انجمن طلباءاسلام دائیں بازؤ کی پہلی نظریاتی طلبہ تنظیم

انجمن طلباءاسلام،نظریات،جدوجہد اور اثرات کا ایک جائزہ

جس نے طلباءکے دلوں کو خوف ِ خدا اور محبت و عشق ِرسول کے جذبے سے سرشار کرکے اُن کا رخ مکین ِگنبد ِخضراءکی جانب موڑا۔

طلبہ سیاست کا مطالعہ بتاتا ہے کہ برصغیر میں اِس کا باقاعدہ آغاز 1905ء میں تقسیم بنگال کے موقع پر برطانوی راج کی مخالفت کے باوجود شروع ہوا،اِس تحریک میں پاکستان کی قانون ساز اسمبلی کے پہلے اسپیکر مولوی تمیز الدین خان نے بطور طالب علم حصہ لیا۔اِسی سال پنجاب میں کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے طلبہ نے ہندوستانی طلبہ سے امتیازی سلوک کے خلاف احتجاجی تحریک کانگریس کے مستقبل کے رہنماؤں کی قیادت میں شروع ہوئی۔کچھ سال بعد1920 اور 1921ء میں شروع ہونے والی تحریک خلافت و ہجرت میں بھی بہت سے مسلمان طلبہ نے حصہ لیا،لیکن 1936ءمیں لکھنو میں پہلی طلبہ تنظیم’’آل انڈیا اسٹوڈنٹس فیڈریشن“ قائم کی گئی۔چونکہ اِس تنظیم میں مسلم طلباءکے مقابلے میں ہندوؤں کی اکثریت تھی،اِس لیے مسلم طلباءکو ایک علیحدہ طلباءتنظیم کی ضرورت محسوس ہوئی۔چنانچہ 17جنوری 1937ءمیں” آل انڈیا مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن “ قائم کی گئی،جس کا پہلا اجلاس دسمبر 1937ءکو کلکتہ میں قائد اعظم محمد علی جناح کی زیر صدارت میں منعقد ہوا۔یہی صورتحال پنجاب میں پیش آئی،جہاں1936ءمیں نیشنلسٹ طلباءکی تنظیم”نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن“ پنجاب کے تعلیمی اداروں پر چھائی ہوئی تھی۔چنانچہ مجاہد ملت مولانا عبدالستار خان نیازی،مولانا ابراہیم علی چشتی،میاں محمد شفیع، عبدالسلام خورشید اور حمید نظامی مرحوم نے علامہ اقبال سے مشورے کے بعد نومبر،دسمبر 1936ءمیں ”دی مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن “کی بنیاد رکھی،جس نے مسلم لیگ کا دست وبازو بن کر تحریک پاکستان میں ہراوّل دستے کا کردار ادا کیا۔

