قتل کی فاسد ترغیب، الظواہری کا ویڈیو اور
کشمیر میں سیلاب سے تباہی اور ہمارا رویہ
ملک کی تجارتی راجدھانی ممبئی میں بیٹھ کر بھاجپا صدر امت شاہ کا یہ اعتراف
کہ ووٹ بنک میں مودی کی کرنسی کا بھاؤاتناگر گیا ہے کہ اب اس کے بھروسے
اسمبلی چناؤ نہیں لڑے جاسکتے، کسی بحث کا موضوع اس لئے نہیں بن سکا کہ
ہرشخص دیکھ رہا ہے کہ جس لہر پر سوار ہوکر مودی 7ریس کورس پہنچے ،وہ ختم
ہوچکی ہے۔یہ سب کچھ ایک سودن کے اندراندر ہوگیا۔
ہرچند کہ قومی زندگی میں ایک سو دن زیادہ اہم نہیں ہوتے، مگر بقول شخصے پوت
کے پاؤں پالنے میں ہی نظرآنے لگے۔ سرکاری فتوحات کے دعوے اپنی جگہ مگر عوام
تو یہ دیکھتے ہیں کرپشن، مہنگائی اور بیروزگاری کے خاتمہ اور ہمہ جہت ترقی
کے وعدے لپیٹ کر رکھ دئے گئے ہیں اورآئندہ درپیش ضمنی واسمبلی انتخابات کے
لئے ’صرف‘ فرقہ ورانہ ایجنڈہ کو ہوا دی جارہی ہے۔میں نے ’صرف فرقہ ورانہ
ایجنڈہ‘ اس لئے کہا کہ پارلیمانی چناؤ میں اگرچہ’ ترقیاتی ایجنڈہ‘ کے
مکھوٹے سامنے رہا مگر فرقہ ورانہ نظریہ بھی زیرزمین کام کرتا رہا ۔اگرچناؤپر
فرقہ پرستی کااثر نہ ہوتا اورمودی کی لہر صرف ترقیاتی ایجنڈے کی بدولت ہوتی
توشاہ نواز حسین سمیت جن چھ ’مسلم ‘ امیدواروں کو پارٹی نے ٹکٹ دئے تھے وہ
سب ہار نہ جاتے ۔
مودی کی کامیابی میں بڑارول اس شور نے بھی ادا کیا جو منظم سازش کے تحت
یوپی اے سرکار کا ناکام قراردینے کے لئے مچایا گیا۔ اس میں کچھ قصور بائیں
بازو کی پارٹیوں کابھی ہے جنہوں نے ’یوپی اے ۲- ‘کو علاقائی پارٹیوں کے رحم
کرم پر چھوڑ دیا جن کے وزیرشدید بدعنوانی میں پکڑے گئے۔ عوام کی اس بیزاری
کے اسباب اور محرکات جا تے یابیجا، مگران کی بدولت عوام مرکزی حکومت کو بدل
ڈالنے کے موڈ میں تھے۔ مودی کی مہم اور مسحورکن تقریروں اوربلند وبانگ
دعووں نے ان پر وہ جادو کیا کہ راہل گاندھی کی آستین چڑھی کی چڑھی رہ
گئی۔کسی نے سچ کہا، لچھے دار بھاشنوں سے نیتا کو شاسن تو مل سکتا ہے، ،
عوام کو راشن نہیں ملتا۔ مودی کے برانڈڈ کرتوں، غیرملکی دوروں،جاپانی
مندروں کے سیر زیادہ عوام کو دو وقت کی روٹی، چست و درست صحت خدمات، پولیس
و انتظامیہ میں اصلاحات، کرپشن سے پاک نظام حکومت اور بچوں کے لئے اسکولوں
کی ضرورت ہے،مگران میں تبدیلی کے آثار نظر نہیں آرہے ۔عوام میں امیدوں کی
جو بیار مودی کے وعدوں سے بہنے لگی تھی ،اب اس کا رخ پلٹ رہا ہے ۔
ضمنی انتخابات میں جھٹکے
مگر مودی کا جادو کافور ہوجانے کا پہلا نمونہ جولائی کے آخری ہفتہ میں
اتراکھنڈ کے تین اسمبلی حلقوں کے ضمنی چناؤ میں سامنے آیا ۔ اپریل مئی میں
لوک سبھا چناؤ میں ریاست کی پانچوں سیٹوں پر بھاجپا جیتی تھی مگرضمنی چناؤ
میں تینوں سیٹوں پر ہارگئی حالانکہ دو بھاجپا کے ان ممبران اسمبلی نے خالی
