ایک نڈر اور بے باک رہنما
(Jawaid Ahmed Khan, Karachi)
اب آپ کا اگلا پروگرام کیا ہے
ابھی وہ جواب بھی نہ دینے پائے تھے کہ فوراَ ایک دوسرے صاحب بولے کل سنی
تحریک کے دو افراد مار تو دیے اب اگلا پروگرام پوچھ لیں کس کو مارنا ہے ،ایم
کیو ایم کے وسیم اختر اس اچانک حملے سے سناٹے میں آگئے اور ان سے کچھ بولا
نہ گیا ۔اے آر وائی کے ایک ٹاک شو میں ڈاکٹر شاھد مسعود نے ایم کیو ایم کے
وسیم اختر سے ان کی پارٹی کے آئندہ پروگرام کے بارے میں سوال کیا تھا جب کہ
اس ٹاک شو میں جماعت اسلامی کے شہید ڈاکٹر پرویز محمود بھی تھے جنھوں نے
خود اچانک اس سوال کا آگے بڑھ کر جواب دیا تھا جو اوپر دیا گیا ہے ۔آج
17ستمبر ہے کسی لیڈر کا اس عارضی دنیا میں آنے کا دن ہے تو کسی رہنما کا اس
عارضی دنیا سے نہ ختم ہونے والی دنیا میں جانے کا دن ہے اب سے دو سال قبل
جب داکٹر پرویز محمود اپنے دوست کی بہن کی شادی میں شرکت کے لیے اپنے ایک
ساتھی کے ساتھ رات تقریباَ ساڑھے نو بجے کار میں جارہے تھے کہ کے ڈی اے
چورنگی پر کار کے سامنے اچانک دو موٹرسائیکل سوار (کسی پیشگی منصوبے کے
تحت)ٹکرا کر گرگئے ڈاکٹر صاحب کے دوست نے جو گاڑی چلارہے تھے بریک لگایا ان
کی اور ڈاکٹر صاحب کی توجہ ان گرجانے والے موٹر سائیکل سواروں کی طرف مرتکز
ہو گئی اتنے میں اچانک کار کی دونوں سائیڈ سے فائرنگ شروع ہو گئی ڈاکٹر
صاحب جو ہمہ وقت تیار اور ہوشیار رہتے تھے کو سنبھلنے کا موقع ہی نہ مل سکا
اور وہ موقع پر ہی شہادت کی منزل سے ہمکنار ہو گئے ان کے ساتھی بھی ہسپتال
جاتے ہوئے راستے میں دم توڑ گئے ۔ جب جماعت اسلامی پاکستان کی طرف سے یہ
فیصلہ آیا کہ ناظم کراچی کے انتخاب میں جناب نعمت اﷲ ایڈوکیٹ جماعت اسلامی
کے امید وار ہوں گے تو اس وقت نعمت اﷲ صاحب کراچی جماعت کے امیر تھے لہذا
انھیں اس ذمہ داری سے سبکدوش کردیا گیا ان کی جگہ ڈاکٹر معراج الھدیٰ صدیقی
صاحب قائم مقام امیر جماعت کراچی مقرر ہوئے جو اس وقت جماعت اسلامی ضلع
وسطی کے امیر تھے ،جب امیر جماعت اسلامی وسطی کا منصب خالی ہوا تو جناب
محمد مسلم بھائی کو قائم مقام امیر ضلع وسطی بنا دیا گیا اس سے قبل جناب
مسلم صاحب کا نام ضلع وسطی کی شوریٰ نے لیاقت آباد ٹاؤن کے ناظم کے لیے
منظور کیا تھا لیکن جب وہ ضلع وسطی کے ذمہ دار بنے تو پھر ان کی جگہ جناب
ڈاکٹر پرویز محمود کا نام لیاقت آباد کے ناظم کے لیے آگے بڑھایا گیا جو
مرکز سے منظور ہو گیا ۔ کراچی کے 18ٹاؤن ناظمین میں ڈاکٹر صاحب سب سے کم
عمر اور نوجوان ٹاؤن ناظم تھے لیکن یہ اپنے موقف میں بہت سخت تھے اور اپنے
ساتھیوں کے لیے رحماء بینہم تھے ایم کیو ایم نے چونکہ اس بلدیاتی انتخاب کا