تشکیل پاکستان کے بعد طلبہ تحریک کا از سر نو آغاز مشرقی پاکستان اور صوبہ سندھ سے ہوا۔ پاکستان بنتے ہی پنجابی اور مہاجروں کی اجارہ داری کے خلاف طلبہ نے علم احتجاج بلند کیا،مغربی پاکستان کے اقلیتی صوبوں کے راہنماوؤں کے برعکس بنگال کے عوام کا مسئلہ اردو زبان،قومی تشخص اور معاشی غلبے سے نجات پانا تھا۔اِس مطالبے اور زبان کے مسئلے کو بنیاد بنا کر مشرقی پاکستان میں ”مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن “قائم کی گئی، جس کے عہدے داروں میں ڈھاکہ یونیورسٹی کے طالبعلم شیخ مجیب الرحمن بھی شامل تھے۔ 1949ءمیں راولپنڈی میں کمیونسٹ پارٹی کے زیر اثر ڈیمو کریٹک سٹوڈنٹس فیڈریشن (DSF) کی بنیاد رکھی گئی۔اِس کی ایک شاخ 1952ءمیں سندھ میں بھی قائم ہوئی،DSF نے طلباءاور تعلیمی اداروں کی حالت زار کی بہتری کے منشور پر کام کرکے واضح مقبولیت حاصل کی۔ تنظیم نے مختلف تعلیمی اداروں کی غیر مناسب فیسوں کے مسئلے پر بھی احتجاج کیا مگر انتظامیہ کی ہٹ دھرمی کے باعث بات ہنگاموں اور گرفتاریوں تک جا پہنچی اور1954ءمیں اِس تنظیم پر سرکاری پابندی عائد کر دی گئی۔ 1956ءمیں طلبہ تنظیموں کی کمی کو پورا کرنے کیلئے” نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن (NSF) بنائی گئی۔جس کی صفوں میں جلد ہی سابقہ DSF کے کارکنان نے برتری حاصل کرلی،مگرایوب مارشل لاءلگنے کے بعد طلبہ تنظیموں کو غیر قانونی قرار دے دیا گیا۔لیکن پابندی کے باوجود طلبہ کسی نہ کسی طور حکومت کے خلاف برسر پیکار رہے۔چنانچہ طلبہ کو نکیل ڈالنے کی خاطر ”شریف کمیشن “ قائم کیا گیا،طلبہ کو ملکی سیاست سے دور رکھنے کیلئے اِس کمیشن کی پیش کردہ کئی سفارشات صدر ایوب نے منظور کرلیں،لیکن اِن سفارشات کے خلاف ملک بھر میں طلبہ نے احتجاج کیا ،جس کی محترمہ فاطمہ جناح نے بھی حمایت کی۔

معاہدہ تاشقند کے بعد ایوب کابینہ چھوڑنے والے نوجوان وزیر ذوالفقار علی بھٹو نے طلبہ کو ایوب مخالف تحریک میں موثر طور پر استعمال کیا اور ایوب حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا۔ 1967ءمیں بلوچ طلبہ کی تنظیم” بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن“ کراچی میں قائم ہوئی، جس کا بنیادی مطالبہ ون یونٹ اوربلوچ سرداری نظام کا خاتمے کے ساتھ بلوچ طلبہ میں قومی تشخص اجاگر کرنا تھا۔ اِس تنظیم نے ایوب مخالف تحریک میں بھرپور حصہ لیا۔ بعد میں بھٹو دور میں بلوچستان میں ہونے والی گوریلا کاروائیوں میں بھی BSF کے دونوں دھڑوں متحرک رہے۔بھٹو دور میں ہی پیپلز پارٹی کی طلبہ تنظیم پیپلز سٹوڈنٹس فیڈریشن(PSF) قائم ہوئی۔ اِس تنظیم میں زیادہ تر بائیں بازو (یعنی ایسے ترقی پسند جو کمیونسٹ،سوشلسٹ اور مذہب مخالف فلسفے کے علمبردار تھے) سے تعلق رکھنے والے طلباءشامل تھے،جو” سرخ ہے، سرخ ہے ،ایشیاءسرخ ہے“کے نعرے لگاتے تھے۔یہ وہ دور تھا جب پاکستان سمیت دنیا بھر کے بہت سے طلبہ بائیں بازو کی احتجاجی تحریکوں میں فعال تھے۔اُس زمانے میں پاکستان میں دائیں بازو کی طلبہ تنظیموں کا وجود نہ ہونے کے برابر تھا۔

