فی البدیہہ (extempore) تقاریر ۔ ۔ ۔
(Dr. Riaz Ahmed, Karachi)
فی لبدیہہ تقریر کرنا کوئی مشکل
کام نہیں اگر مقرر کو اس بات سے کوئی فرق نہ پڑتا ہو کہ سامعین اس کی تقریر
کے بعد کیا رائے قائم کرتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں اس بات کو یوں بھی سمجھا
جا سکتا ہے کہ ایسے مقرر کے لئے سامعین کی کوئی حیثیت نہیں پوتی یا یہ عمل
خود اس کے لئے کسی کھیل تماشے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔
کسی اسٹیج سے تقریر کرنا اس وقت آسان ہوتا ہے جب وہ عنوان کے دائرے میں
محدود ہو اور اس کے لئے مقرر کو وقت ملا ہو اور پھر اس نے اس کی تیاری بھی
کی ہو۔ کسی دئے گئے عنوان پر کسی محدود وقت کے لئے بولنا‘ لامحدود وقت کے
لئے بولنے کے مقابلے میں آسان ہوتا ہے۔ جب وقت زیادہ ہو تو پھر فضول باتیں
منہ سے نکل ہی جاتی ہیں۔ اور منہ سے نکلی بات کمان کے تیر کی طرح واپس نہیں
ہوتی۔
مقرر جب بھی تقریر کرتا ہے تو اس کے پیشِ نظر کوئی مقصد ضرور ہوتا ہے اور
اگر اسے اس مقصد سے لگاؤ ہو اور وہ اس کے لئے اہمیت رکھتا ہو تو وہ اپنی
تقریر میں بہت محتاط رہتا ہے کہ کہیں کوئی غلطی کرنے سے سارا مقصد ہی فوت
نہ ہو جائے۔ اگر مقصد مقابلہ کا انعام حاصل کرنا ہو تو تقریر میں لاپرواہ
رویہ اسے انعام سے محروم کر سکتا ہے۔ اور اگر اس کا مقصد قوم کو کسی مقصد
کے لئے اکھٹا کرنا ہو تو مقرر کی غلطیاں اس مقصد کو فوت کر دیتی ہیں۔
عمران خان اس وقت اس نظام سے نالاں اور عدل و انصاف کے متلاشی لوگوں کی
امیدوں کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ وہ آہستہ آہستہ ان کے گرد اکھٹے ہو رہے ہیں
لیکن عمران خان صاحب کی فی البدیہہ تقاریر ان کے گرد جمع ہونے والے افراد
کو ان سے متنفر کر رہی ہیں۔ اور بہت سی وجوہات کے ساتھ ساتھ ان کی یہ فی
البدیہہ تقاریر بھی ان کے گرد ایک بہت بڑا مجمع اکھٹا ہونے کی راہ میں
رکاوٹ ہیں۔ ان کی ہر دوسری تقریر ان کے ناقدین اور مخالفین کے لئے ایسا
مواد فراہم کر دیتی ہے جو ان کے خلاف مہم میں استعمال ہو سکے اور ان کو
لاجواب کر سکے۔ عمران خان کے ورکر اگر ان سے سوالات نہیں کرتے تو اس کا
مطلب یہ نہیں کہ وہ دماع ہی نہیں رکھتے یا ان باتوں سے متاثر نہیں ہوتے۔
مثالیں تو بہت ہیں لیکن ہم یہاں ان کی پچھلی ایک تقریر کا ذکر کریں گے۔ جس
میں انہوں نے کہا کہ ان کی نظر پریزیڈنٹ ہاؤس کی طرف ہے جسے وہ اقتدار میں
آنے کے بعد تبدیل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اسی ذکر کے بعد انہوں نے یاد
دلایا کہ نواز شریف نے انتخابی مہم میں عوام سے وعدہ کیا تھا کہ وہ وزیرِ
اعظم ہاؤس میں نہیں رہیں گے اور سادگی اختیار کریں گے۔ لیکن وہ اپنے وعدے