بائیکاٹ کیا تھا اس لیے ان کے بعض کارکنان کے سینے پر سانپ لوٹ رہا تھا کہ
کہ ضلع وسطی کے چاروں ٹاؤنز میں جماعت اسلامی کے ناظمین کامیاب ہوئے تھے
اور یو سی ناظمین میں بھی اکثریت جماعت اسلامی سے وابستہ لوگوں کی تھی ،ہمارے
کچھ ٹاؤن ناظمین نے دعوتی رویہ اختیار کرتے ہوئے اپنے شدید مخالفین کو بھی
اپنا ہمنوا بنانے کی کوشش کی جب کہ ڈاکٹرصاحب کا موقف یہ تھا کہ سیاسی
جماعتوں کے لوگوں کو تو ہم گلے لگا سکتے ہیں لیکن مافیاؤں سے ہمارا مک مکا
نہیں ہو سکتا یہی وجہ ہے کہ وہ کراچی کی ایک لسانی جماعت کے خلاف سخت
بیانات دیتے تھے ان کے دوستوں نے انھیں سمجھانے کی کوشش کی ذرا نرم لہجہ
رکھیں وہ کہتے تھے آپ نرمی اختیار کریں یا گرمی ،انھیں جو کرنا ہے وہ کریں
گے کیا اسلم مجاھد شہید ،جمال طاہر شہید ،مرزا لقمان بیگ شہید اور دیگر
جمیعت کے شہداء سب گرم مزاج لوگ تھے انھیں تو صدائے حق بلند رکھنے کے جرم
میں شہید کردیا گیا ۔ایک دفعہ لیبر ڈویژن نے ٹاؤن کے ایک ہال میں بغیر
اجازت کے اپنا ایک اجلاس بلایا ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ بغیر اجازت کے دفتر کی
کسی بلڈنگ میں کوئی اجلاس نہیں ہو گا ،جواب آیا کہ ہم تو اجلاس کریں گے کسی
میں ہمت ہو تو روک کر دکھائے ڈاکٹر صاحب نے بھی یہ چیلنج قبول کیا اور ہال
کی چابی اپنے پاس رکھ لی اخبارات میں خبریں شائع ہوئیں دوسرے دن ٹاؤن میں
بڑی ٹینشن تھی پولیس اور رینجرز بھی آگئی تھیں ادھر پوری کراچی سے لیبر
ڈویژن کے کارکنان دفتر کے باہر گھاس پر جمع تھے ۔ڈاکٹر صاحب نے اپنے دوستوں
کو بھی بلا لیا تھا کہ اتنے میں ایم کیو ایم کے رہنما جناب آفتاب شیخ کا
ڈاکٹر صاحب کے پاس فون آیا انھوں نے اپنے کارکنان کی طرف سے ڈاکٹر صاحب سے
معذرت کی اور کہا کے انھیں اپنے اجلاس کے لیے آپ سے پیشگی اجازت لینا چاہیے
تھی یہ لوگ ابھی آپ کو تحریری درخواست دے رہے ہیں اور یہ صرف اپنا اجلاس
کریں گے اس میں کوئی نعرے بازی نہیں ہو گی اور دیے ہوئے وقت میں یہ ختم ہو
جائے گا اور اجلاس میں تقاریر میں کسی کے خلاف کوئی بات نہیں کی جائے گی
ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ آپ دس منٹ بعد فون کریں ہم ساتھیوں سے مشورہ کر کے آپ
کو بتاتے ہیں پھر ڈاکٹر صاحب نے وہاں پر موجود ساتھیوں سے مشورہ کیا لوگوں
نے کہا کہ ہمارا مقصد کسی سے لڑائی جھگڑا کرنا نہیں ہے بلکہ چیزوں کو ایک
ضابطے میں لانے کی کوشش کرنا ہے جب وہ اس ضابطے کی پابندی کررہے ہیں تو
ہمیں انھیں اجازت دے دینی چاہیے پھر لیبر ڈویژن کے لوگ تحریری درخواست لائے
ڈاکٹر صاحب نے اس پرتحریری اجازت دی ۔ان کے دور میں لیاقت آباد ٹاؤن میں