حالانکہ مخصوص مکتبہ فکر کی ترجمان جماعت اسلامی کے زیر اثر طلبہ تنظیم ”اسلامی جمعیت طلبہ“ کی ابتداءقیام پاکستان کے چند ماہ بعد ہوچکی تھی،مگر اِس تنظیم نے طلبہ سیاست میں باقاعدگی سے حصہ 1953ءمیں لینا شروع کیا اور پہلا جلوس 1968ءمیں نکالا۔ یہ تنظیم دراصل بائیں بازو کی جماعتوں کی مقبولیت سے گھبرا کر میدان میں اتری تھی،مگر رفتہ رفتہ اِس تنظیم نے فاشسٹ رویہ اختیار کر لیا۔بقول پروفیسر عزیزالدین خان’’جماعت اسلامی کی طرح اسلامی جمعیت طلبہ نے بھی اپنے آپ کو ہمیشہ عوام سے بلند اور خدا کی طرف سے منتخب کئے گئے صالحین کا ایک گروہ تصور کیا ہے، جن کا کام اُن تمام باتوں کو، جنہیں وہ خدائی احکامات تصور کرتی ہے، طلبہ تک پہنچانا اور انہیں تسلیم کرنے سے انکار کرنے والوں پر جبراً نافذ کرنا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔جمعیت کی نظر میں غیر اسلامی تصورات رکھنے والے (جن میں سوشلسٹ اور مغربی کلچر کے دلدادہ سبھی شامل ہیں) برداشت نہیں کیے جا سکتے تھے۔“

اِن حالات میں دائیں بازو کی نمائندگی کرنے والی ایک ایسی طلبہ تنظیم کی ضرورت تھی جو نوجوانوں کے دلوں کو محبت اور عشق مصطفی کے جذبے سے سرشار کرکے اُن کی عقیدتوں کا رخ مکین ِگنبد ِخضراءکی جانب موڑ سکے اور وطن عزیز کے خلاف ہونے والی سازشوں کا مقابلہ کرسکے۔چنانچہ وقت کے تقاضوں کو محسوس کرتے ہوئے ”انجمن محبان اسلام“ (قائم شدہ 1962ء) کے بانی و سرپرست حضرت علامہ جمیل احمد نعیمی او ر ”جمعیت طلباءاہلسنّت وجماعت“( قائم شدہ 1966ء) کے بانی محمد یعقوب قادری (شہید یکم اگست 2013ء) نے 20جنوری 1968ءکو کراچی میں رفقاءکے مشورے اور دونوں تنظیموں کے ادغام سے پاکستان کی پہلی نظریاتی طلبہ تنظیم ”انجمن طلبہ اسلام“ (ATI) کی بنیاد رکھی۔علامہ جمیل احمد نعیمی سرپرست اعلیٰ مقرر ہوئے اورآپ کی سرپرستی کی بدولت انجمن طلباءاسلام کو اکابر علماءومشائخ کی تائید وحمایت اور توجہ واعتبار حاصل ہوا،جبکہ حاجی محمد حنیف طیب انجمن کے پہلے مرکزی صدر اور محمد یعقوب قادری ناظم اعلیٰ بنے ۔

انجمن طلبہ اسلام وطن عزیز میں دائیں بازو کی نمائندگی کرنے والی سب سے پہلی طلباءتنظیم تھی جس کا بنیادی نصب العین طلباءکے قلوب میں”عشق مصطفی کی شمع فروزاں کرکے اُن میں صحیح اسلامی روح بیدار کرنا“ تھا۔پاکستان کی طلبہ تنظیموں میںانجمن طلباءاسلام (ATI)کو یہ اعزاز بھی حاصل ہوا کہ اُس نے تعلیمی اداروں میں سب سے پہلے ذاتِ مصطفی کو مرکز و منبع مان کر ”ہم عظمت ِ رسول کے پاسباں ہیں،پاسباں “ اور” غلامی رسول میں موت بھی قبول ہے،نہ ہوجو عشق مصطفی تو زندگی فضول ہے“ کے سرفرشانہ نعرے بلند کیے۔ انجمن نے طلباءمیں حقیقی اسلامی روح کی بیداری، مقام مصطفی کا تحفظ اور نظام مصطفی کے نفاذ کیلئے ملک گیر سطح پر بے نظیر جدوجہد کا آغاز کیا اور کمیونسٹوں،سوشلسٹوں اور مذہب مخالفوں کے پروپیگنڈے کا پردہ چاک کرتے ہوئے وطن عزیز کو ایسے تحریکی کارکن مہیا کیے، جو ملک کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کے محافظ اور تحریک نظام مصطفی کا ہراوّل دستہ ثابت ہوئے ۔ دیکھتے ہی دیکھتے انجمن کی شاخیں سندھ،پنجاب،بلوچستان اور پنجاب کے تعلیمی اداروں میں پھیل گئیں اورجذبہ عشق رسول سے سرشار ہزاروں نوجوان طلباءانجمن کے دامن سے وابستہ ہوتے چلے گئے ۔

