سیلاب بلا پے پایاں
(mohsin shaikh, hyd sindh)
تحریر بشری رحمان
اس طرف سے بڑی محبت سے مودی کی ماں کو چادر اور میٹھے آموں کا تحفہ بھیجا
گیا، حضور والا قبول کیجئے، اور جواب میں بڑے پیار اہتمام اور سلیقے سے
سیلاب کا تحفہ بھیجا گیا۔ اچھلتی مچلتی لہروں پر لکھا گیا۔
ڈوب کر مر جائیے یا تیر کر تر جائیے،
بندہ پرور جائیے سیلاب کو بھگتائیے،
1978ء کے بعد ہمیں ایسا تباہ کن سیلاب تجارت اور دوستی کے ناطے ملا ہے،،،
دھن تن دولت کے ساتھ کھڑی فصلیں صحت مند مویشی اور قیمتی جانوں کا نقصان
ہوا،، مکانات ڈھے گئے، مکیں بے گھر بے سائباں ہوگے، ابھی خونخوار پھنکارتے
ہوئے ریلے جاری ہیں، کتنی بستیاں اجڑ چکی ہیں، اور کتنی اجڑنے کی منتظر
ہیں، کتنے لوگ جانوں سے چلے گے، کتنے گھر مسمار ہونے کے منتظر ہیں، کتنے
غریبوں کو اور بے گھر کیا جائے گا، جتنی تیزی سے بسے بسائے شہر گائوں دیہات
اسکی لپیٹ میں آرہے ہیں، اتنی شدت سے ہزار ہا اندیشے سر اٹھا رہے ہیں۔
یہ بات اٹل ہے کہ آفات ارضی و سماوی سے کوئی زمین عاری نہیں، قدرتی آفات کا
پتہ لگانے کے لیے ابھی تک سائنس بھی ناکام ہیں، خاص کر زلزلے وغیرہ کا مگر
بارشوں اور سیلاب کا پتہ تو با آسانی چل جاتا ہے، ایسی آفات سے نمٹنے کے
لیے پہلے ہی سے پروگرام مرتب کرلیے جاتے ہیں، مگر پاکستان میں ہر سال سیلاب
آرہا ہے، سندھ پنجاب میں، کئی جمہوری حکومیتں آچکی ہیں کئی جا چکی ہیں، اور
اپنے کارنامے گنوا چکی ہیں، مگر ابھی تک کسی جمہوری حکومت نے آفات سے نمٹنے
کی کوئی تدبیر بر وقت نہیں کی، ارے اللہ کے بندوں ایک محکمہ ہی بنا دیتے
ہیں، پھر وہ محکمہ رفتہ رفتہ ہاتھی بن جاتا ہے،
پھر محکمے والے تنخواہیں لیتے ہیں مراعات لیتے ہیں عیش کرتے ہیں، مگر کام
کچھ نہیں کرتے، حالانکہ انہیں معلوم بھی ہوتا ہے کہ ساون بھادوں کے مہینے
ہیں، ساون بھادوں کی جھڑی لگنے والی ہے، ہمارا ہمسایہ روایتی دشمن قابل
اعتبار نہیں ہے، ہمارے لا تعداد گائوں دیہات کناروں پر آباد ہیں ۔ پھر کیوں
محکمہ موسمیات ماحولیات اور ڈزاسٹر والے سوتے رہتے ہیں، اور انتظار کرتے
رہتے ہیں کہ قیامت آجائے تو پھر ہم جاگیں گے۔ اب تو سندھ میں بھی خبریں
آرہی ہیں کہ سندھ بھی سیلابی زد میں آجائے گا لوگ خوف سے مارے مارے پھررہے
ہیں،
اس سے پیچھلے برس آنے والے سیلاب متاثرین آج تک اپنے گھروں میں آباد نہیں
ہوسکے، ایک قیامت گزری نہیں کہ دوسری قیامت آن پہنچی، ان غریبوں کے دکھوں
کا مداوا کون کریں گا، ٹھنڈے ٹھار محلوں میں رہنے والے حکمرانوں کو کیسے
احساس ہوسکتا ہیں، اس سے پہلے انہیں خلق خدا پر رحم آیا جو اب کریں گے رحم
مخلوق خدا پر۔ جمہوریت والوں کو تو دوروں سے فرصت نہیں تقریروں سے بلند و
بالا دعوئوں سے فرصت نہیں، جمہوریت اور آئین کی بالا دستی کے رٹے لگانے سے
فرصت نہیں، سیلاب کے دوران ہیلی کاپڑ کے ذریعے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرنا
اشیائے خوردنی کے ٹرکوں کو تقسیم کرنا اور متاثرین کو پانی کی یلغار سے
نکال لینے سے غریبوں کے دکھ کا مداوا نہیں ہوسکتا، ہونا تو یہ چائیے تھا کہ
