بَس ! بہت ہوچکا
(Prof Riffat Mazhar, Lahore)
ہرناکامی کے دامن میں کامرانی کے
پھول ہوتے ہیں،شرط مگریہ کہ ہم کانٹوں میں نہ اُلجھ جائیں اوریہ بھی طے ہے
کہ جوشخص ناکامی کاکڑواگھونٹ پینے کوتیارنہیں ہوتااُسے کامیابی کامیٹھاامرت
بھی نصیب نہیں ہوتا۔اسی لیے کہاجاتاہے کہ
گرتے ہیں شہسوارہی میدانِ جنگ میں
وہ طفل کیاگرے جوگھٹنوں کے بَل چلے
تاریخِ عالم میں ایسے بیشمار واقعات ملتے ہیں جہاں بڑے بڑے سالاروں کوپیہم
ناکامیوں کے بعدہی کامرانی نصیب ہوئی لیکن ایسے لوگ جوناکامیوں سے
بوکھلاکرعقل وشعورکادامن چھوڑدیتے ہیں وہ کبھی کامران نہیں ہوتے۔اسلام
آبادمیں دھرنادیئے بیٹھے رہنماؤں کے چہروں پر بوکھلاہٹ صاف نظرآتی ہے۔خاں
صاحب کسی بھی صورت میں ناکامی کا کڑواگھونٹ پیتے ہوئے نئے عزم کے
ساتھ’’سیاسی اکھاڑے‘‘میں اترنے کوتیارنہیں۔اِس لیے اُنہیں کامیابیوں کاامرت
بھی نصیب نہیں ہوسکتا۔وہ کہتے ہیں کہ ڈی چوک اسلام آبادمیں نئے پاکستان کی
بنیادرکھی جارہی ہے ۔ایک پاکستان اقبالؒ کاخواب تھاجسے قائدِاعظم نے سچ
کردکھایالیکن یہ پاکستان ہمیں پسندنہ آیااورجلدہی ہمیں اِس پاکستان سے
اکتاہٹ محسوس ہونے لگی اورہم’’نیاپاکستان‘‘بنانے کی تگ ودَوکرنے لگے۔ہماری
کوششیں ثمرآورہوئیں اوردسمبر1971ء میں ذوالفقارعلی بھٹواورشیخ مجیب الرحمٰن
نے مل کرڈھاکہ کے پلٹن میدان میں نئے پاکستان کی بنیادرکھی۔نئے پاکستان میں
ہم نے اپناآئین بنایااوراُسے ایک ایسی’’مقدس‘‘دستاویزقراردیاجس پرعمل
درآمد’’گناہِ کبیرہ‘‘ٹھہرا۔اب ہم ایک دفعہ پھراِس پاکستان
سے’’اوازار‘‘ہوچکے ہیں اوراب کی بارہم چارنئے پاکستان بنانے کی تگ
ودَوکررہے ہیں۔حیرت کی بات ہے کہ بھٹواورمجیب کی طرح نئے پاکستان کی سعی
کرنے والے کرداراب بھی دوہی ہیں،عمران خاں اورطاہرالقادری۔چہرے بدل گئے
مگرنعرے وہی البتہ اِن نعروں کورنگین بنانے کے لیے جوحربے استعمال کیے
جارہے ہیں اُن کاپہلے رواج نہ تھا۔یہ نئے پاکستان کی بنیادرکھنے والوں کی
دین ہے کہ ہم ’’تھرکتے‘‘ہوئے نعرہ زَن ہوتے ہیں اورنئے پاکستان کے رہنمابھی۔
کچھ پانے کے لیے کچھ نہ کچھ کھوناتوپڑتاہی ہے۔اقبالؒنے بھی کہاتھاکہ’’خونِ
صدہزارانجم سے ہوتی ہے سحرپیدا‘‘۔ہم بھی نیاپاکستان بنانے کے شوق میں فی
الحال ’’کھو‘‘ہی رہے ہیں۔تین ملکوں کے سربراہ اپنے دَورے منسوخ کرچکے،ڈیڑھ
ہزارارب کانقصان ہوچکا،آپریشن ضربِ عضب سے قوم کی توجہ ہٹ چکی،سٹاک مارکیٹ
ڈانواں ڈول اورڈالربلندیوں کی طرف گامزن اِس پہ مستزادسیلاب کی تباہ کاریاں
جوسینکڑوں جانیں لے چکااوراربوں روپے کانقصان لیکن آزادی اورانقلاب مارچ کے
دعویدارکرکٹ کھیلتے اور’’میوزیکل کنسرٹ‘‘ سجاتے نئے پاکستان کا جشن منارہے
ہیں۔کپتان صاحب توبارباریہ کہہ رہے ہیں کہ نئے پاکستان کی بنیادرکھ دی گئی
لیکن قوم کا’’موڈ‘‘کچھ اورہی نظرآتاہے ۔
پہلی بارایساہواکہ قوم نے اِن رہنماؤں کویہ پیغام پہنچادیاکہ ہم سدھائے
ہوئے بندرنہیں جوہرمداری کی ڈگڈگی پرناچنے لگیں۔چندہزارایک طرف اورپوری قوم
دوسری طرف،چند ایم این اے ایک طرف اورپوری پارلیمنٹ دوسری طرف۔آخرکپتان
صاحب اور قادری صاحب کووہ ہزیمت کیوں نظرنہیں آتی جوروزِروشن کی طرح عیاں