کی تھیں جوخود لوک سبھا کے ممبر چن لئے گئے تھے۔ ان دوسیٹوں پرشکست اس لئے
مزید حیران کن ہے کہ ہارجیت کا فرق بہت زیادہ رہا۔ڈوئی والا حلقے سے
کانگریس امیدوار 6 ہزار ووٹوں سے اور سومیشور کے ریزرو سیٹ سے 9 ہزارووٹوں
سے جیتا۔ ریزو سیٹ پر اس بڑی جیت کا مطلب یہ ہے لوک سبھا چناؤ میں بی ایس
پی کا جوووٹ بنک بھاجپا کے پالے میں چلا گیا تھا، کانگریس کی طرف پلٹ آیا
ہے۔
اس کے ایک ہی ما ہ بعد چارریاستوں مدھیہ پردیش، کرناٹک، پنجاب اور بہار میں
اسمبلی سیٹوں پر جو ضمنی چناؤکے نتائج نے مودی لہر کی ہوا پوری طرح نکال
دی۔ مدھیہ پردیش کی باہوری بند سیٹ پر بھاجپا کی 8ہزارووٹوں سے شکست معنی
رکھتی ہے۔ یہ سیٹ 2003سے اس کے پاس تھی۔ اس فتح اورشکست میں بی ایس پی کے
دلت ووٹ بنک کا اہم کردار رہا جو اس بار کانگریس کے حق میں چلا گیا۔ کرناٹک
میں بلاری کی سیٹ پر جو سشما سوراج کے قریبی ریڈی بھائیوں کا گڑھ کہی جاتی
ہے ہار بھی اہم ہے۔ اس پر کانگریس نے بھاجپا کو 33ہزار ووٹوں سے کراری شکست
دی ۔ پنجاب کی پٹیالہ شہری سیٹ پر کانگریس امیدوار پرنیت کور کی جیتیں۔
حالانکہ لوک سبھا چناؤ میں عام آدمی پارٹی نے ان کو پٹخنی دیدی تھی مگرضمنی
چناؤ میں عام آدمی پارٹی کے امیدوار کی ضمانت تک نہیں بچ سکی۔
ان انتخابی نتائج سے کیا نتیجہ نکلتا ہے؟ پارلیمانی الیکشن میں تاریخی شکست
کے بعد کانگریس کی یہ واپسی کیا معنی رکھتی ہے؟ پارٹی قیادت تک ابھی تک ہکا
بکا ہے۔کانگریس کی اس واپسی میں اس کا اپنا کوئی کارنامہ شامل نہیں۔ضمنی
انتخابات میں بھی لوک سبھا کی طرح منفی ووٹ اثرانداز ہوا۔ کل جوووٹر یوپی
اے سے بدظن ہوکر مودی کی طرف لپکا تھا، اس کامودی سے موہ بھنگ ہوگیا ہے ۔
فرقہ پرستی کا سہارا
مرکز میں کابینہ سازی سے ہی بھاجپا کا اصل رنگ سامنے آنے لگا تھا۔ آبروریزی
اور فرقہ ورانہ فسادات کے ملزمان کو کابینہ میں لیا جاناکس کو نہیں کھٹکا؟
پھر، وزیرداخلہ کے بیٹے پر تبادلوں کے لئے رشوت خوری کا الزام لگنا، وزیروں
کی زبان بندی کہ کوئی پریس سے مخاطب نہیں ہوسکتا، ان کا رتبہ کلرکوں جیسا
کر دیا جانا ، مہنگائی اورانتظامیہ میں کرپشن کا بول بالارہنا وغیرہ کا
چرچا عام ہے۔عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانے کے لئے ہندو راشٹرکا راگ
پھرالاپا جانے لگا ہے جس سے سورن ہندو تو سرشار ہوسکتے ہیں مگر دلت بیزار
ہیں کیونکہ قدیم ہندو کلچرکی بدولت ہی وہ ہزاروں سال سے اچھوت ہیں۔ سیاسی
فیصلوں پر انصاف پسندی کے بجائے کہیں بدلے کی چھاپ نظر آرہی ہے اور کہیں
سنگھ نوازی کی۔ حکومت اور پارٹی کے تمام اہم مناصب پر سوئم سیوک بٹھادئے
گئے ہیں۔ جس سے مودی کی سرکار اور امت شاہ کی بھاجپا کا ایجنڈہ صاف کھل کر