سیلاب کی آمد سے پہلے تین اہم کام کرنے چاہیے تھے،
1۔ متاثرین کو مال مویشی اور ضروریات زندگی کا سامان سمیت محفوظ مقام پر
پہنچانا چاہیے تھا۔
2۔ انکی رہائش گاہ کھانے پینے اور علاج معالجہ کا مستقل بندوبست کرنا چائیے
تھا۔
پانی کے داخل ہونے سے قبل ہی ان کو ان کے گھروں اور بستیوں کو پہلے سے بہتر
انداز میں آباد کرنا چاہئے تھا،
مگر ہمارے یہاں ایسے موقعوں پر ڈنگ ٹپائو کام اور پبلسٹی بہت کی جاتی ہیں،
اس سے پہلے کوئی پلاننگ تدبیر نہیں کی جاتی، جب پانی سر سے گزر جاتا ہے تو
پنجاب کے وزیراعلی صاحب لمبے بوٹ پہن کر پانی میں اتر جاتے ہیں، اور فوٹو
سیشن کروا کر یہ شو کراتے ہیں، کہ میں بہت کام کررہا ہوں۔ حالانکہ یہ کام
سیلاب آنے سے پہلے کیے جاتے ہیں،،، ایسے کہتے ہیں جمہوریت، سیلاب تو چند دن
میں اپنی کارروائی کرکے چلا جاتا ہے، مگر جمہوریت والے حکمران طبقہ جگہ جگہ
امداد کا اعلان کرکے اپنے شاہانہ ٹھاٹ باٹ راحت کدوں میں تھکن اتارنے چلے
جاتے ہیں، خلقت فریاد کرتی رہے جاتی ہے۔ پھر سیلاب کے دوران ہی ایک محکمہ
ان کی دوبارہ آباد کاری کے کاموں پر لگ جاتا ہے، لیکن تباہ حال غریبوں کے
دکھ کا مداوا پھر بھی نہیں ہوپاتا، جو کچھ حکومت اور محکمہ کے طرف سے ہوتا
ہے وہ محض دکھاوا ہوتا ہے، حالانکہ جس قدر امداد آتی ہے، اس سے متاثرین کو
پہلے سے بھی زیادہ بہتر رہائش اور سہولیات میسر آسکتی ہیں، اس کے لیے خلوص
نیت ہونا شرط ہے، مگر کچھ لوگ ایسے موقعوں پر اپنے ہاتھ رنگنے سے باز نہیں
آتی، مجبوروں کی مجبوری سے بھر پور فائدہ اٹھایا جاتا ہے، انتظامی معاملات
میں ہماری جمہوری حکومتیں ہمیشہ ناکام ہی رہی ہیں،
وجہ صاف ظاہر ہے کہ انتظامیہ نا اہل لوگوں پر مشتمل ہیں، جیسے حکمران ہونگے
ویسی ہی انتظامیہ ہونگی، انڈیا تو اپنی ہٹ دھرمی سے باز نہیں آتا۔ حکمران
کالا باغ ڈیم بناتے نہیں ہیں، لوگ چیختے جارہے ہیں کا معتدد ڈیمز بروقت
بنائے جائے، اگر معتدد ڈیمز بنا لیے جاتے پہلے سے ہی تو بچھڑا ہوا پانی
خلقت کو یوں سزا نہ دیتا، اگر آج کالا باغ ڈیم بنا ہوا ہوتا تو پاکستان کے
لیے بجائے زحمت کے رحمت ثابت ہوتا، پیاسی زمینیں سیراب ہوتی، یہی زمینیں
سونا اگتی فصلیں تباہ و برباد نہ ہوتی، بجلی وافر مقدار میں بنتی، لوگوں کو
روزگار میسر آتے، بھارت کی شروع ہی یہ کوشش ہے کہ پاکستان کالا باغ ڈیم نہ
بنائے، پاکستان ترقی نہ کریں،
غور طلب بات ہے سندھ طاس معاہدے کی نئی تجدید اور ترتیب ہونا چائیے، اگر
انڈیا ہم سے مخلص ہے، اور ہمارے ساتھ برابری کی سطح پر تجارت کرنا چاہتا
ہے، تو قوری طور پر دو کام کریں جن لوگوں کو انڈیا کالا باغ ڈیم کی مخالفت
کرنے کی رقم دے رہا، وہ بند کرا دیں، دوسرا سندھ طاس معاہدے کی عالمی معیاد
ختم ہوچکی ہے، پانی سر سے گزر چکا ہے، اور ہر سال ہماری معیشت کو ڈبویا
جارہا ہے، اگر آج کے حکمران نریندر مودی سے خوشگوار تعلقات رکھنا چاہتے ہیں
تو سندھ طاس معاہدہ بھی نئے سرے سے ہونا چاہیے، اکیسویں صدی کا دور ہے،
دنیا میں نت نئے معاہدے ہورہے ہیں، پاکستان کو ایک بوسیدہ معاہدے کی سزا دی
جارہی ہیں،
|
|