انجمن طلبہ اسلام نے تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم طلباءکو دین کی دعوت کے ساتھ ساتھ خوف ِ خدا اور عشق رسول کے راستے پر گامزن کیا اور اُن میں محبت و عشق رسول کی شمع روشن کرکے انہیں حصول پاکستان کے مقاصد کی تکمیل کیلئے عازم سفر کیا۔انجمن طلبہ اسلام قومی ،علاقائی اور لسانی تعصبات سے پاک ایسے محب وطن طلبہ کا یوتھ ونگ بنی، جو وطن عزیز کی ترقی واستحکام اور سماجی انصاف پر مبنی معاشرے کے قیام کیلئے ملک میں نظام مصطفی کا عملی نفاذ دیکھنا چاہتا تھے۔ چنانچہ اِن مقاصد کے حصول کیلئے انجمن ہمیشہ برسر پیکار رہی۔ بلاشبہ اپنے 46سالہ سفر میں انجمن کے ذمہ داران، کارکنان اورمعاونین نے پرعزم جذبوں ،بلند حوصلوں اور قابل فخر سعادتوں پر مبنی تاریخ ساز جدوجہد کی،جوبلند جذبوں، حوصلوں اورایثار وقربانیوں کی بے شمار داستانیں اپنے دامن میں سموئے ہوئے ہے۔

انجمن طلباءاسلام کے اسی تابناک ماضی کو جناب معین الدین نوری نے اپنی حالیہ کاوش ”انجمن طلباءاسلام، نظریات،جدوجہد،اثرات“میں سمیٹنے کی سعی _کی ہے۔حال ہی میں شائع ہونے والی اُن کی نئی کتاب انجمن کے اِسی ولولہ انگیز سفر کی ضخیم روداد ہے،جسے معین الدین نوری نے برسوں کی محنت اور لاتعداد کتب ورسال ،اخبارات وکتابچوں اور غیر مطبوعہ مواد کی ورق گردانی،مکتبوں اور لائبریوں کی خاک آرائی اورمدرسوں اور آستانوں کی حاضری کے بعد بڑی عر ق ریزی اور جانفشانی سے ترتیب دیاہے۔876 صفحات پر محیط مواداُن کی بلند ہمت اور ذوقِ جنوں کا آئینہ دار ہے،بلامبالغہ انجمن کی 46سالہ تاریخ کو جمع کرنا ،ترتیب دینا اور کتابی شکل میں یکجا کرنا معین الدین نوری کا ایک بڑا کارنامہ ہے۔

یہ کتاب انجمن طلبہ اسلام کے تاریخی پس منظر، فکری زاویئے،تگ وتاز،تنظیمی خدوخال،میڈیا ومطبوعات،انجمن اور طلبہ سیاست،قومی وملی تحریکوں میں کردار،انجمن کے اثرات جیسے عنوانات میں منقسم ہے۔ کتاب کے آخر میں انجمن کی تصویری تاریخ میں اُس کی نصابی و غیر نصابی سرگرمیوں کو بھی اجاگر کیا گیا ہے۔کتاب کے ذیلی عنوانات قومی وملی خدمات کے ساتھ ساتھ تحریک ختم نبوت و ناموس رسالت،تحریک آزادی کشمیر،جہاد افغانستان میں انجمن کے کردار اور انجمن کی سیاسی، سماجی،رفاحی و فلاحی خدمات کے علاوہ تعلیمی اداروں میں نصابی وغیر نصابی سرگرمیوں کا بھی احاطہ کرتے ہیں۔مباحث کے سرسری جائزے سے ہی کام کی دقّت نظری اور گہرائی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