سامنے آگیا ہے۔
بہار کا تجربہ
درایں اثنا ایک اچنبھا بہار میں نمودار ہوا جہاں دو حریف لالویادو اور نتیش
کمار بھاجپا کے مقابلے میں ساتھ آگئے۔ اس کی چکاچوندھ میں وہ سارے سیاسی
حقائق دب گئے ہیں جو لوک سبھا چناۂ کے بعد ضمنی انتخابات میں کارفرما رہے۔
مگر ان حقائق اور لالو نتیش دوستی میں ایک جوہری فرق ضرور ہے اور وہ یہ کہ
باقی دیگر سارے فیکٹر منفی اثرات کا نتیجہ ہیں، جب کہ لالو یادو اور نتیش
کمار کا ایک ساتھ آجانا جرأت مندانہ مثبت سیاسی اقدام ہے۔
حالیہ لوک سبھا چناؤ میں ریاست کی 40میں سے 22سیٹوں پر بھاجپا کا اور 9
پراس کے اتحادیوں کا قبضہ ہوگیا تھا۔ جبکہ برسراقتدار جے ڈی یو اورکانگریس
کو صرف دو، دو سیٹیوں پر صبرکرنا پڑا تھا۔ لالو کی آرجے ڈی کو چار سیٹیں
ملی تھیں۔جے ڈی یوکا ساتھ چھوٹ جانے کے بعد بھاجپا پرامید تھی کہ مودی کا
اثر اس کی تمام سیٹوں پرکامیابی دلا دے گا لیکن پارٹی دس میں صرف چار سیٹوں
کوہی بچاسکی جبکہ 2010 کے اسمبلی چناؤ میں ، جو آر جے ڈی کے ساتھ لڑا تھا ،
ان میں سے چھ سیٹیں جیتی تھیں۔ ضمنی چناؤ میں اس کے اتحادی خالی ہاتھ رہ
گئے۔ بھاجپا کوبڑاصدمہ بھاگلپور میں پہنچا ۔ بھاجپا کے اس قلعہ کو کانگریس
نے جیت لیا۔
بہار میں اس پہل نے جو جلوہ دکھایا، اس سے خیال تھا کہ دیگر ریاستوں میں
بھی غیربھاجپا پارٹیاں ساتھ آئیں گی۔ مگر ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ یوپی
میں آئندہ 13 ستمبر کو کیرانہ، لکھنؤ مشرقی، بجنور، ٹھاکر دوارہ، نوئیڈا،
سہارنپور، چرکھاری، ہمیرپور، نگہاسن، سراتھو، بالہا اور روہینہ کی اسمبلی
سیٹوں پر ضمنی چناؤ ہونگے۔ 2012کے اسمبلی چناؤ میں ان میں دس پر بھاجپا اور
ایک پر اس کا اتحادی ’اپنا دل‘ جیتا تھا۔ بھاجپا کی ان سیٹوں سے منتخب
ممبران کیونکہ 2014 کا چناؤ جیت کر لوک سبھا میں چلے گئے ،اس لئے ان پر
عوام کا فیصلہ بھاجپا کی ساکھ بچانے کے لئے اہم ہے۔ لوک سبھا چناؤ کے بعد
کیونکہ مودی کا ترقیاتی ایجنڈہ اور سپنے سہانے دکھانے کا حربہ ناکام ہوگیا
ہے، اس لئے بھاجپا نے فرقہ پرستی کی لے تیز کردی ہے اور اس کے لئے چناؤ کی
کمان آدتیہ ناتھ، سنگیت سوم جیسے لوگوں کو سونپی گئی ہے ،جو عوام کو فرقہ
ورانہ لائنوں پر تقسیم کر رہے ہیں۔ مگر اس صورتحال سے غیر بھاجپا پارٹیوں
میں متحد ہوکر مقابلہ کرنے کا کوئی جذبہ پیدا نہیں ہوا ۔البتہ بی ایس پی نے
حسب سابق ضمنی چناؤ میں امیدوارکھڑے نہیں کئے ہیں۔سماجواددی پارٹی اور
کانگریس بھی کچھ زیادہ سنجیدہ نظر نہیں آرہی ہیں۔ سماجوادی کے کماندار
اکھلیش یادو سیر وتفریح کے لئے ودیش دورے پرچلے گئے ہیں اور راہل گاندھی ،
جو 2012 کے اسمبلی چناؤ میں کانگریس کے کماندار تھے ، 12تغلق لین میں آرام
