شہرمالیگاؤں کی پچاس سالہ سیاسی تاریخ پر ایک طائرانہ نظر
(Ata Ur Rehman Noori, India)
ایم آئی ڈی
سیز،یونیورسٹی،ضلع،ملٹی اسپیشلٹی ہاسپٹل،ٹرین جیسے اہم مُدّے ہنوز محروم
مسلم اکثریت والے شہروں میں ترقی کا گراف انتہائی کم کیوں ہوتاہے؟
شہر مالیگاؤں کی پچاس سالہ سیاسی تاریخ پر نظردوڑائے تویہ پچاس سالہ دور
ایک عجیب سی داستان بیان کرتاہے۔اہلیان مالیگاؤں ستّہ میں موجودجس لیڈرکی
پانچ سالوں تک بُرائیوں اورکوتاہیوں کے نغمے الاپتے ہیں،آنِ واحد میں پورے
شہر کے لوگوں کی ذہنیت نہ جانے کیسے تبدیل ہوجاتی ہے اور پھر سیاست کی کرسی
پر برسوں تک وہی لیڈربراجمان نظرآتاہے جس کی سستی وکاہلی کے چند دن پہلے تک
ترانے گنگنائے جارہے تھے۔ رفتہ رفتہ سوچ بدلی،نظریات بدلے،وقت بدلا،سیاسی
حالات اُتھل پُتھل ہوئے،بڑی تبدیلی واقع ہوئی ،تعمیری،فلاحی،طبی اور شہری
ترقی کے نام پر نئے نئے چہرے عوام کے سامنے جلوہ گر ہوئے،لوگوں کا اعتماد
حاصل کیا،ووٹ بینک بڑھائی،سیاسی کرسی حاصل کی اورپھر وہی ہواجو برسوں سے
ہوتاآرہا تھا، صرف جھوٹے وعدے،ایک دوسرے پر لعن طعن،دھوکہ دہی،الزام تراشی
اور عوامی حقوق کا استحصال۔اس کرسی کے لیے کئی لوگ کئی ایجنڈوں کے ساتھ
آئے،شرٹ پینٹ والوں سے لے کر کُرتاٹوپی والوں تک،دنیاکی ترقی اور دین دھرم
کا واسطہ دیامگر اہلیان مالیگاؤں نے دیکھا کہ سب کے سب ’’ایک حمّام میں سب
۔۔۔۔‘‘کے مصداق ٹھہرے۔
سیاست خدمت خلق کا بہترین ذریعہ،عوامی بھلائی کا راستہ،تعمیر وترقی کی
بنیاد،نظم وضبط کی اساس،فکری توانائی کی اعلیٰ دلیل،رفعت وبلندی کی
سیڑھی،جہاں بانی وحکمرانی کی کلید،اعلیٰ تہذیب وتمدن کی علامت اور فتح
وکامرانی کی نشانی ہے۔مگر آج سیاست کی گفتگوکی جائے تو ماحول کچھ الگ ہی
نظر آتاہے۔بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ’’سیاست‘‘لفظ سنتے ہی ذہن وفکر میں دجل
وفریب،جھوٹ اور وعدہ خلافی،نفرت وحقارت،رشوت خوری اور مفاد پرستی اور عیش
پرستی ولذت کوشی کی بھیانک تصویر اُبھرآتی ہے۔اس میں کوئی دورائے نہیں کہ
آج اہل سیاست کا جو کردار ہے اسے قابل نفرت اور لائق مذمت کہا جائے مگر اس
میں غلطی سیاست کی نہیں بلکہ اہل سیاست کی ہے۔سیاست اپنی جگہ بہت ہی اہم
اور مفید چیزہے مگر آج کے دور میں اس کے ہٹے کٹے مریضوں نے اسے بدنام
کردیاہے،اسے لائق نفرت اور قابل مذمت بنادیاہے۔
شہرمالیگاؤں کے ان پچاس سالوں میں شہر میں کسی بھی قسم کی کوئی بھی صنعت
نہیں آئی ہے،ایک پاورلوم صنعت ہے مگر وہ بھی اکثربحران اور خسارے کا شکار
رہتی ہے،یایوں کہہ لیجئے کہ اپنوں کی محنت پر غیروں کی اجارہ داری کی صنعت
بھی برسوں سے سکرات میں زندگی گزار رہی ہے۔نسلی،برادری اور مذہبی سیاست تو
کھیلی گئی ہے مگر شہر ی فلاح وبہبود کے لیے کوئی بڑاکام نظرنہیں آتا۔پچاس