قارئین محترم ! کتاب انجمن طلباءاسلام کے کارکنان کی عزیمت واستقامت،جرا_¿ت وہمت،حکمت ودانش اور بہادری وشجاعت کی داستان رکھنے کے باوجود اپنے اندر انجمن کی تاریخ کے کچھ ایسے تلخ حقائق بھی سموئے ہوئے ہے،جس نے اہلسنّت کی سیاسی مستقبل پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہوئے اُسے سوالیہ نشان بنادیااورآج ہم چاہتے ہوئے بھی اِسے نظر انداز نہیں کرسکتے ۔ اِن تلخ حقائق میں سے ایک قابل ذکر پہلو23اکتوبر1987ءکوڈاکٹر ظفر اقبال نوری کی قیادت میں جنم لینے والا ATI کا گروپ ہے ،جس کے قیام نے انجمن کو عملاً دو دھڑوں میں منقسم کردیا۔ انجمن کا ایک گروپ جو JUPکا طلبہ ونگ رہا،اُس نے اہلسنّت کی واحد مذہبی وسیاسی نمائندہ تنظیم جمعیت علماءپاکستان اور قائد جمعیت مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی سے تعلق اور نسبت و حوالے کو اپنے لیے باعث افتخار جانا ،جبکہ دوسرا گروپ جسے ڈاکٹر ظفر اقبال نوری کی قیادت میں JUPکا طلبہ ونگ بننے سے انکار کرتے ہوئے آزاد روش اختیار کرنے کا دعویٰ تھا ، کی سرپرستی اور تائیدوحمایت فروری 1985ءکے غیر جماعتی الیکشن میںJUP شوریٰ کے بائیکاٹ کے فیصلے سے بغاوت کرکے الیکشن لڑنے اور ”نظام مصطفی “ گروپ تشکیل دینے والے اُس وقت کے ممبر اسمبلی،حکومتی وزیر اور سابق صدر انجمن حاجی محمد حنیف طیب صاحب کررہے تھے۔

اَمر واقعہ یہ ہے کہ جس طرح اہلسنّت کی واحد نمائندہ تنظیم” جمعیت علماءپاکستان“اکابرین کی میراث ہے،بالکل اُسی طرح تقسیم سے قبل ATI بھی طلباءاہلسنّت کی واحد نمائندہ طلبہ تنظیم رہی ،مگر 1987ءمیں ATIمیں جنم لینے والے اختلافات نے انجمن کے ساتھ ساتھ اہلسنّت کی پوری نظریاتی تحریک کو بھی شدید نقصان پہنچایا۔ ATI سے فارغ ہونے والے بعض سابقین نے مرکزی جماعت سے وابستہ ہوکر اُسے تقویت پہنچانے کے بجائے اپنی ایک نئی جماعت بنانے کو ترجیح دی ،26جولائی 1991ءکو ”مصطفائی تحریک“ اور 17ستمبر 2009ءکو نئی سیاسی جماعت” پاکستان فلاح پارٹی“ یعنی PFP قیام اِسی گروپنگ کا شاخسانہ تھے۔اِسی طرح گلی گلی، محلے محلے ”انجمن عاشقان رسول،غلامان رسول، محبان رسول، فدایان رسول اور خادمان رسول “ جیسے ناموں کی لاتعداد چھوٹی چھوٹی وقتی اور غیر موثر تنظیمیں بھی وجود میں آئیں ، جس سے انتشار میں مزید اضافہ ہوا اور لا مرکزیت کو فروغ ملا۔یوں اِس گروپنگ نے نہ صرف اہلسنّت کو رسو ا و بے آبرؤ کیا، بلکہ تقسیم کے ثمرات اہلسنّت کی مذہبی وسیاسی بے وزنی،بے توقیری اور بے وقعتی کی صورت میں بھی ظاہر ہوئے۔