فرما رہے ہیں۔ چنانچہ میدان امت شاہ، آدتیہ ناتھ اور سنگیت سوم کے لئے کھلا
چھوڑ دیا ہے جو کھل کر فرقہ ورانہ بنیادوں پر گول بندی میں لگے ہیں۔
کچھ یہی حال مغربی بنگال کا ہے۔ بشارت (جنوبی) اور چورنگی کی دونوں سیٹوں
پر کثیررخی مقابلہ ہے۔ لوک سبھا چناؤ میں بھاجپا کو بشارت میں38% اور
چورنگی میں 26%ووٹ ملے تھے ۔ ٹی ایم سی اگرچہ اتحاد کوآمادہ تھی مگر بائیں
بازو کی پارٹیاں تیار نہیں ہوئیں۔ ان ضمنی انتخابات سے جو فضا بنے گی اس
میں طے ہوگا کہ آئندہ چند ماہ میں چار ریاستی اسمبلیوں،مہاراشٹرا، ہریانہ،
جموں و کشمیر اورجھارکھنڈ کے اسمبلی انتخابات میں غیربھاجپا پارٹیاں بھاجپا
کے فرقہ ورانہ ایجنڈے کے مقابلے کے لئے بہار فارمولے سے کچھ سبق لیتی ہیں
یا نہیں؟
۲۔ قتل کی فاسد ترغیب
ملک کے کئی شہروں میں پوسٹر لگے ہیں کہ جو شخص ایمن الظواہری، ملا عمر،
ابوبکر بغدادی، مسعود اظہر یا حافظ سعید میں سے کسی کو قتل کردیگا،اس کو
ایک کروڑ روپیہ بطورانعام دیا جائیگا ۔ لکھنؤ میں کل ہندشیعہ حسینی فنڈ کے
جنرل سیکریٹری سیدحسن مہدی نے اس پیش کش کی تصدیق کی ہے اور کہا ہے کہ رقم
ملک کے چھ کروڑ مومنین سے آناًفاناًجمع کرلی جائیگی۔ استغفراﷲ۔
بھائی مہدی کی دلیل ہے کہ یہ پانچوں برسہا برس سے معصوم انسانوں کو قتل
کررہے ہیں اورانسانوں کو جانوروں سے بھی بدترسمجھتے ہیں۔ بیشک ان پر بے
قصوروں کے قتل کا سنگین الزام ہے اور ناحق قتل بڑاجرم ہے مگر اسلام قصوروار
کوقتل کرنے کا حق ہرکسی کو نہیں دیتا، الا یہ کہ اضطراری طور پر مقتول کا
وارث اس کو قتل کردے یا دالت مجازقانونی کاروائی کے بعد حکم صادرکردے،یا
کوئی ثقہ فقیہ فتوی جاری فرمادے جیسا کہ حضرت آیت اﷲ امام خمینی ؒنے
1989میں رشدی کے خلاف جاری فرمایا تھا۔
بھائی مہدی نے جن افراد پر نشانہ سادھا ہے،ہمیں ان سے کوئی ہمدردی یا
دلچسپی نہیں، البتہ حیرت اس بات پر ہے کہ ان کو بھی وہی ’دہشت گرد‘ کیوں
نظر آئے، جن کے خلاف اسلام دشمن میڈیا، امریکا اوراسرائیلی صہیونی مہمات
چلاتے رہتے ہیں۔ ان کو وہ یورپی، امریکی اوراسرائیلی شاطرکیوں نہیں کھٹکے
جوعراق، افغانستان، فلسطین، لبنان ، شام اور پاکستان میں لاکھوں بے قصوروں
کی ہلاکت کا موجب بن چکے ہیں؟جن کے ڈرون حملوں اورکارپیٹ بمباری نے لاکھوں
عورتوں، بچوں اوربوڑحوں کو ہلاک اور مسلم مقدس مقامات، بارگاہوں، مسجدوں
اوراربوں کھربوں کی نجی و سرکاری املاک کو تباہ کردیا، جنہوں نے اسلام
دشمنی کی بدولت ایران کو مادی طور پر مفلوج کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ؟
صاف ظاہر ہے کہ مہدی کا یہ بیان دانائی سے عاری اوراس زہر میں بجھا ہوا ہے
جو عالم اسلام کے مسائل کو مسلکی فرقہ پرستی کے چشمے سے دیکھتے ہیں
