یہ ان دنوں کی بات ہے کہ جب آزاد
کشمیر میں مسلم کانفرنس کے صد ر سردار عتیق احمد خان کی ’’ چوکیداری‘‘ میں
وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر خان کی حکومت قائم تھی ۔کچھ عرصہ تو خیریت سے
گزرا لیکن پھر جب صدر مسلم کانفرنس کی وفاقی وزیر امور کشمیر میاں منظور
وٹو اور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں سے رابطوں،’’ مشترکہ پروگرام‘‘ اور مسلم
کانفرنسی حکومت کے خلاف عدم اعتمادکی اطلاعات آنے لگیں تو راجہ فاروق حیدر
خان کی طرف سے یہی کہاجاتا ’’کہ اگر صدر مسلم کانفرنس نے ایسا کیا تو اس کے
سوا اور کوئی چارہ نہیں رہے گا کہ آزاد کشمیر میں مسلم لیگ (ن) قائم کر دی
جائے ‘‘۔یعنی ان کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ ایسا ہونے کی صورت ماضی کی طرح
الگ گروپ بنانے کے بجائے سیاسی راستے ہمیشہ کے لئے جدا ہو جائیں گے۔پھر
مسلم کانفرنس کی حکومت کے خلاف پیپلز پارٹی کی آشیر باد میں عدم اعتماد ہو
گیااور مسلم کانفرنس کے صدر سردار عتیق احمد خان وزیر اعظم بن گئے۔لیکن
آزاد کشمیر میں مسلم لیگ(ن) کا قیام اتنا آسان ثابت نہیں ہوا۔مہینوں بعد
میاں محمد نواز شریف نے آزاد کشمیر میں مسلم لیگ(ن) قائم کرنے کی منظوری
دی۔پہلے عبوری سیٹ اپ بنا پھر باقاعدہ پاکستان مسلم لیگ(ن) آزاد کشمیر کی
مرکزی عہدیداران مقرر ہوئے جن میں راجہ فاروق حیدر خان صدر،شاہ غلام قادر
سیکرٹری جنرل، چودھری طارق فاروق سینئر نائب صدر اور راجہ نثار احمد
سیکرٹری اطلاعات ہیں۔
یوں تو تقریبا روزانہ مجھے ایسے ٹیلی فون آتے ہیں جس میں مختلف مسائل،امور
کی نشاندہی کرتے ہوئے ان موضوعات پر لکھنے کی بات کی جاتی ہے، گزشتہ چند
ماہ سے مسلم لیگ (ن) آزاد کشمیر کے کئی کارکنوں نے ٹیلی فون کرتے ہوئے مسلم
لیگ(ن)آزاد کشمیر کے مختلف امور کی صورتحال کی نشاندہی کرتے ہوئے تشویش کا
اظہار کیا اور اس توقع کا اظہار کیا کہ اس اہم موضوع پر بھی لکھا جائے۔ میں
اس حوالے سے ٹیلی فون کرنے والے مسلم لیگ(ن) کے مخلص ،بے لوث کارکنوں سے
معذرت خواہ ہوں کہ میں سیاسی مناظر دیکھتے ہوئے اس موضوع پر ان کی امید اور
اپنی خواہش کے مطابق لکھ نہیں پا رہا۔
مسلم لیگ (ن) آزاد کشمیر کے کارکنوں میں یہ تاثر ہے کہ آزاد کشمیر میں مسلم
لیگ (ن) کو صرف پارلیمانی پارٹی کے ذریعے چلایا جا رہا ہے،تمام
ملاقاتوں،اجلاسوں میں صرف پارلیمانی پارٹی کے ارکان ہی شریک ہوتے ہیں۔وقتا
فوقتا مختلف نوعیت کے جماعتی اجتماعات منعقد تو ہوتے رہتے ہیں لیکن وہاں
بھی پارلیمانی ارکان یوں غالب رہتے ہیں کہ کارکنوں کو اپنی رائے کے اظہار
کا موقع ہی نہیں ملتا۔ رائے کے آزادانہ اظہار کا بہترین موقع جماعتی اجلاس
ہوتے ہیں لیکن مسلم لیگ (ن)آزاد کشمیر کے مرکزی عہدیداران کا ایک بھی اجلاس
منعقد نہیں کیا گیا۔جماعت میں مختلف سطحوں پر گروپ بندی نظر آتی ہے،جماعت
میں رابطے ،ڈسپلن کا فقدان بھی نمایاں ہے۔
آزاد کشمیر کے بزرگ رہنما سردار سکندر حیات خان نے سابق آمر جنرل پرویز