مزید المیہ یہ ہوا کہ اِن اختلافات نے ایسے دانشور وں اور نقادوں کو بھی جنم دیا، جو اپنی عقل وخرد کے پیمانوں پر جماعتی پالیسی کو پرکھنے اور مرکزی قیادت کے فیصلوں پر جرح وتعدیل کرنے لگے ۔اِس خطرناک رجحان نے ایسے پالیسی ساز بھی متعارف کروائے جو جماعتی شوریٰ اور مرکزی قیادت کے فیصلوں پر عمل درآمد کرنے کے بجائے قائدین اور جماعت کو اپنی لائین آف ایکشن پر چلتے ہوئے دیکھنا چاہتے تھے، جبکہ تنظیمی اور تحریکی تقاضہ تھا کہ شوریٰ اور مرکزی قیادت کے فیصلوں پر بلا چون چرا عمل کیا جاتا۔اِس طرز عمل نے تنظیمی ڈھانچہ کمزور کردیا،نتیجہ یہ نکلا کہ ہماری مذہبی و سیاسی قوت کا شیرازہ بکھر گیا،جگ ہنسائی،سیاسی شکست و ہزیمت اور ذلت وسوائی ہمارا مقدر بن گئی ۔آج وقت کا تقاضہ ہمیں اتحاد اہلسنّت کی دعوت دے رہا ہے،لیکن یہ تب ہی ممکن ہوگا جب ماضی کے اختلافات کو بھلاکر ایک دوسرے کو تسلیم کیا جائے۔آپسی رنجشوں اور کدورتوں کو مٹا کر ایک جھنڈے ،ایک قیادت اور ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوا جائے اور منظم ومربوط حکمت عملی کے تحت اپنی کھوئی ہوئی عزت ووقار کے حصول اورمذہبی وسیاسی تشخص کی بحالی کیلئے بے لوث ہوکر جدوجہد کی جائے۔ واضح رہے کہ اِسی میں ملت کا وسیع تر مفادکامیابی اور بقاءکا راز مضمر ہے۔

قارئین محترم ! چونکہ صاحب ِمو_لف جناب معین الدین نوری کا عملی تعلق،وابستگی اور جھکاؤ انجمن طلبہ اسلام” نوری گروپ“ کی جانب رہا ،اِس لیے کتاب میں شامل 1987ءکے بعد کی تمام تر تنظیمی سرگرمیاں اِسی گروپ کی کارکردگی کا احاطہ کرتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ انجمن طلبہ اسلام کا وہ طلبہ ونگ جو اپنی مادر تنظیم یعنی جمعیت علماءپاکستان اور علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی سے وابستہ ہے ، کتاب کو جانبدارانہ تاریخ قرار دیتے ہوئے کہتا ہے کہ صاحب مولف نے انجمن کی تاریخ کو اپنے خاص نقطہ نظر سے دیکھا،لکھا اور واقعات کا بیان اپنی پسندوناپسند کی بنیاد پر کیا ہے، جبکہ ایک غیر جانبدار مورخ کا کام تمام حقائق کو سامنے لانا اور فیصلہ قارئین پر چھوڑنا ہوتا ہے۔چنانچہ معترضین اِس کتاب کو ڈاکٹر ظفر اقبال نوری گروپ کی تاریخ قرار دیتے ہوئے موقف اختیار کرتے ہیں کہ صاحب ِمولف نے تحقیقی تقاضے پورے نہیں کیے اوراُن کا کام اصل تاریخی حقائق اور تحقیقی تقاضوں کے منافی ہے۔