کے خلاف وہیں رہ رہے ہیں۔ یہ کہتے ہوئے وہ یہ بھول گئے کہ انہوں نے بھی اسی
قسم کا ایک وعدہ عوام سے کیا تھا کہ KPK کے وزیرِ اعلٰی ہاؤس کو ایک
لائیبریری میں تبدیل کردیا جائے گا۔
کسی قومی سطح کے رہنما کے لئے حکومت کے خلاف اسے ہٹانے کے لئے مہم چلانا
اور تمام حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف اور دیگر اراکین پارلیمنٹ کا احتساب
اور انہیں سزائیں دلوانا' ایک بہت حساس معاملہ ہوتا ہے۔ ایسے لیڈر کا ہر
عمل اور ہر لفظ بہت نپا تلا ہونا چائیے۔ کیونکہ مخالفین اس انتظار میں ہوتے
ہیں کہ وہ غلطی کرے اور وہ اسے مخالفانہ مہم کے لئے استعمال کریں اور رائے
عامہ کے ساتھ ساتھ اس لیڈر کے کارکنوں اور حامیوں کو بھی متنفر کر سکیں۔
ہم خاں صاحب کے لئے مشکلات پیدا کرنا نہیں چاہتے بلکہ ہماری کوشش یہ ہوتی
ہے کہ وہ اپنے طرزِ عمل کی باریکیوں پر بھی نظر رکھیں۔ خان صاحب کو اسٹیج
پر اپنے کردار پر بھی نظرِ ثانی کرنی چاہئے۔ ان کے اسٹیج کے گرد اکھٹا مجمع
کی خوبصورتی انہیں کچھ ضرورت سے زیادہ پرجوش کردیتی ہے جس سے ہوش جاتا رہتا
ہے۔ انہیں یہ ذہن میں رکھنا چاہئے کہ وہ اسٹیج سے تقریر کرتے وقت پوری قوم
سے مخاطب ہوتے ہیں صرف مجمع کی خوبصورتی سے نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر انکی شخصیت
کے سحر سے لوگ متاثر ہیں تو یہ اچھی بات ہے لیکن انہیں اپنے سحر کا خود
شکار نہیں ہونا چاہئے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انہیں اسٹیج پر ایک تحریک کے قائد کا طرزِ
عمل اختیار کرنا چاہئے ہر وقت مائک اپنے ہاتھ میں لئے رہنا مناسب نہیں لگتا
اور معمولی معمولی اعلانات خود کرنا مثلا کل شہزاد رائے بھی آئیں گے۔ اور
پھر دنیا نے دیکھا کہ شہزاد رائے نہیں آئے۔ خان صاحب خود کو کل کا وزیرِ
اعظم کہتے ہیں کیا انہیں اتنی حساس مہم کے دوران بحیثیت کل کے وزیرِ اعظم
ان معمولی اور بے حیثییت باتوں میں ملوث ہونا چاہئے؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم سمجھتے
ہیں ان کو ایک مختصر دورانیہ کا خطاب کرنا چاہئے اور جب تمام نقاط پر بول
چکیں تو وقت گزاری کے لئے مائک ہاتھ میں نہیں رکھنا چاہئے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور
آخری بات کہ انہیں اپنی تقریر کو لکھنا چاہئے اور پھر خود اس کو اراکینِ
پارلیمنٹ‘ صحافی برادری اور ناقدین کی نگاہ سے پڑھنا چاہئے اور اس میں وہ
نقاط ڈھونے چاہئیں جس پر ان کی ٹانگ کھینچی جا سکتی ہے اگر وہ یہ کام خود
کرنے میں ناکام ہوں اور کوئی ایسا نقطہ نہ ڈھونڈ سکیں تو پھر انہیں اپنی
تقریر کسی انتہائی مخلص اور زیرک ساتھی سے چیک کروا لینی چاہئے تاکہ وہ اور
ان کی پارٹی بعد کی شرمندگی سے بچ سکے اور وضاحتوں کے لئے عذرِ لنگ نہ تلاش
کرنے پڑیں !!! |
|