مشرف کے دور حکومت میں آزاد کشمیر کے سرکاری امور پر مکمل’ ملٹری چیک‘ کے
چلن میں وزیر اعظم آزاد کشمیر کی حیثیت سے ایک واقعہ سنایا ۔ایک دن وہ جی
سی او مری کے پاس گئے تو وہ ٹی وی پہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کا میچ دیکھ رہے
تھے۔یہ وہ وقت تھا کہ مختلف فوجی افسران الگ الگ آزاد کشمیرحکومت کو
ہدایات/احکامات دیتے تھے،سردار سکندر صاحب نے ’جی سی او ‘کی کرکٹ میچ میں
دلچسپی دیکھی تو ان سے کہا کہ کتنا اچھا کھیل ہے یہ ،کہ اس میں فیصلہ دینے
والا ایک ہی امپائر ہوتا ہے،اگر فیصلے دینے والے زیادہ اپمائر ہوں تو کھیل
ہی تبا ہ ہو جائے گا۔
2016ء آزاد کشمیر میں الیکشن کا سال ہو گا۔موجودہ پیپلز پارٹی حکومت کے تین
سال یوں گزرے ہیں کہ اپوزیشن سے کہیں زیادہ اپنے وزراء اور ارکان کی بغاوت
،نافرمانی کی صورتحال حاوی چلی آرہی ہے۔کرپشن کے کئی سنگین الزامات،بد
انتظامی وغیرہ کے باوجود آزاد کشمیر کی پیپلز پارٹی حکومت چل رہی ہے۔البتہ
اس کا عوام و علاقہ کے حق کے بجائے شخصیات کے مفاد میں چلنا نمایاں
ہے۔آئندہ الیکشن کو دو سال کا عرصہ باقی رہ گیا ہے۔اگر آزاد کشمیر میں بھی
پاکستان کی طرز پر ’نادرا‘ کی کمپیوٹرائیز ووٹر لسٹیں تیار کی جائیں تو
آزاد کشمیر کے الیکشن پروسیس کی ساکھ بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔
کمپیوٹرائیز ووٹر لسٹیں کی تیاری کا کام اگر ابھی سے ’ نادرا‘ کے ذریعے
شروع نہ کیا گیا تو پھر اس اہم معاملے کو الیکشن تک پورا کرنا ناممکن ہو
گا۔
آزاد کشمیر کے آئندہ الیکشن میں مسلم لیگ (ن) کی کامیابی کے امکانات غالب
ہیں۔یہ وقت ہے کہ مسلم لیگ (ن) آزاد کشمیر کے آئندہ الیکشن کے لئے اپنی
تیاریاں شروع کر دے جس میں الیکشن اصلاحات پر توجہ بھی ایک اہم معاملہ
ہے۔یہ بہترین وقت ہے کہ جب مسلم لیگ (ن) آزاد کشمیر کے آئندہ الیکشن میں
کامیابی حاصل کرنے کے لئے ’’ کمی ،کوتاہی‘ پر توجہ دیتے ہوئے آزاد کشمیر کی
سیاست مین نمایاں اور واضح ہو سکتی ہے۔اگر مسلم لیگ (ن) میں خرابیوں،خامیوں
کی اصلاح کے لئے اقدامات نہ کئے گئے تو نقصان کی شرح میں اضافہ ہو سکتا
ہے۔آئندہ الیکشن میں مسلم لیگ(ن) کی کامیابی کے امکانات نمایاں تو ہیں لیکن
اگر موجودہ صورتحال کو یونہی چلنے دیا گیا تو اس سے مسلم لیگ(ن) کے مخالفین
کو آئندہ الیکشن میں سہولت میسر آ سکتی ہے۔
گزشتہ چھ سات سال کی سیاسی کارگزاریوں کی وجہ سے آزاد کشمیر کا تمام ڈھانچہ
شدید متاثر ہوا ہے۔عمومی توقع مسلم لیگ (ن) سے ہی وابستہ کی جارہی ہے کہ دو
سال بعد، مسلم لیگ (ن) کی حکومت قائم ہونے کے بعد آزاد کشمیر میں بہتری کا
عمل شروع ہو سکتا ہے۔آزاد کشمیر کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کی مختلف اہم
امور کے حوالے سے کیا ذمہ داریاں ہیں،یہ کہنے سے زیادہ سمجھنے کی بات ہے۔یہ
’’ کوہ گراں‘‘ مسلم لیگ(ن) آزاد کشمیر کو اٹھانا ہی ہو گا،اگر جماعت مین
شامل مخلص کارکنوں کی عزت نفس کا احساس اور ان کی قربانیوں اور جدوجہد کا
اعتراف ابھی باقی ہے۔ |