بہت سے ترقیاتی کام ہوئے تجاوزات کے خلاف مہم چلائی گئی لیاقت آباد نمبر دس
سے بکرا منڈی ہٹائی گئی جس کی پاداش میں ان پر مقدمہ بھی بنایا گیا لیکن
ڈاکٹر صاحب کو ان سب چیزوں کی پرواہ کہا ں تھی ۔
لسبیلہ سے گلبہار چورنگی والی روڈ اس زمانے میں بہت تنگ تھی اکثر ٹریفک جام
رہتا تھا پارکنگ کی اور دیگر مشکلات الگ سے تھیں وہاں کے دکانداروں کی
انجمن اور دیگر نمایاں افراد سے مل کر اس روڈ کو چوڑا کرنے کا پروگرام
بنایا گیا سب لوگوں نے بھر پور تعاون کیا اور تمام دکانداروں نے اپنی
دکانوں اور مکانوں کو خود قانونی حدود تک پیچھے کرلیا اور بغیر کسی نقص امن
کے خطرے کے روڈ کی چوڑائی خوش اسلوبی سے ہو گئی ،جب کہ اسی طرح لسبیلہ سے
گرومندر تک پٹیل پاڑہ والی روڈ کو بھی چوڑا کیا گیا لیکن اس کے لیے برسوں
انتظار کرنا پڑا ۔
ڈاکٹر پرویز محمود سندھ میڈیکل کالج میں اسلامی جمیعت طلبہ سے وابستہ ہوئے
وہ جمیعت کے ہراول دستہ تھے بعض ناکردہ گناہ کے جرم میں جیل کی صعوبتیں بھی
طویل عرصے تک برداشت کیں بلکہ جیل سے ہی امتحانات بھی دیے کالج سے فارغ
ہونے کے بعد جماعت اسلامی سے منسلک ہو گئے اور نوجوانوں کی تنظیم شباب ملی
کے کراچی کے صدر رہے ڈاکٹر پرویز محمود ڈاکٹر تو بن گئے تھے لیکن انھوں نے
کبھی ڈاکٹری نہیں کی بلکہ کراچی کے شہریوں کو جن سیاسی وباؤں نے بیمار ڈال
دیا تھا وہ اس کا علاج کرنا چاہتے تھے ۔ڈاکٹر صاحب اپنے غیر مبہم ،واضح اور
جرات مندانہ موقف رکھنے کی وجہ سے جماعت اسلامی ہی نہیں دیگر سیاسی جماعتوں
کے کارکنان میں بھی پسندیدگی کی نگاہوں سے دیکھے جاتے تھے وہ لوگ اپنے
پروگراموں میں انھیں بلاتے تھے کئی سیاسی جماعتوں نے انھیں اپنی جماعت میں
شمولیت کی دعوت دی لیکن ڈاکٹر صاحب نے جماعت کا پلیٹ فارم نہیں چھوڑاڈاکٹر
صاحب کے پولیس رینجرز کے علاوہ بیورو کریسی کے اعلیٰ طبقات میں اچھے تعلقات
تھے یہی وجہ ہے کے بعض اہم اور پیچیدہ کام بھی عام لوگوں کے وہ حل کروادیتے
تھے ڈاکٹر صاحب تو اصلاَ چوپال جمانے والے فرد تھے یہی وجہ ہے کہ ہر وقت
کوئی نہ کوئی ان کے ساتھ موجود ہوتا تھاڈاکٹر صاحب کراچی کے ایک رہنما کی
حیثیت سے ابھر رہے تھے لیکن شاید کچھ لوگوں کو یہ گوارہ نہ تھا ڈاکٹر صاحب
کی شہادت پر جتناجماعت اسلامی کے کارکنان کو دکھ ہوا اتنا ہی دیگر سیاسی
جماعتوں کے کارکنان کو بھی بلکہ کراچی کے ہر شہری نے اس دکھ کو اپنادکھ
سمجھا جماعت اسلامی نے تو اس قتل کا کسی پر الزام نہیں لگایا لیکن ایک
لسانی تنظیم نے یہ وضاحت کرنا ضروری سمجھا کہ ڈاکٹر پرویز محمود کے قتل میں
اس کا کوئی ہاتھ نہیں ہے یہ تو جماعت اسلامی کی عادت ہے کہ وہ ہر قتل کا
الزام ایم کیو ایم پر لگا دیتی ہے ۔ |
|