اِسی طرح بانی انجمن کا معاملہ بھی اختلافی اور مزید تحقیق طلب ہے،یہی وجہ ہے کہ بہت سے احباب کتاب کے بعض مندرجات پر شدید اعتراضات اور تحفظات رکھتے ہیں۔ چنانچہ اِس تناظر میں کتاب کے مندرجات سے اختلاف کی گنجائش موجود ہے،مگر اِس بات میں کوئی شک نہیں کہ مولف نے انجمن طلبہ اسلام کے قیام کے پس منظر سے لے کر اِس کی ارتقائی جدوجہد ،کارہائے نمایاں اور توسعی سرگرمیوں کو بہترین انداز میں اجاگر کرنے کی بھر پور کوشش کی ہے۔یہی وجہ ہے کہ متعدد تحفظات رکھنے کے باوجود بانی انجمن علامہ جمیل احمد نعیمی وسعت قلبی اور اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں”مجھے ذاتی طور پر اِس کتاب کے مندرجات پر کچھ تحفظات ہوسکتے ہیں،مگر اِس کے باوجود مجھے یہ بات کہنے میں کوئی عار نہیں کہ عزیزم معین الدین نوری نے جوکام کردکھایا ہے،وہ انجمن طلبہ اسلام اور اِس کی فکر سے وابستہ افراد وتنظیموں کیلئے مشعل راہ ہے اور کتاب انجمن کی تاریخ ہی نہیں بلکہ یہ قاری کی فکری تشکیل، ذہنی تربیت اور اہم معلومات میں اضافے کا بھی باعث بنے گی۔

کتاب کا ایک امیتازی پہلو یہ بھی ہے کہ مولف نے جہاں انجمن طلبہ اسلام کے بارے میں مکمل معلومات فراہم کی ہے،وہیں دیگر طلبہ تنظیموں کے تعارف اور طلبہ سیاست میں اُن کے کردار وعمل پر بھی مفصل روشنی ڈالی ہے، ساتھ ہی مولف انجمن طلبہ اسلام کی طلبہ سیاست میں مثبت جذبوں کو پروان چڑھانے والی منفرد اور تاریخی جدوجہد کا وہ پہلو بھی سامنے لائے ہیں جو اکثر لوگوں کی نظروں سے اوجھل رہا ہے۔کتاب میں شامل ڈاکٹر مجیب احمد کا پر مغز ابتدائیہ اور محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان،علامہ جمیل احمد نعیمی،پروفیسر مفتی منیب الرحمن،ڈاکٹر شاہد حسن رضوی،ڈاکٹر محمد اسحاق قریشی، جسٹس (ر)میاں نذیراختر،ڈاکٹر نور احمد شاہتاز،سینئر صحافی جناب جبار مرزا، جنرل(ر) حمید گل،ڈاکٹر نذر حسین سکندری اور ڈاکٹر محمداحمد قادری کے تبصرے اُس کی اہمیت وافادیت میں اضافے کا باعث ہیں۔

بلاشبہ تمام تر اعتراضات و تحفظات کے باوجودمعین الدین نوری صاحب کی کتاب ایک قابل ستائش وپُر تحسین کاوش ہے،انہوں نے انجمن کے عظیم سپوتوں،پرعزم رہنماؤں اور ہمہ وقت متحرک وفعال انجمن کے اُن کارکنان ومعاونین کو بہترین خراج عقیدت پیش کیا ہے،جنھوں نے تعلیمی اداروں کو ایک باوقار انجمن عطا کی،دانش گاہوں کے تقدس کا نعرہ بلند کیااور جن کی متاع حیات اسلام کا بول بالا کرنے کیلئے وقف رہی ۔کتاب ضیاءالقرآن پبلی کیشنز لاہور نے خوبصورت سرورق سے مزین و مجلد شائع کی ہے۔اُمیدہے کہ انجمن کی یہ داستانِ عزیمت مذہبی ونظریاتی سیاست سے دلچسپی رکھنے والوں کے ساتھ ساتھ پرعزم طلباءاور نوجوانوں کیلئے مشعلِ راہ کا کام دے گی۔
M.Ahmed Tarazi
About the Author: M.Ahmed Tarazi Read More Articles by M.Ahmed Tarazi: 319 Articles with 357945 views I m a artical Writer.its is my hoby.. View More