سالوں سے سیاسی اسٹیج سے صرف روـڈ،گٹراوربیت الخلاء کی تعمیر کا ہی ایجنڈہ
پیش کیاجاتارہاہے۔کیا صرف یہی مسائل ہے شہریوں کے۔افسوس!اس ذمہ داری کو
کتنی سستی سمجھ لیاگیا ہیکہ ایک MLAیعنی لجس لیٹیو اسمبلی کا ممبر عوام کے
سامنے سڑک اور بیت الخلاء کی تعمیر کی بات کرتاہے۔یہ گفتگو تو عوام اور ایم
ایل اے دونوں کی فکری کج روی کا اظہارکرتی ہے۔کیاMLAکے یہی اختیارات ہیں،اس
کی پاورس بس اتنی ہی ہے ؟اورکیا عوام اسمبلی کے ممبر سے صرف اتناہی کام
چاہتی ہے؟کہی ایسا تو نہیں کرسی کی دوڑ میں اہل سیاست کو اپنے اختیارات اور
کاموں کی خبر ہی نہیں؟کیا انھیں الیکشن سے پہلے اپنے حقوق کی جانکاری کیلئے
قانون کی کتابیں نہیں پڑھ لیناچاہئے؟اگر پچاس سالوں تک صرف ان تین باتوں پر
سیاست چلتی رہی تو ایم آئی ڈی سیز،انڈسٹریز،یونیورسٹی،کالج،ضلع،ملٹی
اسپیشلٹی ہاسپٹل،ٹرین،ریسرچ انسٹی ٹیوٹ وغیرہ جیسے اہم اور حساس پہلوؤں پر
آنے کیلئے ارباب سیاست کو نہ جانے اورکتنے سال درکار ہونگے؟
پورے مالیگاؤں پر ایک طائرانہ نظرڈالیں تو یوں معلوم ہوتاہیکہ شہر دوحصوں
میں تقسیم ہوچکاہے،ندی کے اس طرف نظر دوڑائے تو رہائشی مکانات کی بے
قاعدگی،صاف صفائی میں کمی،جگہ جگہ سڑکوں پر گٹر اور بارش کاجمع پانی،کچروں
کا ڈھیر،راشن دکانوں پربھیڑ،بے روزگاری،جھگڑے،اتی کرمن،ٹریفک،تعلیم کی کمی
وغیرہ وغیرہ مگر ندی کے اس پار ہر قسم کی سہولیات مہیاہیں۔ایسا کیوں ہے یہ
امر اربابِ علم ودانش سے مخفی نہیں ہے۔مسلم علاقے میں ایک بس اسٹینڈ ہے،جس
کے ٹرانسفر کی خبریں آئے دن اخباروں میں گردش کرتے رہتی ہے۔مستقبل قریب میں
کہی ایسانہ ہوجائے کہ ایک کیل خریدنے کیلئے ندی کے اُس پار جانا پڑے۔ویسے
بھی یہ کڑوی سچائی ہیکہ جن جن علاقوں میں مسلم آبادی اکثریت میں ہے ان
شہروں میں ترقی کا گراف انتہائی کم ہے۔(مثلاً: مالیگاؤں ،بھیونڈی اور دیگر
مسلم اکثریتی علاقے)اب ایسا کیوں ؟اس کی دووجہ ہوسکتی ہے،پہلی تو یہ کہ
عوام خودنہیں چاہتی کہ ترقی ہواور دوسری یہ کہ ارباب سیاست ڈیولپمنٹ نہیں
چاہتے ۔کیوں کہ اگر ایک قصبہ یاشہر، ضلع بن جائے تو آس پاس کے دوسرے قصبے
اور دیہات بھی ضلع میں شامل ہونگے۔یعنی الیکشن جیتنے کی اساس صرف مسلم ووٹ
بینک نہیں بلکہ دویا دوسے زائد دھرم پر مشتمل ہوگی۔جس کے سبب الیکشن میں
مقابلہ آرائی زیادہ ہونگی اور دوسماج کے سنگم کی وجہ سے اہل سیاست کی کرسی
خطرے میں پڑسکتی ہے ۔ یعنی کرسی کی حفاظت شہر کی ترقی کی بنیادی رکاوٹ
ہے۔جبکہ عزم یہ ہونا چاہئے کہ کام کی بنا پرصرف ضلعی نہیں بلکہ ریاستی
الیکشن فتح کرناہے،اور یہ نا ممکن بھی نہیں ہے۔کیاہم نے نہیں دیکھاکہ گجرات
کے وِکاس کوپیش کرکے ایک شخص کس طرح وزیراعظم کی کرسی پر جابیٹھاہے۔کسی
شاعر نے کہاہے
عزم محکم ہوتوہوتی ہے بلائیں پسپا کتنے طوفان پلٹ دیتاہے ساحل تنہا |
|