ایشیائی بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کو اس وقت
پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے اور اس کا زراعت کے 80 فیصد حصے کا انحصار ہی
پانی ہے اور اس قدرتی دولت کو بری طرح ضائع کیا جارہا ہے رپورٹ میں بتایا
گیا ہے کہ پاکستان کا اوسط درجہ حرارت آئندہ 50 برسوں کے دوران 3 ڈگری
سینٹی گریڈ تک بڑھ جائے گا، جبکہ پانی کی قلت کے باعث دیہات سے شہروں میں
لوگوں کی آمد بڑھ جائے گی رپورٹ کے مطابق تشیونشاک امر یہ ہے کہ پاکستان
میں جنگلات کی کٹائی بہت بڑا مسئلہ بن چکی ہے اور شہروں کا رخ کرنے والے
دیہاتی افراد کا جنگلات کی کٹائی بنیادی ذریعہ روزگار بن چکا ہے اس وقت
پاکستان کے جنگلات کا رقبہ ماضی کے مقابلے میں صرف 2 سے 5 فیصد تک رہ گیا
ہے، جنگلات کی کٹائی سے موسمیاتی تبدیلیاں سیلاب اور قحط سالی کی شکل میں
سامنے آرہی ہیں۔پاکستان میں کئی ایسے منصوبے سیاست کا شکار ہیں جن کا سب سے
بڑا فائدہ پاکستان کو ہونا ہے مگر ہمارے مفاد پرست سیاست دان ان منصوبوں
میں خود ہی روڑے اٹکانے کا باعث بن کر ملک و ملت کو بحرانوں سے دوچار کر
رہے ہیں پاکستان میں سیاسی اختلافات کی وجہ سے کالا باغ ڈیم جیسے منصوبے
ملتوی رکھے گئے ہیں جب کہ بدانتظامی اوردیگرمسائل کی وجہ سے پڑوسی ملک
انڈیاکی جانب سے یکے بعددیگرے بنائے جانے والے ڈیموں کے معاملہ کو بھی
نظراندازکیاگیاہے اس حوالے سے ن تمام منصوبوں پر جن سے پاکستان کو نقصان کا
خدشہ تھا ایسا کمزور موقف اپنایا گیا جس کی مثا ل ملنا مشکل ہے اور اس
کمزور موقف کی وجہ سے بھارت ان تمام منصوبوں میں کامیاب ہو گیا جس سے
پاکستا ن کے آبی ذخائر کو شدید قسم کے خطرات لاحق ہیں آبی ماہرین کا کہناہے
کہ بھارت کی جانب سے بنائے گئے ڈیم پاکستان میں زیرزمین پانی سمیت زمین
پرموجود پانی کے ذخیرے کو شدید متاثرکررہے ہیں۔ ہمارا پڑوسی ملک اس وقت ڈیم
تعمیر کرنے میں سب سے آگے ہے جہاں پر تقریبا دو سو ڈیموں کی تعمیر کا پلان
بنایا جا چکا ہے اور ان میں سے بیشتر پر کام کا آغاز ہو چکا ہے لیکن ہم
،،،،ہم ابھی تک اپنے سیاسی جھگڑوں سے آگے نہیں نکل سکے تو ملک اور قوم کے
بارے میں کیا سوچیں گے ملک اس وقت جن بحرانوں سے گزر رہاہے ان کو دیکھ کر
ہی دل پریشان ہو جاتا ہے اگر کسی کو نہیں محسوس ہوتا تو وہ حکمران طبقہ ہے
جسے لگتا ہے کہ پاکستان کی کسی کوکوئی پرواہ ہی نہیں ہے شائد یہی وجہ ہے کہ
ہمارے ہاں پالیسیاں نہیں بلکہ صرف باتیں بنائی جاتی ہیں اور عملی طور پر
کچھ بھی نہیں کیا جاتا اگر کالا باغ ڈیم کو تعمیر کر لیا جائے تو اس سے ہر
سال آنے والے سیلاب کو ستر سے اسی فیصد تک کنٹرول کیا جا سکتا ہے اور
لاکھوں کے نقصان کو کروڑوں کے فائدے میں بدلا جا سکتا ہے اربوں روپے کی
بجلی پیدا کر کے ملکی انڈسٹری کو دوام بخشا جا سکتا ہے جس سے لاکھوں لوگوں
کو روزگار کے مواقع مل سکتے ہیں ملک میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری کو ختم کیا
جا سکتا ہے ملکی برامدات کو بڑھا کر ملک کو کھربوں کا فائدہ دیا جا سکتا ہے
اس سے ملک کو حقیقی معانوں میں ایشین ٹائیگر بنایا جا سکتا ہے۔یہ سب کام