ہوچکی ہے۔علامہ قادری کو توچھوڑیئے کہ اُنہوں نے توبالآخرکینیڈاہی لوٹناہے
لیکن خاں صاحب سے تولوگوں نے اُمیدکے بہت سے رشتے باندھ رکھے تھے
اوربلاخوفِ تردید کہاجاسکتاہے کہ قوم اُنہیں متبادل قیادت بھی سمجھنے لگی
تھی لیکن ڈی چوک کے ایک ہی دھرنے نے سب کچھ عیاں کردیااور اب تحریکِ انصاف
اپناوجودبچانے سے بھی عاری نظرآنے لگی ہے۔سچ کہاتھاارسطونے ’’ ضدحماقت سے
شروع ہوکرندامت تک ختم ہوتی ہے‘‘۔کہاجاسکتاہے کہ خاں صاحب نے اپنے ہاتھوں
اپنی بربادیوں کی داستان لکھی اوریہ جانتے بوجھتے قوم سے اپناناطہ توڑاکہ
ڈالی گئی جوفصلِ خزاں میں شجر سے ٹوٹ
ممکن نہیں ہری ہوسحابِ بہارسے
حضرت عمرؓکایہ قول ہے ’’حکومت کے منصب کے لیے ایساشخص سب سے موزوں ہے کہ جب
وہ اِس منصب پرفائزنہ ہوتوقوم کاسردارنظرآئے‘‘۔لیکن کنٹینرپرکھڑے خاں صاحب
کسی بھی صورت میں قوم کے سردارنظرنہیں آتے۔پاکستان میں کئی صدوراوروزرائے
اعظم آئے لیکن کسی نے کبھی سٹیج پر کھڑے ہوکرایسی حرکات نہیں کیں جوخاں
صاحب کررہے ہیں۔ہمیں اِس سے کوئی غرض نہیں کہ کپتان صاحب کے دعوؤں اوروعدوں
میں جھوٹ کتناہے اورسچ کتنالیکن جس طرح سے وہ گانوں پرجھومتے اوراپنی
تقریروں میں بازاری زبان استعمال کرتے ہیں اُسے دیکھ اورسُن کرسَرشرم سے
جھُک جاتے ہیں۔عالمی برادری بھی کیاسوچتی ہوگی کہ ہم کِس معیارکے
لیڈرپیداکررہے ہیں۔جب ہمارے رہنماہی سٹیج پرکھڑے ہوکرڈانس کررہے ہوں
توپھرنسلِ نَوکاناچناطے ہے کیونکہ اُس نے اپنے رہنماؤں کی پیروی کرنی ہوتی
ہے۔
خاں صاحب نے دعوے توبہت کیے اورقوم کی آشاؤں کومہمیزبھی بہت دی لیکن سب کچھ
خواب وخیال نکلا۔بنوں میں لگ بھگ دَس لاکھ آئی ڈی پیزبے یارومددگارپڑے ہیں
لیکن خاں صاحب نے وزیرِاعلیٰ پرویزخٹک سمیت خیبرپختونخواکی ساری کابینہ
کواپنے پاس دھرنے میں بٹھارکھاہے۔جس دن پشاورمیں طوفانی بارشوں نے
18افرادکونگل لیا،اُسی دن وزیرِاعلیٰ پرویزخٹک اورتحریکِ انصاف کے
خیبرپختونخواکے صدراعظم سواتی ڈی چوک میں ڈانس کا مقابلہ کررہے تھے۔میوزیکل
کنسرٹ کے بعدخٹک صاحب اورخیبرپختونخواکے وزراء KPK کے گیسٹ ہاؤس میں چلے
جاتے ہیں،خاں صاحب بنی گالہ کے محل میں،تحریکِ انصاف کے دیگررہنماء
سریناہوٹل میں،میوزیکل کنسرٹ کے شوقین لڑکے لڑکیاں واپس پنڈی،اسلام
آباداپنے گھروں میں اورباقی رہ جاتاہے خالی کرسیوں کاسونامی یاتین چارسو بے
یارومددگار۔کیادھرنے ایسے ہی دیئے جاتے ہیں اورتحریکیں ایسے ہی چلتی
ہیں؟۔پہلے خاں صاحب تقریرسے پہلے یہ کہاکرتے تھے’’(اے اﷲ)ہم تیری ہی عبادت
کرتے ہیں اورتجھی سے مددطلب کرتے ہیں‘‘۔لیکن اب اُنہوں نے یہ کہنابھی
چھوڑدیاہے۔شایدشرم دامن گیرہوتی ہوگی کہ ایک طرف اﷲ کانام اوردوسری طرف
ہلّاگلّااورمیوزیکل کنسرٹ۔ہم تواب بھی خاں صاحب کویہی مشورہ دیں گے کہ
عافیت اسی میں ہے کہ سیلاب کابہانہ بناکرکھِسک لیں لیکن ایساہوتانظرنہیں
آتاکیونکہ خاں صاحب نے اپنے آپ کوبندگلی میں قیدکرلیاہے۔مراجعت وہ کرنہیں
سکتے اورآگے کوئی راستہ بچانہیں۔جس امپائرکی انگلی کھڑی ہونے کی آس میں وہ
بندگلی میں پہنچے ،وہ امپائرتوحکومت کے کندھے سے کندھاملائے کھڑاہے ۔پھروہ
کِس’’غیبی قوت‘‘کے انتظارمیں ہیں؟۔ |
|