اوراندرون ملک اتحاد ملت کے جذبہ کو کمزورکرکے مسلم دشمن فرقہ پرستوں کو
طاقت پہنچانے کی نادانی کررہے ہیں۔
۳۔الظواہری کا ویڈیو
طالبان اور القاعدہ جیسی عسکری تحریکوں اور ان کے قائدین کی سرگرمیوں
کاجائزہ بتاتا ہے یہ سب امریکا اوراس کے حلیفوں کے پیدا کردہ ہیں ۔ان کی
بدولت اسلام بدنام، مسلمان تباہ اور اسلام دشمن تحریکیں اور طاقتیں توانا
ہوئی ہیں۔ ان کو ہی بہانا بناکر عراق اور افغانستان کو تباہ کیا گیا اور
پاکستان سمیت متعدد مسلم ممالک کو خلفشار میں مبتلا کیا گیا۔ اب الظواہری
کا ایک طویل ویڈیوآیا ہے، جس میں ہندستان کو بھی نشانہ بنانے کاارادہ ظاہر
کیا گیا ہے۔ ہم اس کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ مودی کے امریکا دورے سے قبل
الظواہری کا یہ ویڈیو ہندستان میں مسلم مخالف فرقہ پرستی کو ہوادینے کی
سازش کا حصہ ہوسکتا ہے جو نئی دہلی پر آرایس ایس کے قبضے کے بعد نئی
توانائی کے ساتھ چلائی جارہی۔
اسی دوران امریکی ماہرین کی رپورٹ آئی ہے کہ ہندستان میں القاعدہ کا کوئی
وجود نہیں اوراظواہری جیسوں سے اہل ہند کو کوئی خطرہ نہیں۔ البتہ ہمیں یہ
اندیشہ بہت زیادہ ہے کہ اس کے نام پرمسلم دشمن عناصر انٹرنیٹ وغیرہ پر ایسی
مہم چلائیں جس سے مسلم نوجوان بہک جائیں اور پھر مصیبت میں گرفتار ہو
جائیں۔ اس لئے جملہ مسلمانوں خصوصاً نوجوانوں کو بہت زیادہ چوکنا رہنے کی
ضرورت ہے۔ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر ایسی سرگرمیوں سے دوررہیں، جوان کو
جذبات میں بہاکر کسی مصیبت میں مبتلا کردیں۔ ہندستان ایک جمہوری آئینی ملک
ہے۔ یہاں کے مسلمانوں کو کسی بیرونی طاقت کے مشورے یا مداخلت کی ہرگزضرورت
نہیں۔
۴۔ کشمیر میں تباہی
سیلاب سے غیرمعمولی تباہی کے باوجود ملک کے طول وعرض میں تباہ حال کشمیری
بھائیوں سے ہمدردی کا کوئی جذبہ نظرنہیں آتا۔ مرکز نے بیشک فوری طور سے
امداد کا اعلان کیا مگر جس طرح اتراکھنڈ میں تباہی کے بعد خاص امدادی فنڈ
قائم کیا گیا اور وزیراعظم کے امدادی فنڈ میں اعانتوں کی اپیل جاری ہوئی،
ایسا کچھ نہیں ہوا۔ نہ ہی بڑے اخباروں نے خصوصی امدادی فنڈ قائم کئے۔عوام
نے ان میں خوب عطیات بھی دئے۔ اگرکشمیر کے لئے بھی اسی طرح فنڈ قائم کئے
جاتے تو اندازہ ہوتا کہ جو عناصر ہردم ’کشمیراٹوٹ انگ‘ کی رٹ لگاتے ہیں وہ
مصیبت کی اس گھڑی میں کشمیری عوام کو اسی طرح قوم کا اٹوٹ حصہ سمجھتے ہیں
یا نہیں جس طرح دیگر ریاستوں کے عوام کو سمجھتے ہیں؟ اس روش سے ذہنوں میں
فساد کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔اس سے بھی زیادہ افسوسناک بات یہ ہے ابھی تک
زکوٰۃ فنڈ کے علاوہ کوئی ملی تنظیم بھی حرکت میں نہیں آئی ہے ، صرف زبانی
ہمدردی کا اطہار ہی ہوا ہے جو کافی نہیں۔
(ختم) |