکتے ہیں ۔ ابھی دھرنے شروع بھی نہیں ہوئے تھے حکومت نے پورے لاہور کو
کنٹینر لگا کر سیل کردیا۔ عوام کا شدید ردعمل سامنے آیا۔ مظاہرین رکاوٹیں
عبور کر کے اسلام آباد کے لیے نکلے تو کہا جانے لگا کہ حکومت نے خود اجازت
دی ہے ۔ا گر خود اجازت دی تو پھر اتنا بڑا تماشا کھڑا کرنے کیا ضرورت تھی ۔
دوسری بڑی غلطی سترا روز سے بیٹھے پر امن مظاہرین پر بدترین ریاستی جبر
تھا۔ جس میں خواتین اور شیرخوار بچے بھی نشانہ بنے ۔ روایت سے ہٹ کر اس بار
میڈیا بھی اس جبر کی زد میں آیا جس نے حکومت کی ساکھ کو بری طرح مجروح کیا
اور اپوزیشن لیڈر کو فلورپر آکر معافی مانگنا پڑی۔ مذاکرات دیر سے شروع
کرنا، آرمی چیف سے متعلق بیان، ایوان میں چوہدری نثار کا اعتزاز احسن سے
ایسے وقت میں الجھنا جب مظاہرین کا لشکر پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے براجمان
تھا۔ ایسی غلطیاں تھیں جس نے حکومت کی پوزیشن کمزور کی۔ دوسری طرف مظاہرین
سے بھی کچھ کم خطائیں نہیں ہوئیں۔ سب سے بڑی غلطی تو یہ کہ فیصلہ کن جنگ
لڑنے جا رہے ہیں تو کم ازکم بھرپور تیاری کے ساتھ جانا چاہیے تھا۔ ہمیں یاد
ہے کہ چودہ جنوری 2012 کو عوامی تحریک نے سخت سردی میں لانگ مارچ کیا تو
مظاہرین اپنے ساتھ بارہ ہزار خیمے اور ضرورت کی ہر چیز ساتھ لائے لیکن اس
مرتبہ ایسے خاص انتظامات دیکھنے میں نہیں آئے ۔ سخت گرمی اور بارش میں
مظاہرین بالخصوص عورتیں اور بچے سر چھپانے کو جگہ تلاش کرتے نظر آئے۔
دھرنوں میں پانی اور بیت الخلاء کی بھی کمی ہے جس کے نتیجے میں پہلی رات
تحریک انصاف کو کافی سبکی اُٹھانا پڑی جب عمران خان مظاہرین کو تنہا چھوڑ
کر اپنی رہائش گاہ بنی گالہ روانہ ہوگئے۔ پی ٹی وی پر حملے نے بھی مظاہرین
کی ساکھ کو متاثر کیا۔ ظاہرالقادری اور عوام خان کے بار بار الٹی مٹم سے
بھی مایوسی بڑھی-
البتہ میچ ابھی جاری ہے اور جیت اسی کا مقدر بنے گی جو اعصاب کی اس جنگ میں
زیادہ دیر تک محاذ پر ڈٹا رہے ۔ کارکنوں کا عزم دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ
امپائر کو فیصلہ سنانے میں کافی مشکل پیش آ رہی ہے ۔ ایک غیر ملکی ٹی وی نے
خبر دی کہ دھرنوں میں کارکن خرید کر لائے گئے ہیں ۔ کم از کم ہماری سمجھ سے
باہر ہے ۔ جس مقام پر کسی بھی وقت مظاہرین پر آنسو گیس کے شیل ، ربرکی
گولیاں اور گرفتاریوں کا امکان ہو وہاں چند روپوں میں کسی کو لانا اور اتنی
دیر کھڑے رکھنا ناقابل فہم ہے۔ ماضی میں مظاہرین کے لیے قیمے کے نان اور
روپے کی ریل پیل کی مثالیں موجود ہیں لیکن اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ
گزشتہ سات سال سے جاری نام نہاد جمہوری تسلسل نے عوام کو کچھ نہیں دیا۔
بقول جالب اس دوران صرف وزیروں کے ہی دن پھرے اور قوم کا ہر بلاول مسلسل
قرضوں مٰں پستا گیا۔ یہی وہ کمزوری ہے جس نے حکومت اور اس کے اتحادیوں کو
اس بحران میں لاکھڑا کیا ہے ۔ دیر اید درست آید لیکن اب زیادہ دیر تک
معاملہ ایسے ہی نہیں چل سکتا،،، دونوں فریقین کو کچھ نہ کچھ قربانی دینا
ہوگی ۔ دھرنوں نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ پاکستان بدل گیا ہے۔ 26دن سے
جاری دھرنا عوام کو وہ شعور دے گیا ہے جس سے دور رکھنے کی 67 سال تک کوشش
ہوتی رہی،،، پاکستانی سیاست میں دو بڑی پارٹیاں انٹری دے چکی ہے،،، پاکستان
تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک ۔ عوامی تحریک کے سربراہ علامہ
طاہرالقادری نے بھی آئندہ الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس کا
مطلب یہ ہے کہ عمران خان کے بعد طاہرالقادری کا ووٹ بھی آئندہ انتخابات میں
اہم ثابت ہوگا۔ ان کے کارکن پولنگ ڈے پر کیا جادو جگا سکتے ہیں وہ ریڈزون
پر پولیس سے لڑائی میں بخوبی اندازہ ہوچکا ہے۔ دھرنے کے بعد انتخابی
اصلاحات بھی یقینا اس ملک کا مقدر بنیں گی جس کے بعد روایتی پارٹیوں کو
اتنی آسانی سے حلوہ کھانے کا موقع نہیں ملے گا۔ اور تازہ خبر یہ ہے کہ ڈیرہ
اسماعیل خان کی نشست پی کے اڑسٹھ پر ضمنی انتخاب کا میدان تحریک انصاف نے
مارلیا ۔ غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق پی ٹی آئی کے امیدوار
احتشام جاوید سینتیس ہزار ایک سو بائیس ووٹ لیکر کامیاب ہوگئے۔ مخالف آزاد
امیدوار کو ن لیگ ، پی پی ، جے یوآئی کی حمایت حاصل تھی۔ |