پاکستان کو بدلنا ہے جاوید چوھدری صاحب ۔

بڑی مدت کے بعد قوم کو ایک اچھی خبر سننے کو ملی کہ لوگوں نے اپنے حقوق کے لئیے ناصرف آواز اٹھائی بلکہ رحمان ملک اور ن لیگی ایم این اے کو جہاز سے اتار دیا۔ اسکا کریڈٹ قادری و عمرآن کو جاتا ہے، انکے دھرنوں سے اور کچھ حاصل ہو یا نہ ہو مگر لوگوں کو زبان ضرور مل گئی ہے جسکا واضع ثبوت یہ ہے کہ نواز شریف کے سامنے کھڑے ہوکر لوگ گو نواز گو کے نعرے لگا رہے ہیں۔ جوکہ تبدیلی کا ایک سگنل ہے جسے آنکھ والا دیکھ سکتا ہے، مگر کلر بلائنڈ نیم دانشور اسے نہیں دیکھ سکتے۔ نیم دانشور ہوتا ہی وہ ہے جو صرف وہ دیکھتا ہے جو اسکا باس دکھاتا ہے۔ نیم ملاں خطرہ ایمان ، نیم حکیم خطرہ جان ، نیم دانشور خطرہ وطن۔ جاوید چوھدری صاحب نے ہمیشہ وی آئی پی کلچر کے خاتمہ کا نوحہ پڑھا ہے، ہمیشہ اس کلچر کے خاتمے کے مرثیے لکھے ہیں مگر جب اس وی آئی پی کلچر کے بدصورت تھوبڑے پر زناٹے دار تھپڑ پڑا ہے تو جناب محترم المقام زینت الاینکرین ، رائیس المحققین ، شاہسوار میدان صحافت جاوید چوہدری صاحب کے دل نازک پر گراں گذرا اور موصوف نے تجزیہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اسطرح ملک خانہ جنگی کی طرف چلا جائے گا ، مذید فرماتے ہیں کہ اگر ہر شخص فیصلہ کا اختیار اپنے ہاتھ میں لے گا تو اٹھارہ کروڑ عدالتیں ملک میں بن جائیں گی۔ جاوید چوہدری صاحب ٦٥ سال سے اس ملک کی تقدیر کے فیصلے آپکے چند سیاستدان دوستوں نے کیے، کوئی ایک فیصلہ بتا دیں جو ان ڈاکوؤں نے عوام کی بھلائی کے لئیے کیا ہو۔ رہی بات انصاف کی کرسی پر بیٹھے انصاف کے دیوتاؤں کی تو ان سے انصاف لینے کے لئیے نوح کی عمر ، قارون کا خزانہ اور صبر ایوب چاہئیے۔ لہذا اب عوام کو اپنے فیصلے خود کرنے ہیں، پاکستان کو بدلنا ہے، اب ہر ڈاکو کو حساب دینا ہے۔ یہ چور اور کتی کا ملکر لوٹنے کا کھیل زیادہ دیر چلنے والا نہیں ، زمین انکے قدموں تلے سے کھسک رہی ہے مگر نیم دانشور انکی نظر کو دھوکا دے کرروٹیاں سینک رہے ہیں۔ گذشتہ روز عمرآن خان نے دوران تقریر لفافہ جرنلسٹس کا ذکر کیا جو کہ حقیقت پر مبنی تھا کیونکہ ہر شعبہ میں ایسے لوگ موجود ہوتے ہیں مثال کے طور پر سیاستدانوں ، وکلاء ، ججوں ، قاضیوں حتی کہ مولویوں میں بھی ضمیر فروش لوگ موجود ہوتے ہیں بالکل اسی طرح صحافیوں میں بھی ضمیر فروش لفافہ صحافی بلاشبہ موجود تھے ، موجود ہیں اور موجود رہیں گے۔ لطف اندوز بات یہ ہے کہ عمرآن خان صاحب نے لفافہ جرنلسٹس کا ذکر کرتے ہوے کسی کا نام نامی اسم گرامی نہیں لیا تھا مگر پھر بھی کچھ نامور صحافیوں کو بہت تکلیف محسوس ہوئی جن میں انتہائی محترم جاوید چوہدری صاحب سرفہرست ہیں کیونکہ پنچابی کی کہاوت ہے کہ کانے کو کان معلوم ہوجاتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ چوھدری صاحب لفافہ جرنلسٹ نہیں ہیں، انھیں بس عمرآن کی نفرت کا مرض لاحق ہوگیا ہے اور جذبات کی رو میں بہہ کر آج انھوں نے خان کو چیلنج کیا کہ میرے خلاف ایک ثبوت لے آؤ تو ناصرف میں صحافت بلکہ یہ ملک بھی چھوڑ دوں گا ، جبکہ چوھدری صاحب باخوبی جانتے ہیں کہ جگاڑی کرپشن کا کوئی ثبوت چھوڑتے ہی نہیں اور شومئی قسمت سے کوئی ثبوت مل بھی جائے تو اسے اپنے خلاف سازش کہہ کر داخل دفتر کردیا جاتا ہے۔ ویسے ان ثبوتوں کا کیا بنا جو آپکے دوست خواجہ آصف نے جیو کی غداری کے دیکھے تھے ؟ فائلوں کے قبرستان میں دفن ہوگئے۔ لہذا جذباتی نہ ہوں نہ آپ صحافت چھوڑیں نہ یہ ملک ، تیریاں نت وطناں نوں لوڑاں، بس اپنی نفرت کا علاج کرلیں سب اچھا ہوجائے گا۔ اگر طبع نازک پہ گراں نہ گذرے تو ایک نسخہ بتا دیتا ہوں ۔ صبح سویرے کھلی فضا میں کھڑے ہوکر لمبے لمبے سانس لیں یاد رہے جب سانس اندر کھینچیں تو کہیں گو جب سانس باہر چھوڑیں تو کہیں نواز ، اگر اردگرد کا ماحول سازگار نہ ہو تو دل میں بھی کہہ سکتے ہیں گونواز گو ، گو نواز گو ۔ ساتھ رات کو مربہ ہریڑ گرم دودھ کے ساتھ کھائیں اس سے معدہ درست رہے گا ، کیونکہ اگر معدہ درست نہ ہو تو پھر الٹے سیدھے تجزیے دماغ میں آتے ہیں اور زبان سے ادا ہوجاتے ہیں جوکہ شرمندگی کا باعث بنتے ہیں ۔ اور رآت کو سونے سے پہلے فیملی لمیٹڈ جمہوریت پر لعنت ضرور بھیجیں ، چند ہفتے اس نسخہ پر عمل کریں آپکو ضرور افاقہ ہوگا اور پھر نہ آپکو صحافت چھوڑنی پڑے گی اور نہ ملک۔ آخر میں آپ سے گذارش ہے کہ اپنے کندھوں کو ہلکا پھلکا کریں ان سے پاکستان کا بوجھ اتار دیں، اور پاکستان کو پھلنے پھولنے دیں اسے بدلنے دیں کیونکہ پاکستان کو آج نہیں تو کل بدلنا ہے جاوید چوھدری صاحب۔ علم کے نور شعور و آگہی اور عوامی طاقت کے آگے بند باندھنا حماقت ہے۔ آخر میں آپکا شکریہ کہ آپ ناصرف میری کڑوی کسیلی تحریر پڑھتے ہیں بلکہ اسے شئیر بھی کرتے ہیں۔
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Usman Ahsan
About the Author: Usman Ahsan Read More Articles by Usman Ahsan: 140 Articles with 186698 views System analyst, writer. .. View More