صرف اور صرف کالا باغ ڈیم کے بن جانے سے ممکن ہیں اور اس کو بنانا نہایت
اسان بھی اور کم وقت بھی دوسری طرف کالا باغ ڈیم پر ہونے والے اعتراضات بے
بنیاد من گھڑت اور دشمن کے پھیلائے ہوئے بے بنیاد پروپگنڈے کی عکاسی کرتے
ہیں اگر باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو اس ڈیم کے فائدے بے شمار ہیں کالا
باغ ڈیم جس کو سابقہ حکومت نے آتے ہی سرد خانے میں ڈال کر پوری پاکستانی
قوم کو اندھیروں میں دھکیلاتھایہ جاننے کے باوجود کے کالا باغ ڈیم تو
پاکستان کی لائف لائن ہے آج پوری قوم بجلی کی کمی اور سیلاب کے بحران کا
سامنا کر رہی ہے مگر کوئی سیاست دان ایسا نہیں ہے جو یہ کہہ سکے کہ کالا
باغ ڈیم پاکستان کی بنیادی ضرورت ہے اس کو ضرور بننا چاہیے ہر سیاسی جماعت
کسی نہ کسی سیاسی مصلحت کا شکار نظر آتی ہے کالا باغ ڈیم منصوبے کو ختم
کرنے پر سب سے زیادہ خوشی بھارت میں منائی گئی کیونکہ بھارت کھبی بھی نہیں
چاہتا کہ پاکستان میں کوئی عوامی افادیت اور خاص طور پر آبی منصوبہ مکمل
ہوبھارت پاکستان میں تعمیر ہونے والے ڈیموں کو روکنے کے لئے اربوں روپے خرچ
کر رہا ہے اب جبکہ ملک انتہائی مشکل حالات سے گزر رہا ہے اور بجلی کا بحران
شدید سے شدید تر ہوتا جا رہا ہے ان بحرانوں سے نجات کے لیے اگر کوئی سب سے
آسان اور سستا منصوبہ ہے تو وہ کالا باغ ڈیم ہیں جو کہ نام نہادسیاسی
لیڈروں کی وجہ سے رکا ہوا ہے جس کو بہت کم وقت میں پایا تکمیل تک
پہنچایاجاسکتا ہے جس پر اب تک تقریبا ایک ارب روپے خرچ ہو چکے ہیں
فیزیبیلٹی رپورٹس تیار ہیں لیبر کالونیاں تعمیر ہو چکی ہیں سائیڈ آئیڈیل
ہونے کی وجہ سے کم خرچ میں منصوبہ مکمل ہو سکتا ہے جس سے معیشت کا پہیہ بھر
سے رواں دواں ہونے کے ساتھ ساتھ ہر سال آنے والے سیلاب سے بھی بچا جا سکتا
ہے بات صرف عملی کام کی ہے بات ہے صرف محب وطن قیادت اور محب وطن سوچ کی ہے
اگراس بار عوام نے ن لیگ کو مینڈیٹ دیا ہے تو ان کو چاہیے کہ ایسے عوامی
افادیت کے منصوبوں پر کسی قسم کی سیاسی مصلحت کا شکار ہونے کے بجائے سر عام
ایسے منصوبوں کی حمایت کریں اور پاکستان کی نسلوں کو محفوظ بنانے کے لئے
کچھ کر دیکھائیں کالا باغ ڈیم سے پاکستان اور پاکستان کے عوام کی ترقی اور
کامرانی اور بحرانوں سے نجات کی واضح جھلک نظر آتی ہواور ایسے منصوبوں کے
لئے تمام صوبوں میں مصالحت پیدا کرنے کی کوشش کریں تاکہ ملکی افا دیت کا یہ
عظیم منصوبہ شروع کیا جا سکے جس سے نا صرف بجلی کی اضافی پیدوار متوقع ہے
بلکہ ان آنے والے سیلابوں سے بھی نجات ممکن ہے اور سارا سال ملکی نہروں کے
لئے پانی کی فراہمی بھی اس منصوبے کی بدولت ممکن ہے۔ ضرورت ہے تو عملی
اقدامات کی جس کے بارے میں اس حکومت پر عوام کو بہت سی توقعات ہیں اور عوام
امید رکھتے ہیں کہ ان بحرانوں سے نجات کے لئے موجودہ حکومت یہ عملی اقدامات
کر کے دیکھائے گی موجودہ وقت میں کالا باغ ڈیم کی راہ ہموار کرنے کے لئے
میڈیا ،سول سوسائتی ، عوام ،کالم نگار، سیاست دان ،اور سب سے زیادہ حکمران
طبقے کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کے لئے اپنی تمام کوششیں بھروئے کار لائیں
تاکہ آنے والی آئیندہ نسلوں کا مستقبل محفوظ کیا جا سکے ۔ |